قصہ ایک محفل کا - حصہ اول

(میں اور وہ سے اقتباس)

آپ کو زندگی میں بہت سی محفلوں میں شرکت کا موقع ملا ہو گا جہاں طرح طرح کے لوگ اپنی اپنی دانش کے موتی بکھیرتے ہیں اور اپنی اصل پر پردہ ڈال کر نقل کو عیاں کرتے ہیں مگر ایسے ہی ہی کچھ لوگ جن کی دانش سے ہم متاثر ہو کر انھیں مہان سمجھتے ہیں کچھ خاص محفلوں میں اپنی اصلیت پر آجاتے ہیں اور مایوس کردیتے ہیں . شاید ایسے ہی لوگوں کے متعلق اشفاق احمد نے لکھا ہے کہ میں نے فوج میں چھوٹے چھوٹے عہدوں پر بڑے بڑے لوگوں کو اور بڑے بڑے عہدوں پر چھوٹے چھوٹے لوگوں کو فائز دیکھا ہے . اشفاق احمد سچ لکھتے ہیں کیونکہ ایسے لوگ صرف فوج میں ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ فکر میں موجود ہیں اشفاق احمد کی طرح مجھے بھی ایک تجربہ ہوا جب میری گزر ایک ایسی محفل میں سے ہوا جہاں ایک عام سی خاتون نے خاص باتیں کیں اور خاص خاص لوگوں نے صرف مایوس کیا .

اس محفل میں کئی موضوعات زیر بحث تھے جن میں پاکستانی سیاست دانوں اور مختلف مذہبی جماعتوں کے لیڈروں کے کردار سے لیکر ان عوامل کا ذکر تھا جو پاکستان کی موجودہ دگردوں حالت کا موجب بنے – میں جسکا کا ذکر کر رہا ہوں وہ نہ تو کسی سیاسی جماعت کی نمائندہ تھی اور نہ ہی میڈیا پہ علم و دانش کے موتی بکھیرنے والی تبصرہ نگار . پاکستان میں مسلکی فسادات اور حکومت کی کارستانیوں کا ذکر کرتے ہوے نینا نے کہا " حقیقت یہ ہے کہ ہر المیے کا ایک المیہ ہوتا ہے۔ جس طرح پھول بیشمار پتیوں کے ملاپ سے بنتا اور پھر کھلتا ہے اسی طرح کانٹے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ جس طرح خوشیاں خوشیوں کی ہم آواز ہوتی ہیں ویسے ہی دکھ اور غم ایک دوسرے کے ہمراز ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں جہاں زندگی ہے وہاں جغرافیہ بھی ہے اور تاریخ بھی۔ جغرافیائی حالات تاریخ کا رخ موڑتے ہیں اور تاریخ کرہ ارض پر رونما ہونے والے حادثات اور واقعات کا ریکارڈ مرتب کرتی ہے ۔جس طرح پھولوں کی پتیاں اور کانٹوں کے ڈانڈے باہم ملے ہوتے ہیں ویسے ہی واقعات اور حادثات کی کڑیاں ملکر تاریخ کا تسلسل قائم رکھتی ہیں۔۔۔۔۔۔"

جغرافیائی تبدیلیاں قدرت کی کرشمہ سازیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور حالات انسانی رویوں سے بگڑتے اور بنتے ہیں۔ معاشرتی اور ریاستی بگاڑ سے چھوٹے چھوٹے واقعات جنم لیتے ہیں اور پھر حادثات کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ہمارے پہاڑی علاقوں میں کھیتوں اور بستیوں کو بچانے کیلئے ڈھلوانوں پر گہرے نالے کھودے جاتے تھے اور بارشوں کے پانی کا رخ قدرتی نالوں، ندیوں اور دریاؤں کی طرف کردیا جاتا تھا۔ یہ کام گاؤں اور محلے کے لوگ مل کر کرتے تھے اور اپنے اپنے علاقوں سے پانی کی گزر گائیں بناتے تھے۔۔۔۔۔۔۔

