ڈاکٹر امجد کی کہانی

شیخ شرف الدین سعدی ؒ ایک حکایت میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک روز نوشیرواں عادل کے دربار میں داناﺅں کی ایک جماعت کسی اہم معاملے پر بات چیت کررہی تھی بادشاہ کا وزیر بزرجمہر بھی اس گفتگو میں شریک تھا اور اس اجلاس کی صدارت کررہاتھا وہ تمام گفتگو کے دوران خاموش رہا اور کسی رائے کا اظہار نہ کیا اس پر ایک دانا نے اس سے پوچھا ”آپ بحث میں حصہ کیوں نہیں لے رہے “بزرجمہرنے جواب دیا وزیر طبیب کی طرح ہوتاہے اور طبیب بیمار کے علاوہ کسی کو دوا نہیں دیتا پھر جب میں دیکھ رہاہوں کہ تم سب کی رائے درست اور صحیح ہے تو درمیان میں میرا بولنا کوئی دانشمندی کام نہیں ہے جو کام میرے دخل دیئے بغیر ہوسکتاہے اس میں مجھے دخل دینے کی کیاضرورت ہے البتہ اگر میں دیکھوں کی راہرو اندھاہے اور اس کے سامنے کنواں ہے تو ا س وقت اگر میں خاموش رہو ں تو یہ جرم ہے بزرگوں کی صحبت میں دل اور اہل دانش کی مجلس میں زبان قابو میں رکھ کر بیٹھو ۔۔۔

قارئین آج ہم جس نازک موضو ع پر بات کرنے لگے ہیں اس کا تعلق معاشرے کے ایک ایسے طبقے کے ساتھ ہے کہ جسے پوری دنیا کا ہر انسان ”مسیحا “کہہ کر پکارتاہے، یہ وہ انسان ہے کہ جو 24گھنٹے کسی کی بھی تکلیف میں اس کے درد کو رفع کرنے کے لیے اپنا آرام بھول جاتاہے ،یہ وہ شخصیت ہے کہ امیر ،غریب ،حاکم ،رعایا ،بوڑھا ،جوان ،مرد،عورت ،بچہ یا بڑا ہر کوئی جب اپنے در دکو لے کر جاتاہے تو اللہ کے بعد اس زمین پر ظاہری سہارا یہی انسان ہوتا ہے جسے ہمارا معاشرہ ”ڈاکٹر “کے نام سے پکارتاہے ڈاکٹر امجدچوہدری پنڈی جھونجا نامی گاﺅں ضلع بھمبر میں میاں خان کے گھر پیدا ہوائے ابتدائی تعلیم اور ایف ایس سی کے بعد بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں داخلہ ہوا اور 2003میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد انہوں نے میوہسپتال لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری کے شعبہ میں سپشلائزیشن کے لیے داخلہ لیا اور چھ سالہ تربیت حاصل کرنے کے بعد آرتھوپیڈک سرجری میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی سپشلائزیشن کرنے کے بعد ڈاکٹر امجد کے لیے بہت سے آپشن اور راستے موجودتھے اگر وہ چاہتے تو بڑے آرام سے سعودی عرب ،مڈل ایسٹ،برطانیہ ،امریکہ ،سیکنڈے نیوین ممالک یا دنیا کے کسی بھی خوشحال اورترقی یافتہ ملک میں انتہائی اچھی تنخواہ پر ملازمت اختیار کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا اور وطن کی مٹی چھوڑ کر جانا گوارا نہ کیا انہوں نے اپنی دھرتی پر اپنے ہی ہم وطنوں کی خدمت کرنا اور ان کا سہارا بننا اپنا فرض سمجھا اور بھمبر میں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کو جوائن کرلیا انہوںنے بھمبر میں ہی اپنے بہتر گزر بسر کے لیے اپنا ایک چھوٹا سا ہسپتال ”کشمیر ہسپتال اینڈ میٹرنٹی ہوم “کے نام سے بنالیا اور لوگوں کی خدمت کرنا اپنا مشن سمجھا ۔

