امریکہ نے ایک دفعہ پھر اپنی
خصلت دکھائی ہے اور اپنی ناکامیوں کا الزام پاکستان کے سر دھرتے ہوئے بے
شمار مطالبات بھی کر دئیے اور اپنی تمام تر کوتاہیوں کا ملبہ پاکستان پر
ڈال دیا ۔ اس کا سب سے بڑا مطالبہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی ہے اور یہ
مطالبہ بیک آواز کیا گیا ہے اگر چہ زیادہ اہم امریکی جائنٹ چیفس آف سٹاف
مائیک مولن کا بیان ہے جس نے کابل میں امریکی سفارت خانے اور انٹر کا
نٹیننٹل ہوٹل میں ہونے والے دھماکوں کا ذمہ دار آئی ایس آئی اور پاکستان کو
قرار دیا ہے۔ کابل ایک جنگ زدہ ملک کا جنگ زدہ دارالحکومت ہے اور امریکہ
جانتا بھی ہے کہ وہ ایک قابض ملک ہے اور افغان اپنے ملک پر قبضہ کرنے والے
کو نہ کبھی معاف کرتا ہے اور نہ ہی قبضہ طویل ہونے دیتا ہے ،وہ اپنی غیرت
کی خاطر جان سے گزر جاتا ہے اور اس کی اس فطرت سے امریکہ واقف ہے اور وہ یہ
بھی جانتا ہے کہ ہر افغان کرزئی نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود وہ اس جدوجہد
کا سہرا پاکستان کے سر باندھ رہا ہے، جبکہ بات دراصل یہ ہے کہ وہ اپنی
’’مفتوح وسیع و عریض سلطنتِ کابل‘‘ میں بھی امن قائم رکھنے میں ناکام رہا
ہے کیونکہ وہ امریکہ کے علاوہ پوری دنیا کی بد امنی کو اپنی ذمہ داری
سمجھتا ہے۔
پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کا امریکہ کا لا یعنی مطالبہ نیا
نہیں اور وہ خود بھی مسلسل ڈرون حملوں میں مصروف ہے۔ کچھ عرصے سے اس مطالبے
میں اضافہ کیا گیا اور اضافے کے ساتھ ہی پاکستان میں دہشت گرد کاروائیوں
میں اضافہ ہوا ۔پہلے کوئٹہ میں ڈی آئی جی ایف سی پھر کراچی میں ایس ایس پی
سی آئی ڈی اورپھر نشتر آباد پشاور میںسی ڈیز کی ایک دکان پر خود کش حملہ
کیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان کے حالات کو مزید خراب ظاہر کرنے کے لیے کوئٹہ
میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک اور تنازعہ شروع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے
اور اسی کی آڑ لے کر ایران کو بھی بدظن کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ امریکہ کے
لوگ شاید انسانیت پسند ہوں لیکن ان کی حکومت کا ایک ہی اصول ہے لڑاؤ اور
مارو اور عرصہ دراز سے وہ اسی اصول پر عمل پیرا ہے۔ وہ پہلے الزام لگاتے
ہیں اور خود ساختہ ثبوتوں کی بنا پر حملہ کرتے ہیں پھر انکا میڈیا انتہائی
آزادی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی حکومت کے کارنامے کے بارے میں رپورٹ مرتب
کرتا ہے کہ ثبوت نہ مل سکے اور الزامات غلط تھے جبکہ یہی میڈیا پہلے اپنی
حکومت کو شدومد سے تعاون فراہم کرتا ہے۔ یہی کچھ عراق میں کیا گیا
افغانستان میں بھی یہی جنگ لڑی جا رہی ہے اب ایسے ہی الزامات پاکستان کے
اوپر لگائے جا رہے ہیں اور دباؤ بڑھانے کے لیے امن کی صورت حال کو خراب سے
خراب تر کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مائیک مولن کو کابل دھماکوں کی تکلیف اس
لیے ہوئی ہے کہ وہ امریکی سفارت خانے اور انٹر کا نٹیننٹل ہوٹل میں تھے
ورنہ اُسے کسی افغان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے لیکن اسکو یا اسکی حکومت کو سی
آئی اے کی کاروائیاں نظر نہیں آرہیں جس نے ہمارے عوام اور ہماری فوج کو
گاجر مولی کی کھیت سمجھا ہوا ہے کہ کاٹو اور کاٹو اور بس۔ چترال سکاوٹس پر
حملہ ابھی تقریباََ ایک ماہ پہلے کی بات ہے اور یہ حملہ افغان حدود سے کیا
گیا لیکن یہ اوبامہ ،ما ئیک مولن ، ڈیوڈ پیٹریاس اور حتیٰ کہ جے کارنی کسی
کے خیال میں تخریب کاری نہیں تھی اس لیے جو اب بیک آواز چیخ اٹھے ہیں اُس
وقت چپ رہے۔ مہمند ایجنسی میں فوجی اہلکار وں کو قطار میں کھڑا کرکے گولی
مار کر شہید کرنے کے واقعے کو بھی امریکہ دہشت گردی کے زمرے میں نہیں لارہا