گاؤں والوں کی اور بھی بہت سے باتیں ہیں جو اب نہیں رہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ہر گاؤں ایک ریاست ہے۔ گاؤں والے سب سے شاطر اور تیز ترار آدمی کو چوکیدار منتخب کرتے تھے اور ضلعی حکومت اس چوکیدار کو ماہانہ تنخواہ دیتی تھی۔ چوکیدار کے پاس شادی بیاہ، موت اور پیدائش کے رجسٹر ہوتے تھے جن میں وہ شادی۔ طلاق، موت اور پیدائش کا ریکارڈ رکھتا تھا۔ چوکیدار کو علاقہ پٹواری، گرداور، فاسٹ گارڈ اور علاقہ کے تھانیدار کا معاون سمجھا جاتا تھا۔ گرداور، پٹواری، فارسٹ آفیسر اور پولیس آفیسر علاقہ کے نمبردار یا ویلدار کی بیٹھک میں آتے اور علاقہ پنچائت کی موجودگی میں سرکاری امور اور شکایات نبھٹاتے۔ کوئی بات خفیہ نہ ہوتی اور نہ ہی کھلے عام رشوت اور سفارش کا بازار گرم ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنگل میں آگ لگ جائے یا کوئی اور ناگہانیت برپا ہو چوکیدار فوراً حرکت میں آجاتا اور لوگوں کو جمع کرکے آفات کا مقابلہ کیا جاتا۔تقیسم سے پہلے جب ہندو، سکھ اور مسلما ن اکھٹے رہتے تھے تو بھائی چارے کی بہترین روایات، اخلاق و آدا ب کا رواج تھا۔ انسانی ہمدردی اور بھائی چارے کی فضا میں لوگ جیتے اور مرتے تھے۔ مسلمانوں کی شادیوں پر ہندو اور سکھ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی طرح شرکت کرتے اور ایک ہی پنڈال پر الگ الگ کھانے پکاکر کھاتے۔ مسلمانوں کو موت پر ہندو اور سکھ خشک راشن جمع کرکے موت والوں کے گھر بھجواتے تاکہ تعزیت کے لئے آنے والوں کا کھانا پک سکے اور گھر والوں پر بوجھ نہ ہو۔ ہندو یا سکھ مرجائے تو مسلمان کریاکرم کے لئے لکڑیاں جمع کر کے شمشان گھاٹ پر پہنچاتے اور جب موت کی رسمیں شروع ہوتیں تو دور ہٹ جاتے۔ مسلمان، سکھ اور ہندو عورتیں خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے گھروں میں جاتیں اور اپنی شراکت کا احساس دلاتیں۔۔۔۔۔۔۔۔

