حالیہ برسوں کے دوران دنیا نے دیکھا کہ چین نے اپنی خوراک کی پیداوار کو فروغ دینے کے لئے زبردست کوششیں کی ہیں اور غذائی تحفظ کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔بین الاقوامی فوڈ پالیسی سے وابستہ ماہرین کے خیال میں خوراک کی درآمدات پر انحصار کم کرنے اور زرعی تحقیقی فنڈنگ بڑھانے کی چین کی حالیہ کوششوں نے دنیا کے معروف غذائی درآمد کنندہ کو عالمی سطح پر اناج کی قیمتوں میں اضافے اور سپلائی چین کے مسائل کے خلاف زیادہ لچکدار بننے میں مدد کی ہے۔ فصلوں کی پیداوار بڑھانے اور جین ایڈیٹنگ سمیت دیگر ٹیکنالوجیز پر مبنی کاشت کاری کی تکنیکوں میں سرمایہ کاری کے لئے چین کی حالیہ کوششوں نے پیداوار میں اضافہ کیا ہے اور ملک کی خوراک کی فراہمی کو زیادہ لچکدار بنا دیا ہے۔متنوع سپلائی چین کی ترقی نے چین کو فوڈ سیکیورٹی جیسے چیلنجز کا تیزی سے جواب دینے میں مدد کی ہے۔انہی پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ ، چین کے زرعی حکام کے مطابق رواں سال، ملک کی اناج کی پیداوار مسلسل نویں سال 650 ملین میٹرک ٹن سے متجاوز رہنے کی توقع ہے اور موسم گرما میں گرمی کی لہر اور موسلادھار بارشوں سے کچھ کھیتوں کی زد میں آنے کے باوجود فصلوں کی پیداوار تاریخی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ فصلوں کی پیداوار میں اضافے کی ایک وجہ زرخیز علاقوں کی مسلسل ترقی اور زیادہ پیداوار والی فصلوں کی اقسام کو اپنانا ہے۔اس حوالے سے محض چاول کی ہی مثال لی جائے تو متعدد عوامل نے چاول کی عالمی قیمتوں کو 15 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے، جن میں زیادہ شدید موسمی واقعات، بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی، علاقائی تنازعات اور بھارت کی جانب سے خشک سالی کی وجہ سے برآمد پر پابندی شامل ہیں۔اس کے مقابلے میں ستمبر میں چین کی مقامی سطح پر چاول کی قیمت خرید جنوری کے مقابلے میں صرف 0.7 فیصد زیادہ تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خوراک کی پیداوار میں خودکفالت چینی عوام کے لیے مسلسل فوائد لا رہی ہے۔ چین میں خوراک کی مستحکم فراہمی دنیا کے لیے بھی ایک بڑا فائدہ ہے۔اگر چین میں غذائی تحفظ کا فقدان ہے، تو اس سے سپلائی چین پر دباؤ پڑے گا کیونکہ چین ایک بڑا ملک ہے جہاں ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد لوگ بستے ہیں جن کی خوارک کی ضروریات بھی یقیناً زیادہ ہیں۔دوسری جانب عالمی غذائی تحفظ کی موجودہ صورتحال بھی انتہائی "خوفناک" ہے۔ محض ،ایک تنازع عالمی سطح پر اناج کی دستیابی کو غیر مستحکم کر سکتا ہے،جیسا کہ یوکرین روس تنازع کے باعث دنیاپہلے ہی گندم کی قیمتوں میں اضافے کا شکار ہے۔اس تناظر میں ،خوراک کی فراہمی کا موجودہ نظام کمزور ہے جس میں لچک کی ضرورت ہے کیونکہ اگر آج علاقائی تنازع رونما ہوتا ہے تو کل کسی وبا کی صورت میں بھی مسائل درپیش آ سکتے ہیں۔اسی طرح اگر موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے سنگین عفریت کو بھی نہ روکا گیا تو یہ مسئلہ زرعی پیداوار کے پورے نظام کو شدید طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ان تمام چیلنجوں کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کو اپنے خوراک کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ، جس میں ممالک مقامی طور پر اپنے کھانے کے مرکب کا ایک بڑا حصہ پیدا کرتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومتوں کو چھوٹے کسانوں کی جدید ٹیکنالوجی، بہتر بیجوں اور معلومات تک رسائی بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔چین کی ہی مثال لی جائے تو یہاں گھریلو، جینیاتی طور پر ترمیم شدہ مکئی اور سویابین کی اقسام کو کمرشلائز کرنے کی حالیہ مہم کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں اور اس سے حشرہ کش ادویات کے استعمال کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔چین، جو 1960 کی دہائی میں اپنی آبادی کو کھانا کھلانے کے لئے جدوجہد کرتا تھا، زراعت میں دہائیوں کی سرمایہ کاری کی بدولت زرعی پاور ہاؤس میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اب اس میں اعلی تعلیم یافتہ سائنس دان، مضبوط ڈیٹا پروسیسنگ کی صلاحیتیں، مالیکیولر بریڈنگ کی معلومات اور بیج کی پیداوار کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ چین اپنے تجربات کا عالمی سطح پر بھی اشتراک جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کا عمدہ عملی نمونہ وسیع تر بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت افریقہ میں اپنے زرعی تکنیکی ماہرین بھیجنے کی چین کی کوششیں ہیں تاکہ بھوک سے متاثرہ علاقوں میں خوراک کی پیداوار کو بڑھانے میں مدد مل سکے اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف 2030 کی جانب مثبت پیش رفت ممکن ہو سکے۔
|