پرانا اور گھساپٹا قصہ جس میں
ایک بھیڑیا ایک میمنے کو کھانے کے لئے پانی گندا کرنے کا بہانہ بناتا ہے
اور میمنہ منمنا کے کہ میمنے سوائے منمنانے کے اور کر بھی کیا سکتے ہیں ،یہ
کہتا ہے کہ ماموں میں تو ندی کے بہاﺅ میں نیچے کی طرف کھڑا ہوں۔میں کیسے آپ
کا پانی گندا کرنے کی گستاخی کا مرتکب ہو گیا۔اس قصے کا بھیڑیا طبیعت کا
کچھ نفیس تھا کہ اس نے میمنے کو کہا کہ ہاں تم نے نہیں تمہارے ماموں نے
پچھلے سال میرا پانی گندا کیا تھا۔اس کے بعد اس نے میمنے کو نوالہ
بنایا۔لیکن آج کے قصے کابھیڑیا زیادہ سفاک اور زیادہ بدتمیز ہے۔اس نے وضاحت
بھی نہیں کی اور بس یہ کہتے ہوئے بھیڑیے کو دانتوں تلے دبا لیا کہ ایک ندی
کا پانی گدلا کرتے ہو اور دوسرا بحث بھی۔میمنا بہت منمنایا لیکن میمنے کی
منمناہٹ بھیڑئیے کے دانتوں ہی میں کہیں قصہ پارینہ بن گئی۔
پاکستان میمنا ہر گز نہیں۔پاکستانی عوام اپنے ملک سے بہرحال محبت کرتے
ہیں۔یہاں لسانی تعصب بھی ہے،علاقائی تعصب بھی،یہاں فرقہ واریت بھی ہے اور
معاشی اور معاشرتی استحصال بھی ۔لیکن یہ سب تعصبات ایک خاص ماحول ہی میں
جنم لیتے ہیں۔جب عوام اس مخصوص ماحول سے آزاد ہوتے ہیں تو پھر بھائی بھائی
بن جاتے ہیں۔یہ تو فرقوں مذہبی جماعتوں اور سیاسی پارٹیوں کے کرائے کے قاتل
ہیں جو اپنے غیر ملکی آقاﺅں کے اشارہ ابرو پہ ارض وطن کی گلیوں میں خون کی
ہولی، دیوالی بلکہ ایسٹر تک کھیلتے ہیں۔اگر عوام واقعی ایک دوسرے سے کسی
بھی تعصب کی بنیاد پہ اتنی ہی نفرت کرتے ہوتے تو کیا مرنے والوں کی تعداد
یہی ہوتی۔کراچی کو چھوڑئیے کہ کراچی تو ان خون آشام بھیڑیوں کے خونی پنجوں
میں ہے۔کیا پشاور میں پٹھان پنجابی مہاجر اب بھی ایک دوسرے کے پڑوسی
نہیں۔کیا ان کی آپس میں رشتہ داریاں نہیں۔کیا سکھر میں سندھی بلوچی اور
مہاجر اکھٹے آباد نہیں۔کیا کوئٹہ میں دوسرے صوبوں سے گئے ہوئے لوگ اب بھی
خدمات انجام نہیں دے رہے۔دہشت گردوں سے انہیں خطرات ہیں لیکن اپنے بلوچی یا
پٹھان پڑوسیوں یا محلے داروں سے انہیں کوئی خطرہ نہیں۔جس ملک کے عوام کی
اکثریت اپنے ملک سے پیار کرتی ہو وہ میمنا نہیں ہوتا۔
پاکستان میمنا ہر گز نہیں لیکن پاکستان کے سارے لیڈر میمنے ہیں۔کوئی ایک
بھی ایسا نہیں مشکل گھڑی میں نظر جس کی طرف اٹھتی ہوکہ یہ ہماری نیا پار
لگا دے گا۔بھیڑیا سر پہ کھڑا ہے۔مدتوں سے منادی کرنے والے ندا کر رہے ہیں
کہ یہ افغانستان میں لڑائی اور دہشت گردی کا بہانہ ہے پاکستان ہی اصل نشانہ
ہے لیکن ذمہ داروں کی نیند ہے کہ کھل کے ہی نہیں دے رہی۔وہ بات جو امریکی
ایک مدت سے دبے لفظوں میں کہہ رہے تھے اب وہی بات مائیک مولن نے سینٹ میں
ببانگ دہل کہہ دی ہے۔حقانی نیٹ ورک پاکستان کی ٹاپ سیکیورٹی ایجنسی آئی ایس
آئی کا بازو شمشیر زن ہے۔جس طرح کے الزامات پچھلے کچھ عرصے سے تواتر کے
ساتھ حقانی نیٹ ورک پہ لگائے جا رہے تھے ان سے محسوس یہی ہوتا تھا کہ اب
انہی الزامات کی آڑ میں پاکستان کا مکو ٹھپنے کی بھی کوشش کی جائے گی لیکن
اتنی سرعت کے ساتھ اس کی امید نہ تھی۔