تقسیم کے بعد بھی روایات، آداب و اخلاق میں کمی نہ آئی اور لوگ ایک دوسرے کا جینے کا حق تسلیم کرتے رہے۔ محرم کے جلوسوں کے راستوں پر سنی پانی اور دودھ کی سبیلیں لگاتے اور راستوں کی صفائی اور حفاظت کو یقینی بناتے۔ محرم کی آمد سے پہلے مسجدوں اور امام بارگاہوں میں معززین علاقہ اور علمأ کی میٹنگ ہوتی اور دس محرم تک ہونے والی تقریبات کا جائزہ لے کر سارے بندوبست کئے جاتے۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یاد ہے کہ جہلم شہر میں ایک ریٹائیرڈ پولیس آفیسر ایس پی زیدی ہوا کرتے تھے جو محر م سے پہلے شیعہ سنی علمأ پر مشتمل ایک کمیٹی بناتے جسے امن کمیٹی کہا جاتا۔ یہ کمیٹی سنی نوجوانوں کا چناؤ کرتی جو سارے محرم میں جلسے جلوسوں اور امام بارگاہوں کا تحفظ کرتی اور شہر میں امن رہتا۔ میں نے یہ چھوٹی چھوٹی مثالیں اس لئے دی ہیں کہ بظاہر چھوٹی اور سادہ روایات جن کی بنیاد سچائی، سادگی، امن، بھائی چارے، انسانی ہمدردی اور خلوص پر استوار تھیں بڑے حادثات کو روکنے کا باعث تھیں۔ محلوں، گاؤں اور قصبوں کی سطح پر نہ مذہبی منافرت تھی اور نہ ہی کسی کو فرقہ واریت کا مرض لاحق تھا۔ لوگ انسانی رشتوں میں منسلک تھے اور پڑوس سے لیکر علاقہ کی سطح پر فلاحی کام کرتے تھے۔ آج چوکیدار کاکام ایم این اے حضرات کرتے ہیں چونکہ چوکیدار جتنی صلاحیتوں کے مالک نہیں ہوتے اس لئے وہ ہر طرف گند پھیلاتے ہیں۔ چوکیدار کا موت، زندگی اور شادی بیاہ کا اپ ٹوڈیٹ رجسٹر نادرہ کے پاس چلا گیا ہے اور اب اپ ٹوڈیٹ نہیں رہا۔ چوکیدار کے رجسٹر پر سچائی لکھی ہوتی تھی جسے پٹواری اور تھانیدار چیک کرتے تھے۔ اب نادرہ کے افسروں کے پاس جدید سہولیات کی بھرمار ہے مگر کارکردگی انتہائی ناقص، تکلیف دہ اور کرپشن سے بھرپور ہے۔ شناختی کارڈ کے حصول کو مشکل سے مشکل تر بنایا جارہا ہے اور عام آدمی کو ذلت و خواری کے بعد شناختی کارڈ ملتا ہے۔ عورتیں، مرد، بچے اور بوڑھے سارا سارا دن گرمی اور سردی میں لمبی قطاروں میں لگے دھکے کھاتے ہیں تب جاکر کہیں شناختی کارڈ والے بابو کی شکل نظر آتی ہے۔ اگر بابو تک رسائی ہوجائے تو اکثر بجلی چلی جاتی اور سائل کو دوسرے روز کی ذلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری دفتروں میں چائے، کھانے اور نماز کے لمبے وقفے ہوتے ہیں جن کا بوجھ بھی غریب عوام برداشت کرتے ہیں۔ نادرا اور پاسپورٹ آفس کا ماحول ایک ہی جیسا ہے جبکہ بینک، قومی بچت کے ادارے، بجلی، گیس کے دفتر اور ڈاکخانے بھی تھانوں، کچہریوں اور جیلوں جیسا ماحول پیش کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ کلرک سے سیکرٹری تک کی ایک ہی ذہنیت ہے۔ سیکرٹری کو کلرک اور کلرک کو سیکرٹری بنا دو تو فرق نہیں پڑے گا چونکہ دونوں ایک دوسرے کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ دونوں کا مقصد قومی خزانہ اور قوم کو لوٹنا اور آسان کام کو مشکل اور پیچیدہ بنانا ہوتا ہے۔ بد اخلاقی، تکبر اور دھونس دونوں کی سرشت میں ہوتی ہے اور دونوں ہی عوام کو رعایا سمجھتے ہیں۔ یہی حال عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے۔ کونسلر اور وزیر میں بھی کوئی فرق نہیں۔ دونوں منتخب ہوکر فرعونیت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں او رعام آدمی سے دور ہوجاتے ہیں۔ کونسلر، ممبر پارلیمنٹ اور وزیراعظم کا ایک جیسا مزاج ہوتا ہے۔ سبھی اپنے اردگرد اخلاق باخستہ، قانون شکن، عوام دشمن اور کرپٹ لوگوں پر مشتمل ایک گروہ جمع کر لیتے ہیں جو پولیس، پٹواری اور دیگر محکموں کو کنٹرول کرتے، اپنی مرضی کے کام نکلواتے اور عام آدمی کا استحصال کرتے ہیں۔ ملکی میڈیا ان لوگوں کو جمہوریت کے علمبردار، ملک کا مستقبل، آئین کے محافظ اور عوامی امنگوں کے ترجمان قرار دیکر ان کے بدافعال اور گھناؤنے کردار کی اپنے انداز میں تشریح کرتا اور مال کماتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہہ رہی تھی کہ ایک شاطر اور تیز و ترار چوکیدار کا کام کتنے لوگوں نے سنبھال لیا ہے۔ چوکیدار لڑکے کی پیدائش کا اندارج آٹھ آنے لے کر کرتا تھا جوکہ خوشی کی علامت اور اچھے شگون کی روایت تھی۔ یہ اٹھنی صرف آسودہ حال لوگ دیتے تھے عام لوگ چوکیدار کو خوشی کے موقع پر ایک مرغی، لسی یا دودھ کا گلاس یا میٹھی روٹی پیش کرتے تھے۔ محلے کی مسجد کا امام اور تقسیم سے پہلے گاؤں کا پنڈت اس موقع پر موجود ہوتے اور بچے کا نام تجویز کرکے اندراج کروایا جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل نادرا والے یہی کام ہزاروں روپے میں کرتے ہیں۔ خاص کر افغانیوں کے دو نمبر پیدائشی سرٹیفکیٹ، جعلی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھاری رشوت کے عوض بنتے ہیں۔جن دنوں لوگ اپنے گھروں اور کھیتوں کو بچانے کے لئے کھالے تالاب اور جوہڑ بناتے تھے اور ملکر بناتے تھے تو تب یہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہوتی تھی کہ وہ ان کی حفاظت بھی کریں۔ ان کے گرد سائیہ دار اور پھلدار درخت لگائیں تاکہ زمین کٹاؤ سے بچ جائے۔ یہ درخت ٹاہلیوں، کیکروں، پھلائیوں، برگد، آم، جامن اور پھگواڑوں کے ہوتے تھے اور سب کے سب مفید اور طویل العمر تھے۔ ٹاہلیوں، کیکروں اور پھلائیوں سے بکریوں کا چارہ اور بالن آتا تھا۔ برگد کے سائیہ دار درختوں کے نیچے مال مویشی اور چروائے گرمیوں میں ٹھنڈی چھاؤں کے مزے لیتے تھے۔ آم اور جامن سائیہ اور پھل دیتے تھے۔ ہماری روایات میں احساس ذمہ داری اور امداد باہمی کا عنصر بھی شامل تھا جو اب مٹ گیا ہے اور یہ سب جمہوریت اور سیاسی لیڈروں کی کارستانی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کراچی سے اسلام آباد جارہی تھی اور میرے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھی جو کسی این جی او سے منسلک تھی۔ دوران پرواز خاتون نے بتایا کہ اس کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور اس کی نند صاحبہ کا نام شہزادی کوثر گیلانی ہے اور وہ پیپلزپارٹی کی اہم رکن ہیں۔ آزادکشمیر کی سیاست اور شہزادی صاحبہ کی سیاسی زندگی کے بعد خاتون نے بتایا کہ سردار عتیق کی بیگم اور بیٹی کی اپنی اپنی این جی او ہیں جنہیں بھاری بھر کم فنڈز آلاٹ ہوتے ہیں۔ کہنے لگیں کہ سردار عتیق صاحب نے ہمیں ایک سکول کی تعمیر کے سلسلہ میں اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی اور جو زمین سکول کے لئے مختص کی گئی تھی وہ جنگلات کی تھی جس پر چیل کے بلند و بالا خوبصورت درختوں کا جھنڈ تھا۔ سردار صاحب نے فرمایا کہ آپ یہ درخت کاٹ دیں اور ہماری این جی او کی مدد سے سکول تعمیر کریں۔ خاتون کہنے لگیں کہ ہم نے سردار عتیق کے اس پروپوزل پر کام کرنے سے انکار کردیا چونکہ خوبصورت درختوں کا قتل ہمیں اچھا نہ لگا۔ ان درختوں کی قیمت ایک کروڑ سے زیادہ تھی جبکہ تین این جی اوز نے ملکر دس لاکھ سے کم لاگت کا ایک سکول تعمیر کرنا تھا اور اس سکول کی آڑ میں سردار نے نوے لاکھ سے زیادہ کمانے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ملک میں این جی اوز مال کمانے، کام خراب کرنے اور سکینڈل بنانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ ادارے عوام دشمن ہیں جنہوں نے معاشرے اور ریاست کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے معاشرتی آداب اور روایات کو تباہ کیا ہے۔ جس ملک میں چوکیدار کا کام پارلیمنٹ کا ممبر اور وزیر کرتا ہے اور کلرک کا سیکرٹری وہاں قانون کی حکمرانی اور آئین کی پاسداری کی بات کرنا مذاق کے سوا کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگر ملک میں چوکیدار ا نظام ماضی کی روایات کا حصہ سمجھ کر برقرار رکھا جاتا تو آج ملک میں ایک کروڑ افغان، ڈیڑھ کروڑ بھارتی اور بنگالی چھپ کر نہ بیٹھتے اور نہ ہی ریمنڈ ڈیوسوں کی فوجیں پاکستان کے گلی کوچوں میں گھومتی پھرتیں اور پاکستانیوں کا شکار کرتیں۔ اگر ایبٹ آباد میں چوکیدار اور تھانیدار ہوتے تو وہاں کوئی اصلی یا نقلی اسامہ بھی چھپ کر نہ بیٹھتا اور نہ ہی پاکستان اور پاکستانی دنیا بھر میں رسوا ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھانیدار کا کیا رول ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوکیدار اپنے علاقے کے رہائشیوں کا اندراج رکھتا تھا تو تھانیدار دوسرے علاقوں اور شہروں سے آنے والوں پر نظر رکھتا تھا۔ باہر سے آنے والوں پر لازم ہوتا تھا کہ وہ مقامی چوکیدار، نمبردار یا پھر تھانیدار کو اپنی عارضی یا پھر مستقل سکونت سے آگاہ کریں۔ ایوب خان کابی ڈی سسٹم آیا تو باہر سے آنے والوں کے لئے ایک سکونتی سرٹیفکیٹ (ریذیڈنٹ سرٹیفکیٹ) متعارف کروایا گیا کہ کون کہاں کا رہنے والا ہے اور وہ موجودہ جگہ پر کس مقصد کے لئے رہائش رکھنا چاہتا ہے۔ طالب علمو ں کا ریکارڈ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہوتا تھا جہاں وہ داخلہ فارم کے ساتھ ڈومیسائل بھی جمع کرواتے تھے جبکہ مل مزدوروں کا ریکارڈ مالکان کے پاس ہوتا تھا۔ اگر ایبٹ آباد کے متعلقہ تھانیدار اور چوکیدار کے پاس ریکارڈ ہوتا تو بے نام لوگوں کو چار چار کنال کے مکان بنانے کی جرأت نہ ہوتی اور نہ ہی سانحہ ایبٹ آباد برپا ہوتا۔۔۔۔۔۔۔

