زخمی ہرن نے شکاری کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے اچانک حملے سے میری پچھلی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اب
مجھے چلنے پھرنے اوراپنے بچاﺅکیلئے دوڑنے میں بڑی دشواری کاسامناکرناپڑتا
ہے ۔منصف نے کہا کہ شکاری کاکام شکار کرناہے ،گھوڑا گھاس سے دوستی کرے
گاتوبھوک سے مرجائے گا۔زخمی ہرن نے جواب دیاکہ اگر یہ شکاری ایک بزرگ جوگی
کے روپ میںنہ ہوتاتویہ ہرگز مجھ پروارکرنے میں کامیاب نہ ہوتا ۔میں نے سوچا
ایک بوڑھا جوگی مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گاسو میں اس کی طرف سے بے
پرواہ ہوگیااورگھاس کھاتاکھاتا اس کے زیادہ نزدیک چلاگیا مگر اس نے مجھ
پردھوکے سے وار کیا، مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ جوگی حقیقت میں ایک خطرناک
شکاری ہے۔منصف نے شکاری کافریب ثابت ہونے پر اسے خطاوار قراردے کراسے سخت
سزادی۔
بظاہر تو یہ ایک عام حکایت ہے لیکن اس کا اطلاق ہر دور کے دھوکے بازوں پر
ہوتا ہے کیونکہ مسلمان چھپ کروارنہیں کرتے۔ عہدحاضرمیں ابوجہل کے کچھ
پیروکاروں نے جعلی مجاہدین کی صورت میں بیگناہ انسانوں کے قتل عام کا بازار
گرم کر رکھا ہے اوروہ کسی بزدل کی طرح چھپ کر بیگناہوں پروارکرتے ہیں۔ کاش
ان لوگوں نے اسلام کے معنی پر غور کیا ہوتا ،اسلام کا دوسرانام سچائی اور
سلامتی ہے ۔ اسلام ایک ایسا دین رحمت ہے جس نے معاشرت اورتجارت سمیت زندگی
کے دوسرے معاملات کی طرح جنگ کے بھی اصول ا ورضابطے مقررکئے حالانکہ جنگ
ایک بے رحمانہ عمل ہے۔سرورکونین حضرت محمد جنگ کیلئے جو بھی دستہ روانہ
فرماتے اسے واضح طور پر یہ ہدایت دیتے کہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جانوروں
کو قتل مت کرنا ،پھل دار درخت مت کاٹنا ،تارک الدنیا اور راہبوں سے کوئی
تعرض مت کرنا جو تمہارے ساتھ جنگ نہ کرے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچانا
۔عہدحاضر کے دہشت گرد اپنے قول و فعل سے اسلامی تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف
ورزی کررہے ہیں۔ مستونگ میں زائرین کی بس پر فائرنگ سے شریعت کے کون سے حکم
کی تعمیل ہوئی ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق لشکر جھنگوی نے اس کشت وخون کی
ذمہ داری قبول کی ہے مگریہ نہیںبتایا گیا کہ انہیں بیگناہ انسانوں کے قتل
عام کااین اوسی کس نے دیا ۔ کیا یہ آنحضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
جنگی احکامات کی صریحاً خلاف ورزی نہیں ہے۔ رحمت العالمین نے لاشوں کی حالت
بگاڑنے اور ان کے اعضا کا ٹنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میں
کسی کافر کا مثلہ کروں تو اللہ تعالیٰ میرا مثلہ کرے گا اگرچہ میں پیغمبر
ہوں۔ آپ بم دھماکوں اورخودکش حملوں میں مارے جانے والے بدنصیب انسانوں کی
لاشیں دیکھیں جو مثلہ کی بدترین مثال ہیں۔ شریعت نے بیگناہوں اور عورتوں کے
قتل سے منع کیا ان بم دھماکوں سے زیادہ تر عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کی
اموات ہوتی ہیں۔ آخر وہ کونسا اسلام ہے جس کی رو سے یہ لوگ ایساکر رہے ہیں۔
تا ریخ اسلام میں اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے گروہ گزرے ہیں جنہوں نے شریعت