خبریں ہیں کہ پاکستان فوج کے سخت روئیے کی بنیاد پہ امریکہ اب پاکستانی فوج
کو سبق سکھانا چاہتا ہے۔افغانستان چھوڑنے سے پہلے وہ پاکستان کے ایٹمی
ہتھیاروں کا ٹنٹا بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔گھنٹی بجا چاہتی ہے تھوڑی ہی دیر
میں باکسر رنگ کے اندر ہوں گے۔ایک انگریزی محاورے کے حساب سے یہ اب Nerves
کی گیم ہے۔امریکن ٹیم نے اپنے پتے شو کرنا شروع کر دیئے ہیں۔مائیک مولن کے
بیان سے پہلے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں افغان دہشت گردوں کے حملے دراصل
وہ چھوٹے چھوٹے پتے تھے جنہیں کھیل کے چاچا سام ہمیں ڈرا رہا تھا۔مائیک
مولن کا بیان بھی دراصل حکم کا گلا ہی ہے۔بعد ازاں بیگم اور بادشاہ میدان
میں اتریں گے۔ہم تو کھیل ہی بغیر کارڈز کے رہیں ہیں۔ہمارے پاس تو ایک ہی
اینٹ کا یکہ ہے جسے ہم مار نہیں سکتے بس دکھا سکتے ہیں۔اسے دکھانے کے لئے
بھی جس دل گردے کی ضرورت ہے۔اس کے لئے شیر کا دل چاہئیے۔بد قسمتی سے میمنوں
کے اندر دل بھی میمنوں ہی کا ہوتا ہے۔شیر کا دل لگا بھی دیا جائے تو وہ
فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
ہمارے ہاں آزادی اظہار کی وافر مواقع اور سول سوسائٹی کی بیداری کے بعد
فیشن بن گیا ہے کہ فوج کو گالی دی جائے۔فوج کی طرف دیکھنا توکجا فوج کا
سوچنا بھی جرم ہے۔امریکی بیانات اور امریکی چمچوں کی توپوں دونوں کا رخ فوج
کی جانب ہے۔امریکہ کو بھی حکومت سے کوئی گلہ نہیںبس شکایت ہے تو آئی ایس
آئی اور فوج سے۔یہی ادارہ دل یزداں میں خار بن کے کھٹکتا ہے۔وجہ صاف ظاہر
ہے کہ یہی وہ واحد ادارہ ہے جو امریکی عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔امریکی
عزائم کیا ہیں؟ اس کے بارے بس یہی عرض ہے کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے
باغ تو سارا جانے ہے۔امریکی ہمارے کمبل کی تلا ش میں ہیں۔کمبل کی نگہبانی
قوم نے فوج کے سپرد کر رکھی ہے۔اسامہ پہلے ہی ایبٹ آباد والے واقعے سے فوج
کی صلاحیتوں پہ سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔مزید ایسا کوئی قدم فوج کی رہی سہی
ساکھ کو ختم کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔اگر فوج کی ساکھ بھی جاتی رہی تو پھر
اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
ضروری ہے کہ فوج کے صاحبان حل و عقد خود امریکی سازشوں کے بارے میں قوم کو
اعتماد میں لیں۔قوم امریکی جارحیت سے مقابلے کے لئے تیار ہے۔لیکن آپ ہمیں
بتائیں تو سہی کہ ہو کیا رہا ہے؟ ہم آپ کے شانہ بشانہ لڑیں گے۔ہم یہیں ہیں
اور ہمارے بچے بھی۔ہمارے پاس لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن ہی نہیں۔قوم کو آگاہ
کیا جائے کہ اس نے کرنا کیا ہے۔فوج جان لے کہ قومی مدد کے بغیر جنگیں نہ تو
لڑی جا سکتی ہیں جیتنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔رہے میمنے تو وہ لندن
دبئی اور سعودی عرب بھاگ جائیں گے۔بھیڑیا سر پہ کھڑا ہے اور ہم ابھی تک
میمنوں کے رحم و کرم پہ ہیں۔اللہ اس ملک کی حفاظت کرے۔ |