میں کہہ چکی ہوں کہ یہ سب نادرا اور وزارت داخلہ کے کارنامے ہیں جو پیسہ لے کر کسی کو بھی شناختی کارڈ جاری کردیتے ہیں۔ افغانی، ایرانی، بھارتی اور بنگالی تو درکنار خود پر ویزی دور حکومت میں تین کروڑ سے زائد جعلی ووٹروں کو قومی شناختی کارڈ جاری ہوئے اور لوگوں نے ووٹ بھی کاسٹ کر دیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم کہنا کیا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہنا چاہتی ہوں کہ جدید سہولیات کو روایات، اخلاقیات اور آداب سے الگ نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی مٹی سے محبت کرو اور نام نہاد آزادیوں کی آڑ میں غلامی کاطوق نہ پہنو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہنا چاہتی ہوں کہ اگر تم ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ انسانی مساوات، بھائی چارے اور امن سے رہ سکتے تھے تو شیعہ سنی کے جھگڑوں میں الجھ کر اپنے دینی تشخص اور عظمت کو برباد نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے اندر جرأت انکار پیدا کرو اور نام نہاد سیاستدانوں کو مسترد کردو۔ تمہیں کسی زرداری، نواز شریف، گیلانی۔ الطاف بھائی، اسفندیار ولی، فضل الرحمن اور شجاعت حسین کی ضرورت نہیں۔ کسی طیب اردگان، مہاتیر محمد یا احمدی نژاد کو تلاش کرو جن کی تمہارے معاشرے اور ملک میں کمی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہنا چاہتی ہوں کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو اور مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ سیاست کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دو ورنہ تمہاری ہستی ہی مٹ جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہنا چاہتی ہوں کہ جرم، جبر، کرپشن، جھوٹ اور فراڈ کے خلاف بغاوت کرو اور مجرموں، جابروں، فراڈیوں کو چن چن کر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے دین پر کار بند ہوجاؤ اور قرآن و حدیث سے رہنمائی لو۔ مسلک کو اپنی ذات تک رکھو اور مسلک کی آڑ میں نفرت نہ پھیلاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جنہیں تم یہود و ھنود کہتے ہو وہ بھی تمہاری کتاب سے ہی رہنمائی لیتے ہیں۔ کبھی وہ اسے پڑھ کر تم پر حملہ آور ہونے کا راستہ تلاشتے ہیں اور شیعہ سنی، وہابی، دیوبندی اور بریلوی بن کر تمہیں تمہارے ہی ہاتھوں قتل کرواتے ہیں اور کبھی اپنے لئے اچھائی اور بھلائی کا وسیلہ ڈھونڈتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے دین اور عقیدے میں الجھاؤ پیدا نہ کرو اور اپنے ہی نبیﷺ کی ذات کو موضوع بحث نہ بناؤ۔ علم غیب کے جاننے کی تصدیق خود علم غیب والے نے ہی کردی کہ وہ اپنے نبیوں میں سے جسے چاہتا ہے علم دیتا ہے۔ اللہ نے کسی بنی یا رسول کا نام لیکر نہیں کہا کہ فلاں نبی کو اس علم کی نعمت سے نوازا گیا۔ ہر مسلمان کا یقین ہونا چاہئے کہ اللہ نے جس علم کا ذکر قرآن میں کیا ہے اس علم سے صاحب قرآن کو بھی نوازا ہوگا۔علم غیب خدائی ٹاپ سکرٹ ہے اس لئے اس پر فضول بحث سے بچو اور اپنے نبی ﷺ کی عظمتوں کو پہچانو۔۔۔۔۔

