چین کے شہنشاہ نے لاﺅزے کو سپریم
کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔لاﺅزے نے بہت انکار کیا ۔لاﺅزے کا کہنا یہ تھا کہ
اگر آپ نے مجھے چیف جسٹس بنا دیاتو آپ بہت پچھتائیں گے کیونکہ میرااشیاءکو
دیکھنے پرکھنے اور سمجھنے کا انداز بالکل مختلف ہے۔لیکن بادشاہ مصر رہا
کیونکہ اس نے لاﺅزے کی دانائی کے بہت سے چرچے سنے تھے۔پہلے ہی دن جو مقدمہ
آیا وہ ایک ایسے فرد کے متعلق تھاجو ایک امیر آدمی کے گھر چوری کرتے ہوئے
رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔آدمی نے اعتراف جرم کر لیا تھا۔لاﺅزے نے اپنا
مشہور فیصلہ سنایا جو حکمت سے بھر پور ہے۔اس سے پہلے آج تک ایسا فیصلہ نہیں
ہوا تھا اور نہ ہی بعد میں کبھی ہو سکا۔فیصلہ یہ تھا کہ چور چھ ماہ کے لیے
جیل جائے گا اور اس کے ساتھ ہی وہ امیر آدمی بھی چھ ماہ کے لیے جیل جائے گا۔
سب اس فیصلے پر حیران رہ گئے کہ اس امیر آدمی کا قصور کیا ہے؟لاﺅزے نے اس
امیر آدمی سے کہا کہ اصل ملزم تم ہو۔اس آدمی کی حیثیت ثانوی ہے۔اصولاََ
تمہاری سزا ایک سال ہونی چاہیئے میں رعائیت سے کام لے رہا ہوں ۔تم نے غریب
لوگوں کا استحصال کر کے بہت سی دولت جمع کر رکھی ہے۔تمہاری وجہ سے غریب لوگ
بھوک اور افلاس سے مر رہے ہیں۔یہ آدمی چوری نہیں کر رہا تھا بلکہ اپنا حق
چھین رہا تھا۔
پاکستان میں طاقتور اور دولت مند کے خلاف کبھی انقلاب نہیں آیا ۔ اس کی وجہ
یہ ہے کہ یہ ایک نام نہاد مذہبی ملک ہے اور یہاں حوصلہ دینے کے لیئے بہت سے
انتظامات ہیں۔یہاں پر ایسے ہزاروں مدرسے اور دینی عبادت گاہیں موجود ہیں
جہاں پر لوگوں کو بے شمار دینی مسائل میں الجھا کر انہیں کبھی معاشرتی و
سماجی مسائل پر سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔لوگوں کے ذہنوں کو اس طرح
سے پالش کیا جاتا ہے کہ وہ ایک مشین بن کر رہ جاتے ہیں جن کا کام ہوتا ہے
خدا کی عبادت کرنا اور کام کرنا۔اس کے علاوہ ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں یہ
لوگ اس سے بے خبر ہوتے ہیں۔ان دینی درسگاہوں کا اس قدر زبردست کنٹرول ہے کہ
ان مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے ذہنوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال
سکیں۔وہ چاہیں تو ان کو عبادت پر لگا دیں اور چاہیں تو بندوق ہاتھ میں تھما
کر جہاد پر لگادیں۔بہت سے واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔لال مسجد
واقع۔ممبئی حملے۔کشمیر میں ہونے والے فسادات اور قبائلی علاقوں میں ہونے
والی بے مقصد جنگ وغیرہ۔
دینی مدرسوں سے ہٹ کر اگر ہم دنیاوی تدریسی نظام کی بات کریں تویہ نظام
تعلیم بھی سٹوڈنٹس کو ایک خاص جانب رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔جس کا مقصد
صرف اور صرف اس معاشی نظام کو چلانےوالی گاڑی کیلئے پرزے تیار کرنا ہے اس
کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔جو پرزہ زیادہ محنت کرتا ہے وہ میڈ ان جاپان ہے
اور جو پرزہ کم محنت کرتا ہے اس کی ویلیو میڈ ان چائنہ جتنی ہوتی ہے۔ان
پرزوں کو تیار کرنے والی فیکٹریاں پوری دنیا میں لگی ہوئی ہیں ۔ یہ ماں باپ
کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کیلئے کس فیکٹری کا انتخاب کرتے ہیں۔ہر فیکٹری
کے مختلف نتائج ہیں۔ان دونوں نظام تعلیم میں انقلاب کی طرف جانے کی گنجائش
نہیں ہوتی۔کسی بھی دینی نظام تعلیم کا مقصد صرف اور صرف دین کو پروموٹ کرنا
ہے جبکہ دنیاوی نظام تعلیم کا مقصد صرف معاشی نظام کیلئے پرزے تیار کرنا
ہے۔ اب ان دونوں نظام میں غریب اور امیر کا بہت فرق ہے۔بہت سی NGOsآپ کو
غریبوں کیلئے کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔یہ غریبوں اور معذوروں کی مدد کی
خاطر اپنی دکانداری چمکاتی نظر آئیں گی۔بہت سی مذہبی تنظیمیں میں اس میدان
میں دکھائی دیں گی۔یہ غریبوں کو سمجھاتی ہیں کہ وہ صبر کریں یہ خدا کی
آزمائش ہے۔ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔آخر یہ لوگ غریبوں کی مدد کیوں
کر رہے ہیں۔اس لیے شائد یہ لوگ جنت میں جانا چاہتے ہیں یا شائد اس لئے کہ
یہ لوگ نہیں چاہتے کہ یہ غریب لوگ انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔معاشی سسٹم
جو چل رہا ہے اس کے تحت یہ لوگ یہی چاہتے ہیں کہ غریب لوگ رہیں یہاں پر
تاکہ خدمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں۔اور غریب ان لوگوں کے گن گاتے
رہیں۔ ہمارے تعلیمی نظام ان سرمایہ داروں کی منشاءکے مطابق ڈیزائن کیے جاتے
ہیں۔
میرا مقصد آپ کو سمجھانا نہیں آپ کو باغی بنانا ہے۔ہر انسان کو تھوڑا سا
باغی ہونا چاہیئے تاکہ یہ سسٹم آپ کو اپنے نظام میں نہ جکڑ سکے۔ بغاوت کے
بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔اگر آپ باغی ہیں یا باغی بن جاتے ہیں تو آپ جہاں بھی
جائیں بغاوت کے اثرات آپ میں نمایاں رہیں گے۔اگر آپ سیاست میں جاتے ہیں تو
سیاست کا رخ موڑ دیں گے۔ شاعری کے میدان میں جاتے ہیں تو باغیانہ شاعری
کریں گے۔اگر میوزک کی دھنیں چھیڑیں گے تو یقینا دنیا کو پریشان کر دیں گے۔
اپنے خیالات کا مشاہدہ کریں اپنے ذہنوں سے اس خول کو اتار کر پھینک دیں جو
اس سسٹم اور اس نظام تعلیم نے چڑھا دیا ہے۔میرا کام سیاسی یا سماجی نہیں
ہے۔میں تو آپ لوگوں کی مدد کر رہا ہوں ۔ فرار ہونے کے راستے بتا رہا ہوں آپ
کو بتا رہا ہوں کہ اپنے آپ میں فرار ہو جائیں اور ہر طرح کی احمقانہ سر
گرمیوں کو ترک کر دیں۔اس معاشی نظام کا پرزہ بننے سے انکار کر دیں۔اس کے
بعد جو چاہیں کریں۔اگر آپ جہنم میں بھی جاتے ہیں تو آپ میں اتنی صلاحیت
ہوگی کہ آپ جہنم کو جنت میں تبدیل کر سکیں۔ میں یہ نہیں کہ رہا کہ باغی جنت
میں جائیں گے بلکہ یہ جہاں بھی جائیں گے جنت ان کے پیچھے آئے گی۔ |