کو آڑ بنا کر بیگناہوں کا خو ن بہایا ہے ان میں پہلا گروہ وہ جنہیں خوارج
کہاجاتا ہے، اس گروہ نے حضرت علیؓ کے ساتھ شدید جنگ کی ۔ ان کا نعرہ تھا کہ
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ پرہیز گار ایسے کہ دن کو
روزے سے ہوتے اور راتوں کو قرآن پاک کی تلاوت کیا کرتے ۔ ان کے بارے میں
سرورکونین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عنقریب تم ایک
ایسے گروہ کو دیکھو گے جو دن کو روزہ دار ہوں گے اور راتوں کو قرآن پاک کی
تلاوت کیا کریں گے حتیٰ کہ ان کی عبادات کے مقابلے میں تمہیں اپنی عبادات
ہیچ لگنے لگیں گی خبردار ان لوگوں کی عبادات تم کو کسی دھوکے میں مبتلا نہ
کردیں۔ یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے اس طرح آر
پار گزر جاتا ہے کہ اس پر خون اور گوبر کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کے بعد
مختار ثقفی کا گروہ جس نے امام حسین ؑ کے قتل کاانتقام لینے کا نعرہ لگا کر
خونریزی کی۔ اس کے بعد قرامطہ، معتزلہ اور حسن بن صباح کے فدائین نے بھی
سارے عالم پر ایک دہشت طاری کئے رکھی۔ ابوطاہر قرامطی نے تو خانہ کعبہ پر
بھی لشکر کشی کی تھی اور حجرِ اسود اتار کر لے گیا تھا۔ یہ تمام گروہ امت
کی نظر میں گمراہ اورمردود قرار پائے ۔
طالبان ،لشکر جھنگوی ،حقانی نیٹ ورک اور ان کے درمیان ایک قدرِ مشترک ہے کہ
وہ بھی مسلمانوں کے خون کو مباح سمجھتے تھے اور یہ بھی اسے جائز اور عین
شریعت کی پیروی قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں خود اللہ تعالیٰ نے ارشاد
فرمایا ہے کہ بہت سے لوگ اسے پڑھ کر گمراہ ہو جائیں گے اور بہت سے لوگ
ہدایت پا جائیں گے لیکن گمراہ صرف فاسق ہوں گے ۔ ثابت ہوا کہ جس کی فطرت
میں شر ہوگا جب وہ قرآن پاک کا مطالعہ کرے گا تو اس کا شر بڑھ جائے گاجس کی
فطرت میں خیرہوگی قرآن پاک کی تلاوت سے اس کی خیر کو ترقی ہوگی۔ یہی قرآن
مجید کا فلسفہہِ ہدایت ہے۔ قرآن پاک میں ایک ایسے گروہ کا بھی ذکر ہے جو
اللہ رب العزت کی زمین میں اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتا ہے اور جب ان سے
کہا جاتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی زمین میں فساد مت پھیلاﺅ تو وہ کہتے ہیں
کہ ہم تو اصلا ح کرنیوالے ہیں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فر ما دیا کہ
خبردار یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں۔اس گمراہ گروہ کے خون کی پیاس بجھتی
نظر ہی نہیں آتی۔ سابق افغان صدر برہان الدین ربانی کابہیمانہ قتل، کراچی
میں پولیس آفیسر اسلم خان کے گھر پر بم سے حملہ مستونگ میں بس پر فائرنگ ان
تمام واقعات میں مارے جانیوالے لوگ بیگناہ تھے۔افغانستان کے سابق صدر برہان
الدین ربانی کومارنیوالے طالبان نے پگڑیوں میں بم چھپائے ہوئے تھے اوروہ ان
سے امن کیلئے مذاکرات کرنے آئے تھے مگرانہوں نے دھوکے سے وار کیا
اورانہیںجان سے ماردیا۔ برہان الدین ربانی کوافغانستان میں قیام امن کیلئے
کرداراداکرنے کی سزا دی گئی۔
کسی بھی معاملے کے بارے میں مختلف افراد کامختلف نقطہ نظر ہوتا ہے ۔
مگرصحیح اسے مانا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے فرامین کے مطابق ہوگا اور