میں نے بہت سے علمأ سے سنا ہے کہ مرنے کے بعد ہر انسان کو عالم برزخ میں نبیﷺ کا چہرہ مبارک دکھایا جائے گا اور فرشتہ پوچھے گا کہ یہ ہستی کون ہیں۔ وہ جن پر اللہ کا کرم ہوگا اور زندگی میں حب رسولﷺ سے سرشار ہونگے وہ آپﷺ کو پہچان لینگے اور گواہی دینگے کہ یہ اللہ کے آخری رسولﷺ ہیں اور میں ان کی رسالت و نبوت پر ایما ن رکھتا ہوں۔ وہ جومنکر رسولﷺ ہونگے اور جن کے دل حب رسولﷺ سے خالی ہونگے آپﷺ کو پہچاننے سے عاجز ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاید اسی لمحے کے خوف کی وجہ سے اللہ کے برگزیدہ بندے بھی لرزاں تھے اور عاجزی سے کہتے تھے کہ یارسول اللہﷺ اگر ہم اپنی کوتائیوں اور غفلتوں کے اندھیروں کی وجہ سے آپﷺ کو نہ پہچان سکے تو آپﷺ ہی اپنے گنہگار امتیوں کو پہچان لینا۔ اسی طرح درودپاک کی فضیلتوں کی وجہ سے علمأ کا کہنا ہے کہ آپﷺ کی حدیث ہے کہ جو کوئی مجھ پر دورد پڑھتا ہے وہ مجھ تک پہنچتا ہے۔ میں نے اہل حدیث علمأ سے پوچھا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ جو درود پاک روضہ رسولﷺ پر پڑھا جائے وہ آپﷺ خود سنتے ہیں اور جو باہر سے یا دنیا کے کسی بھی کونے سے پڑھا جائے وہ فرشتے آپﷺ تک پہنچاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