۔ پاکستان پچھلے گیارہ سال سے امریکہ کی جنگ لڑتے لڑتے اور بقول ہماری وزیر
اطلاعات فردوس عاشق اعوان دنیا کو محفوظ بناتے بناتے خود انتہائی غیر محفوظ
ہو گیا ہے۔ اس جنگ میں ہم نے نہ صرف اپنا امن کھویا، ہزاروں پاکستانیوں کی
جانیں کھوئیں بلکہ اپنے وسائل اور اپنی معیشت کی بربادی سے اپنی آنے والی
نسلوں کو ابھی سے سالہاسال پیچھے کردیا ہے۔ترقی معکوس کے اس عمل میں ہماری
تجارت ہماری معیشت سب بہہ گئی لیکن جناب اوبامہ نے اس سب کچھ کے باوجود
پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان سنجیدگی دکھائے تو مل کر کام کرتے
رہیں گے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس ’’کام‘‘ میں امریکہ پاکستان کا محتاج
ہے، وہ ہمیں جتنی امداد دے رہا ہے ہم اُس کی بہت بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو
یہ اس وقت بھی برادارنہ نہ سہی قدرتی ضرور ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پر امن
افغانستان پر امن پاکستان کے لیے بہت ضروری ہے لیکن اُس افغان عوام کو
پاکستان کے خلاف بھڑکانے کے لیے امریکہ اور افغان حکومت بشمول بھارت تند ہی
سے کوشاں ہیں جس کی ایک نسل پاکستان میں پیدا ہوئی، اسکے وسائل استعمال
کرکے پلی بڑھی اور پڑھی لکھی اُسکو وہ سارا وقت بھلا کر پاکستان کے خلاف کر
دیا جائے ۔ امریکہ نے پاکستان پر ’’پراکسی وار‘‘ کا الزام لگایا ہے جبکہ وہ
خود پاکستان کو اپنا اتحادی قرار دینے کے باوجود اپنے مقابلے میں اس چھوٹے
اور کمزور ملک کے خلاف کئی محاذوں پر سرگرم عمل ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ خود
امریکہ اس ساری دہشت گردی کا ذمہ دار ہے جو پاکستان اور افغانستان میں
ہورہی ہے بلکہ اس کا وجود ہی ان سارے حالات کا باعث ہے آج اگر وہ اس علاقے
سے نکل جائے تو حالات خود بخود معمول پر آجائیں گے۔ امریکہ تو اپنے مفادات
کی جنگ لڑہی رہا ہے اور عراق کے کیمیائی ہتھیار وں اور افغانستان میں اسامہ
کی موجودگی کے بہانے کی طرح اگر حقانی گروپ کو بطور بہانہ یا بطور چارہ
استعمال کرکے پاکستان کے خلا ف کاروائی کی گئی تو ہمیں بھی اس کے لیے خود
کو تیار کر لینا چاہیے اگر چہ امریکی بیانات کے خلاف پاکستان نے ردعمل ظاہر
توکیا لیکن قوم جس توانائی سے یہ ردعمل چاہتی تھی وہ نظر نہ آئی ۔جس طرح
حکومت دوسرے ممالک کے سفیروں کو کسی ایسے بیان پر دفتر خارجہ طلب کر سکتی
ہے امریکی سفیر کو اسی طرح احتجاج کے لیے کیوں طلب نہ کیا گیا۔ کیا
حقیقتاََ ہم اپنی آزادی اور خود مختاری گروی رکھ چکے ہیں ۔ ہماری وزیرخارجہ
نے کہا کہ الزام تراشی سے امریکہ پاکستان جیسے اتحادی کو کھودے گا لیکن کسی
عملی احتجاج اور اقدام کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ۔اقدام سے میری مراد
ہرگز امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں لیکن کیا ہم امریکہ کو جو تعاون فراہم کر رہے
ہیں اُس پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی، اگر بقول امریکہ ہم پراکسی وار ہی
لڑرہے ہیں تو جنگ سے ہاتھ کھینچ کر کیا اُسے اپنی اہمیت کا احساس نہیں
دلایا جا سکتا اور یوں ہم جو پیسہ اور وسائل امریکہ کی جنگ میں جھونکے جا
رہے ہیں وہ ترقی کے لیے استعمال کر کے واقعتا ملک کو باعزت ملکوں کی صف میں
لا کھڑا کیا جا سکے گا اور امریکہ نے جس امداد کو حقانی نیٹ ورک کے خلاف
کاروائی سے مشروط کر لیا ہے اس امداد کا احسان ہی نہ لیا جائے ویسے بھی ہم
امداد سے زیادہ اپنے وسائل کی تباہی اور جانوں کا ضیاع کر رہے ہیں ۔ ہمیں
اپنی عزت کو خود بحال کرنا ہے جو بقول انکی فوج کے سربراہ کے ہم خطے میں
کھورہے ہیں اگر امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ میں مصروف ہے تو پھر ہمیں بھی
عزت سے جینے اور اپنے مفادات کے تحفظ کا مکمل حق ہے اور ہمیں کسی بھی طریقے
سے سہی امریکہ کو یہ احساس دلانا ہی ہوگا۔ |