قارئین حالیہ عید کے روز پورے ضلع بھمبر کے تمام ہسپتال بند تھے اور اس دوران بنڈالہ تحصیل سماہنی سے ایک مریضہ جو زچگی کے انتہائی نازک مراحل میں تھی اسے ایمرجنسی کی حالت میں لایا گیا چونکہ اور کوئی ہسپتال کھلانہیں تھا واحد کشمیر ہسپتال میں ڈاکٹر مہناز عامر مریضوں کو دیکھ رہی تھیں ڈاکٹر مہناز ایک آرمی آفیسر کی اہلیہ ہیں انہوں نے مریضہ کا معائنہ کرنے کے بعد فوری آپریشن کا مشورہ دیا ہنگامی بنیادوں پر آپریشن کیا گیا اور اللہ کے فضل وکرم سے یہ آپریشن کامیاب رہا اور مریضہ اور نومولود بچی کی جان بچ گئی یہ مریضہ تین دن ہسپتال رہی ان کے لواحقین میں ایک ایسا شخص بھی آیا جس نے اپنا تعارف جرنلسٹ کے طور پر کروایا ڈسچارج کرتے ہوئے خصوصی رعایت کی گئی کیونکہ مریضہ کا خاندان متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا چند روز بعد مریضہ کا وہی عزیز جو اپنے آپ کو جرنلسٹ کہتا تھا وہ ہسپتال میں آیا اور آکر اس نے ڈاکٹر سے مطالبہ کیا کہ مریضہ سے لیے جانے والے بل میں سے اس کا ”حصہ “ اسے دیا جائے ڈاکٹر نے نرمی سے معذرت کرلی اور یہ صاحب سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے ہوئے چلے گئے اور بعد میں چند اخبارات میں انہوں نے ڈاکٹرز کے خلاف خبریں دیناشروع کردیں ابھی یہ سلسلہ چل ہی رہا تھا کہ 20,21ستمبر 2011ءکی درمیانی شب جب ڈاکٹر امجد ڈی ایچ کیو ہسپتال میں ڈیوٹی پر موجودتھے اور انہوں نے اپنی گاڑی ایل آر ای 2652ءہسپتال کی پارکنگ میں کھڑی کی ہوئی تھی چند نامعلوم افراد نے اس کو آگ لگادی اور گاڑی جل کر خاکستر ہوگئی ۔

قارئین ڈاکٹر امجد کی یہ کہانی صرف ایک مسیحا کی داستان نہیں بلکہ قوم کے اس لائق ترین دماغ کے ساتھ ملک بھر میں اسی طرح کا سلوک کیا جارہا ہے ،ڈاکٹرز کے ساتھ بیوروکریسی سے لے کر حکمرانوں تک ہر کوئی ایسا ہی سلوک کرکے آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں یاد رکھیے جو قومیں اپنے لائق لوگوں کی قدر نہیں کرتیں ان کا اپنا وجو دمٹ جاتاہے قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال جب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے پنجاب اور ملک بھر میں اپنے مطالبات کی منظور ی کے لیے احتجاج شروع کیا تو یہ پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا ہی تھا کہ جنہوںنے ڈاکٹرز کے جائز ترین مطالبا ت کے لیے ان کے بھر ساتھ دیا ہے اور ان کے شانہ بشانہ پولیس کا تشدد بھی برداشت کیا اور آخر کار ڈاکٹروں کی تحریک کامیاب ہوئی ہم سمجھتے ہیں کہ صحافی ہونے کا دعویٰ کرکے کوئی بھی غیر تہذیب یافتہ ذہن اگر معاشرے میں کسی کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو صحافی برادری کو سب سے پہلے ا سکا ازخود نوٹس لینا چاہیے اور ایسی کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے باہر نکال دینا چاہیے ۔

قارئین ڈاکٹر امجد اس وقت پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ ان کو انصاف فراہم کرنے کے کیا کرتے ہیں ان کی گاڑی کو تو جلادیا گیا لیکن ان کے صحت مند جذبے ان سے کبھی نہیںچھینے جاسکتے بقول غالب
گھر میں تھاکیا کہ ترا غم اسے غار ت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر سوہے

ہم آزادکشمیر کے صدر ،وزیر اعظم ،چیف سیکرٹری ،آئی جی پولیس اور دیگر تمام اتھارٹیز سے اس کالم کی وساطت سے اپیل کرتے ہیں کہ ڈاکٹرامجد کے دکھ کا ازالہ کیاجائے اور انہیں انصاف فراہم کیا جائے یہی وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے ۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو یاد رکھیے کہ یہ تمام زہین دماغ یہ ملک چھوڑ کرچلیں جائیں گے اور اس ملک میں ہربستی ویرانوں میں بدل جائے گی ہمیں امید ہے کہ ایسا نہیں ہونے دیا جائے گا اور ڈاکٹر امجد کو انصاف ملے گا ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
جج نے ملز م کو پھانسی کی سزاسنانے کے بعد کہا کہ تمہاری آخری خواہش کیا ہے ملزم
میں آم کھانا چاہتا ہوں
جج لیکن یہ آم کا موسم تونہیں ہے آم کا موسم سات ماہ بعد آئے گا
ملزم ”کوئی بات نہیں جناب میں سات ماہ انتظارکرلوں گا “

قارئین ہمیں امید ہے کہ ڈاکٹر امجد کو انصاف کی فراہمی کے لیے ”آم کے موسم “کا انتظارنہیں کیا جائے گا ۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374321 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More