میں نے غیر مسلم محقیقین سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ہستی قبر کے باہر پڑھے جانے والے درود کو سن سکتی ہے تو وہ یہی درود لاکھوں میل دور سے بھی سننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیقات سے ثابت ہے کہ فضا میں موجود قدرت کے برقی نظام جسے الیکٹرانک ویوز کہا جاتا ہے ہر آواز کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں اور یہ آوازیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے صوتی، برقی لہروں میں ارتعاش پیدا ہونے سے برق رفتاری سے ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل ہوجاتی ہیں۔ موجودہ دور میں کمپیوٹر، سٹیلائٹ، راڈار، ٹیلیویژن اور ٹیلیفون کا نظام اس کی ایک ادنیٰ مثال ہے کہ زمین کی تہوں سے لے کر فضاؤں تک ہر چیز ہی حاضر و ناظر ہے تو وہ خالق و مالک جس نے یہ سب کچھ پہلے سے بنا کر رکھا ہوا ہے جسے انسان اپنے ظاہری مادی علم سے کھوج کرمصرف میں لا رہا ہے کیا کچھ اور نہیں بتایا ہوگا جس کا علم انسانی عقل کے دائرے سے باہر ہے۔۔۔۔۔۔

دوسرے مذاہب کے عالم اور سائینسدان سائینسی علوم کی روشنی میں متشابہات کی کھوج لگا رہے ہیں اور اللہ ان منکرین کے ذریعے اپنے کلام کی سچائی انسان پر ظاہر کررہا ہے۔فرعون کی لاش سے لیکر شہرارم کے آثار اور نوحؑ کی کشتی کا سراغ ان منکرین نے ہی لگایا جس کاذکر قرآن میں کچھ اس طرح ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"وہ اللہ ہے جس نے یہ کتاب (قرآن ) تم پر نازل کی اس میں دو طرح کی آیات ہیں۔ ایک محکمات جو کتاب کی اصل ہیں اور دوسری متشابہات اور جن کے دلوں میں فتور ہے وہ فتنے کی تلاش میں رہتے ہیں اور ہر وقت متشابہات کے پیچھے پڑھے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان کا علم صرف اللہ کو ہے۔ لیکن جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہمارا (متشابہات) ان پر ایمان ہے یہ سب ہمارے ربّ کی طرف سے ہے اور عقلمند ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

سائنسی تحقیقات تو اس بات کا کھوج بھی لگا رہی ہے کہ اگر آواز ارتعاش کی بنا پر ایک سیکنڈ کے ہزاویں حصے ہیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ سکتی ہے اور ساتھ ہی بولنے والے کی تصویرکا مشائدہ بھی ہوسکتا ہے یعنی ایک شخص کنیڈا کے کسی کونے میں بیٹھا انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے مختلف مقامات پر بیٹھے لوگوں سے بیک وقت بات بھی کرتا ہے۔ انہیں دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے تو کائنات میں ایسی لہریں بھی ضرور ہونگی جو انسان کو ان واحد میں بحفاظت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیں۔اس امر کا ذکر بھی قرآن میں موجود ہے کی" اگر میں (اﷲ)چاہوں تو تمہیں کسی دوسری دنیا میں بجھوا دوں اور تمہاری جگہ اور لوگوں کو لے آؤں تو تم کیا کر سکتے ہو۔۔۔۔۔۔"