انسانیت کے زریں اصولوں سے مطابقت رکھتا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے کبھی بھی
بستیاں اجاڑنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو انسانوں کو امن و
آشتی کا درس دیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس نے ایک انسان کو جان بوجھ کر
قتل کیا اس نے گویا پوری انسانیت کو قتل کیا اور جس نے ایک انسان کی جان
بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔ طالبان ایک لا یعنی جنگ چھیڑے
ہوئے ہیں جس میں دوست اور دشمن کی کوئی تمیز نہیں ہے اس سے پہلے بھی مذہبی
گروہوں کو جہاد کے نام پر غیر ملکی طاقتیں استعمال کر چکی ہیں اور اب پھر
مملکت خداداد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے وہی مذہبی گروہ
بھارت کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں ۔معتبر اطلاعات کے مطابق ان کو
بھارت سے سرمایہ اور اسلحہ ملتا ہے ۔ ان کے کمانڈر اپنی تجوریاں بھر رہے
ہیں اور بھولے بھالے نوجوانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکا تے ہوئے انہیں جنت
کے خواب دکھا کر ان کا''استعمال'' کر رہے ہیں۔ بیگناہ انسانوں کودھوکے سے
مارنا جہادنہیں ہے،اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ مجھے ایک مشہورمحاورہ
یادآرہا ہے کہ'' بندر کی بلا طویلے کے گلے'' یعنی کسی کی مصیبت کسی اور پر
وارد ہوجانا۔ پاکستان کے ساتھ بالکل یہی معاملہ ہے جنگ کسی اورکی ہے
پاکستان کو اس جنگ میں اس طرح پھنسایا گیا ہے کہ طالبان بھی پاکستان کو
دشمن سمجھتے ہیں اور امریکہ بھی ہماری بہادرافواج کی قربانیوں کے باوجود
پاکستان کی نیت اورکمٹمنٹ پرشبہ کرتا ہے۔ اس سارے معاملے میں مادروطن
پاکستان اسداللہ غالب کے اس شعر کی عملی تصویر بنا ہوا ہے۔
ہوئے ہیں پاﺅں پہلے ہی نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے
ان شدت پسندوں اورعقل کے اندھوں کی اس سے بڑی گمراہی اورکیا ہوگی کہ
پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ان کی سادہ لوحی اور
حماقت ملاحظہ ہو کہ خود کو امام مہدی کا ساتھی سمجھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے
ہیں کہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے دین کا بول بالا کریں گے ۔پاکستان اور
افغانستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کو ان لوگوں نے غزوہ ہند کا نام دے
رکھا ہے لا حول ولا قوة۔بہر حال یہ لوگ بہت جلد ہی اپنے انجام سے دوچار ہو
جائیں گے ۔ سانحہ سیالکوٹ کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے حق و انصاف
کی جیت ہوئی۔ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس ملک میں ابھی قانون کی حکمرانی ہے اس
ملک کا نظام عدل اتناکمزوراوربے بس نہیں کہ جس کا جو جی چاہے کرتا پھرے۔ یہ
فیصلہ ان لوگوں کیلئے بھی نشان عبرت ہے جو کسی مجرم یا مشکوک شخص کو پکڑ کر
سڑک پر عدالت لگا لیتے ہیں۔ یہ فیصلہ قانون کے ان محافظوں کیلئے بھی چشم
کشا ہے جو قانون کی حکمرانی قائم کرنے میں تساہل اور مجرمانہ غفلت کاارتکاب
کرتے ہیں اور جو برائی کو ہاتھ سے روکنے کا معاوضہ وصول کرنے کے با وجود
ہاتھ سے برائی کاسدباب نہیں کرتے ۔ |