محترم جناب وزیر اعلی خیبر پختونخواہ جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
السلام علیکم!
مجھے امید ہے کہ آپ خیریت سے ہونگے.یہ خط میں آپ کو خیبر پختونخواہ کے اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے حالات کے حوالے سے سامنے آنے والے کچھ تشویشناک مسائل کی طرف آپ کی توجہ دلانے کے لیے لکھ رہا ہوں۔ شفافیت اور منصفانہ کھیل کو فروغ دینے کے لیے ایک اسپورٹس صحافی کے طور پر یہ میرا فرض بھی ہے کہ میں فوری مداخلت کے لیے ان معاملات کو آپ کے علم میں لاو¿ں۔
سب سے پہلے یہ بات میرے علم میں آئی ہے کہ اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کھلاڑیوں کو سہولت اور مدد فراہم کرنے میں اپنی ذمہ داری میں ناکام رہا ہے۔ قومی کھیلوں میں حصہ لینے والوں کے لیے مالی انعامات کا اعلان التوا کا شکار ہے جس سے کھلاڑیوں میں پریشانی پائی جاتی ہے۔ مزید برآں، کے پی حکومت کی جانب سے وعدہ کیا گیا کہ انڈر 21 کے کھلاڑیوں کو انعامات اور سکالرشپ دئیے جائیں گے تاکہ یہ بچے کھیلوں کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی سرگرمیاں بھی پوری کرسکیں لیکن یہ گذشتہ دو سالوں سے زیر التواءہیں جس سے نوجوان کھلاڑی مایوس اور حوصلہ شکن ہیں۔
مزید برآں، شفافیت اور معلومات کے حق کا مسئلہ سنگین تشویش کا باعث ہے۔ ایک شہری اور صحافی ہونے کے ناطے میں نے کھیلوں کی سرگرمیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے بارہ درخواستیں جمع کرائی ہیں لیکن وہ سب ابھی تک زیر التواءہیں۔اس بارے میں انفارمیشن آفیسر سے رابطے پر انہوں نے بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل خالد محمود نے اس بارے میں معلومات دینے سے منع کیا ہے. ڈائریکٹوریٹ کے حکام کی جانب سے جوابدہی کا یہ فقدان نہ صرف معلومات کے قانونی حق کی خلاف ورزی کرتا ہے بلکہ محکمے کے کام کاج اور شفافیت کے دعووں پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔
پشاور، ایک بڑا شہر اور صوبے کا دارالحکومت ہونے کی وجہ سے، 2023 میں کسی بھی گیمز ٹورنامنٹ کی میزبانی نہیں کرسکا ہے، اور 2022 کے ایونٹس کے بارے میں معلومات ابھی تک دستیاب نہیں ہیں۔ رابطے اور تنظیم کا یہ فقدان خطے میں کھیلوں کی ترقی اور فروغ کے لیے نقصان دہ ہے۔پشاور میں سال 2022 میں کتنے ایونٹ کروائے گئے اس بارے میں متعدد درخواستیں اپریل 2023 سے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسر پشاور کے پاس زیر التواءہیں لیکن عوامی ٹیکسوں سے تنخواہیں لینے والے اپنے آپ کو ہر قسم کے احتساب اور سوالات سے مبرا سمجھتے ہیں. تبھی نومبر کے آخری ہفتے تک تاحال کوئی جواب نہیں مل سکا ہے.
اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے اندر بھرتی کے طریقے بھی قابل اعتراض ہیں۔ یہ بات میرے علم میں آئی ہے کہ افراد کو میرٹ کی بجائے ذاتی وابستگیوں کی بنیاد پر بھرتی کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے 300 یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین اور کوچز کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ اور انہیں ناکافی فنڈز کا بہانہ دیا جاتا ہے حالانکہ حال میں اٹھارہ ایسے ڈیلی ویجز بھرتی کئے گئے جس میں کچھ افراد کہیں پربھی نہیں لیکن انہیں تنخواہیں مل رہی ہیں جس کی فہرست بھی موجود ہیں. اسی طرح تنخواہیں قانون کے مطابق بتیس ہزار دینے چاہئیے لیکن یہ پچیس ہزار دی جارہی ہیں جو کہ حکومت خیبر پختونخواہ کے اپنے ہی قانون کی خلاف ورزی ہے.اسی طرح کھیلوں کی ایک ہزار سہولیات منصوبہ جو مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور اس میں ہونیوالے بیشتر کام غیر معیاری کئے گئے ابھی فنڈز نہیں لیکن اس کیلئے ڈیپوٹیشن پر دوسرے ڈیپارٹمنٹ سے بندے لائے گئے اور انہیں نہ صرف کھیلوں کے ایک ہزار پراجیکٹ ، بلکہ اے ڈی پی کے تمام منصوبے ، یونین کونسل سطح کے منصوبوں کی نگرانی سمیت ، گاڑیوں اورفیول کے انچارج سمیت بہت سارے چارج دئیے گئے کیا اس ڈیپارٹمنٹ میں اور کوئی نہیں جو کہ قابل ہوں. یا پھر یہی طریقہ کار اپنایا جارہا ہے کہ کل کلاں اگر کوئی غلطی یا خرابی نکل جائے تو یہ کہا جائے کہ ڈیپوٹیشن پر آنیوالے شخص اپنے ڈیپارٹمنٹ چلے گئے ہیں اور اب اس کے خلاف انکوائری نہیں کی جاسکتی. گذشتہ چند ماہ کے دوران فیول کتنا نکالا گیا اور اس وقت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی گاڑیاں کہاں پر ہیں. یہ اور بہت سارے چیزیں اصل نوعیت پر شکوک پیدا ہوتے ہیں۔
مزید یہ کہ پراجیکٹ ڈائریکٹر کو متعدد چارجز اور ضرورت سے زیادہ وسائل مختص کیے جانے سے عوامی فنڈز کے بدانتظامی اور غلط استعمال کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ ان معاملات کی مکمل انکوائری کروائیں، بشمول اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے اندر بدعنوان طریقوں کی تحقیقات کی جائے اور کھلاڑیوں کو سہولیات فراہم کی جائے ناکہ اس ڈیپارٹمنٹ کو برباد کرنے کیلئے بیورو کریٹ کے حوالے کیا جائے.
آخر میں یہ بات میرے علم میں آئی ہے کہ اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ سے وابستہ کھیلوں کی مختلف ایسوسی ایشنز انسانی اسمگلنگ کی سرگرمیوں کے لیے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ ایک سنگین معاملہ ہے جس پر فوری توجہ اور کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ کھیلوں کی برادری کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔
میں آپ سے مخلصانہ درخواست کرتا ہوں کہ ان مسائل کو درست کرنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدام کریں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ سپورٹس ڈائریکٹوریٹ کھیلوں کو فروغ دینے، کھلاڑیوں کی حمایت کرنے اور شفافیت اور دیانتداری کے ساتھ کام کرنے کے لیے اپنا فرض پورا کرے۔اور اس کی انکوائری کیلئے ایک کمیشن تشکیل دے تاکہ کرپشن کی روک تھام ہو اور کھیلوں کو فروغ مل سکے.
اس معاملے پر آپ کی فوری توجہ کا شکریہ۔
مخلص،
مسرت اللہ جان
|