سائنسدانوں نے اس کا بنیادی نقطہ بھی معراج النبیﷺ سے ہی آٹھایا ہے کہ کس طرح ربّ اپنے بندےﷺ کو ایک ہی رات کے کچھ حصے میں مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک اور پھر سدرۃ المنتہا اور قاب و قوسین تک لے گیا۔ کیا کوئی تصور میں بھی لاسکتا ہے کہ صدیوں پر محیط یہ سفر چند سکینڈوں یا اس سے بھی کم لمحے میں کیسے طے ہوا۔ ظاہر ہے کہ اس پر بحث کرکے اپنی طرف سے تاویلات نکالنا سوائے خبط کے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ قرآن ہی میں اللہ نے حضرت الیاسؑ کا واقع بیان کیا ہے کہ اللہ کے نزدیک زمان و مکان کی کچھ حیثیت نہیں۔ دن اور رات کا ظہور اور فاصلوں کی منازل ربّ کی عظمت کی نشانیاں اور انسانوں کی سہولیات کے لئے ہیں ۔اس کی ایک اور مثال حضرت سلیمان ؑ کا ہواؤں پر تیرتا تخت تھا جو ایک ماہ کی مسافت ایک دن میں طے کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بجائے اس کے کہ مسلمان اللہ کے احکامات پر سر تسلیم خم کریں انہوں نے معراج النبیﷺ کو بھی نہیں بخشا اور اسے نبیﷺ کے خواب سے تعبیر کیا ہے جبکہ مشرقین نے اپنے سائنسی علم کی روشنی میں اسے ایک فیزیکل جرنی یعنی حقیقی اور جسمانی سفرمان لیا ہے اور اس پر مزید کھوج بھی جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآن نے کہا ہے کہ زمین نرو مادہ کے جوڑے اگاتی ہے۔ آج ماہرین نباتات نے سائنسی تحقیق سے بھی یہی جانا کہ جو کچھ زمین پر موجود ہے اور زمین سے پیدا ہوتا ہے وہ نرومادہ کی شکل میں ہی ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے قبل کہ میں سائنسی تحقیقات پر کچھ مزید کہوں میں واپس اپنی بات پر آتی ہوں کہ اللہ کے نبیﷺ نور تھے یا بشر اس موضوع کو بنیاد بنا کر اور ہر جمعے کے خطبے سے پہلے اپنے ہم مسلکوں کو یہ باور کرانا کہ دیکھو بھول نہ جانا حضورﷺ بشر تھے کوئی احسن بات نہیں۔ میں نے بیشمار مساجد کے امامین کو یہ کہتے سنا ہے تاکہ لوگ بھول نہ جائیں اور مسلک کے اسباق سے جڑے رہیں۔ میں نے اس موضوع پر ایک مصری سکالر سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ نوروبشر، حاضروناظر، علم غیب، ولی و لائت اور معراج نبیﷺ جیسے موضوعات میں الجھ کر امت مسلمہ اپنے حقیقی مشن سے ہٹ کر مغلوب، محکوم اور معذور ہوگئی ہے۔ اللہ نے قرآن کے ذریعے ہمیں بتایا کہ اللہ انسانوں ہی میں سے نبی اور رسول مبعوث کرتا ہے مگر یہ لوگ اللہ کی مخصوص اور برگزیدہ ہستیاں ہیں۔ جن کا موازنہ عام انسانوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی خلیل اللہ ہے تو کوئی کلیم اللہ، کوئی روح اللہ ہے تو کوئی ذبع اللہ اور سب سے آخر آنے والی ہستی کی صفات ہی بیان سے با ہر ہیں۔ اللہ نے فرمایا تحقیق اللہ اور فرشتے اس کی رحمت بھیجتے ہیں اوپر نبیﷺ کے ، اے ایمان والو درود بھیجو اوپر ان کے اور سلام بھیجو بہت سلام۔ آپﷺ کو رحمت العالمین کے لقب سے نوازا گیا جو آپﷺ کی عظمت و بزرگی کی ایسی شان ہے جو کسی اور پیغمبر کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ اللہ کے نبی اور رسول ایسی بزرگ و برتر ہستیاں ہیں جو مخلوق تو ہیں مگر دیگر مخلوق کی طرح نہیں۔ اللہ نے انہیں انسانوں ہی کی طرح پیدا کیا مگر ان کے درجات اور صفات کو کوئی انسان نہیں پہنچ سکتا چونکہ ان کی پیدائش کا مقصد دیگر انسانوں کی رہنمائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مصری سکالر نے کہا کہ ہمیں صرف اس بات پر سر تسلیم خم کر لینا چاہئے کہ آپﷺ ساری کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے۔ اللہ ساری مخلوق کا خالق ہے تو آپﷺ ساری مخلوق کے لئے باعث رحمت ہیں۔اگر کوئی عقیدت اور احترام کی اس حد تک جاتا ہے کہ آپﷺ کو نور کہتا ہے یہ اس کا ظرف اور اپنے نبیﷺ سے پیار ہے۔اگر کوئی سائینسی اصول کے تحت معراج النبیﷺ کے مشائدے اور روشنی میں آپ ﷺ کو نور کہتا ہے تو یہ اس کا روحانی تجربہ اور مشائدہ حقیقی ہے جس کا ادراک بے نور دل اور آنکھیں نہیں کر سکتیں ۔۔۔۔۔

میں حضورﷺ کی شان اور رحمت العالمین کی عظمت کو دلورام کے اس شعر کے ساتھ اختتام پذیر کرتی ہوں چونکہ یہ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ آپﷺ کے مقام و مرتبے پر بحث کرے۔ وہ لوگ جو آپﷺ کی ذات مبارکہ پر طرح طرح کے حرف اٹھاتے ہیں آج دنیا میں ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں۔ سندھ میں محمد بن قاسم آیا اور چلا گیا۔ سندھ فتح تو ہوا مگر مسلمان نہ ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی آئے اور سندھ کے ہوگئے اور سارے سندھ میں اسلام کی شمع روشن ہوگئی۔ اسی طرح میدان عرفات سے لے کر ہمالیہ کی چوٹیوں اور ان کے پیچھے چھپی تہذیبوں تک اسلام کی کرنیں پھیل گئیں اور ظلمت کے اندھیرے اجالوں میں بدل گئے۔ دین کی شمع اٹھانے والے یہ وہ مشعل بردار بوریا نشین اورخرقہ پوش تھے جنہیں حضورﷺ نے آخری حج کے عظیم خطبے کے بعد دنیا میں پھیل جانے اور ان تک دین کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا۔ جنہیں آپﷺ کی زندگی میں پیغام حق سننے کا موقع نہ ملا۔

اسلام کے یہ مشعل بردار آپﷺ کے اصحاب اور اللہ کے ولیّ تھے جن کی زندگیاں عشق حقیقی سے لبریز تھیں۔ یہ وہ ہستیاں اور ان کی اولادیں تھیں جنہوں نے بدر کے میدان میں یک جان و زبان ہوکر آپﷺ کے ہاتھ بیعت لی اور کہا اے اللہ کے نبیﷺ ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں جو اپنے پیغمبروں کو یہ کہہ کر چھوڑ جاتے تھے کہ اپنے اللہ سے کیوں نہیں کہتے کہ وہ خود لڑے۔ اگر اللہ واقعی قوت والا ہے تو پھر ہمیں لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ اپنے اللہ سے کہو کہ وہ دشمنوں کا خاتمہ کردے۔ یا رسول اللہﷺ ہم اللہ کے حکم پر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے آئے ہیں۔ ہم آپﷺ کی قیادت اور رہنمائی میں لڑتے ہوئے شہید ہونگے یا پھر اللہ کی مدد و نصرت سے فتح یاب ہونگے آپﷺ کو تنہا نہیں چھوڑینگے۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی وہ منظر ہے جسے اقبالؒ نے اپنے اس شعر کی نذر کیا کہ اگر بدر جیسا ماحول پیدا ہوجائے تو پھر قطار اندر قطار فرشتے بھی اترتے ہیں اور حق غالب آجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

آج دنیا میں جہاں جہاں اسلام ہے وہ ان ہی ہستیوں کی شیریں زبان اور اعلیٰ کردار کی مرہون منت ہے۔ ان کے ساتھ نہ زروجواہر کے لدے اونٹ اور نہ ہی ہاتھیوں اور گھوڑوں پر سوار فوجیں تھیں۔ یہ لوگ اپنے سینوں میں قرآن کا نور بھر کر لائے اور جدھر رخ کیا خدا کی زمین نور ایمان سے منور ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسے ولیّ اور عالم حق ہر پیغمبر کے دور میں ہوئے جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ جیسے حضرت سلیمانؑ کے دربار میں ایک شخص تھا جن کا نام علمأ نے آصف لکھا ہے۔ قرآن میں ذکر ہے کہ پھر وہ شخص بولا جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ اے نبیؑ میں پلک جھپکتے ملکہ صبا کو تخت سمیت تیری خدمت میں حاضر کردونگا۔ یہ شخص ظاہر ہے پیغمبر نہیں تھا بلکہ حضرت سلیمانؑ کا امتی اور ولی اللہ تھا جسے کے پاس کتاب (زبور) کا علم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسے ہی آپﷺ کے اصحاب جن کے سینے نور حق سے روشن تھے جب آپﷺ کے حکم سے کتاب کا علم لے کے نکلے تو دنیا کے کونے کونے تک علم کی روشنی پھیل گئی۔ آج بھی مبلغین کی جماعتیں نکلتی ہیں جن کے پروموٹر اور فنانسر بھی ہوتے ہیں مگر وہ اپنے فرقے اور مسلک کی تبلیغ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا روشنی سے محروم ہوکر اندھیروں میں گم ہورہی ہے۔ علم کی روشنی سے نہ دل منور ہو رہے ہیں اور نہ ہی دماغ معطر۔ فتنے اور فساد کو جہاد کہہ کر جہاد کی روح کو مجروع اور مقصد کو پائیمال کیا جا رہا ہے۔ 9/11اور 7/7 کی گھتیاں شائد کبھی نہ سلجھیں مگر پاکستان میں کوئی کونا ایسا نہیں جہاں اس جہاد کے حقیقت عیاں نہیں۔ پاکستانی طالبان اور پنجابی طالبان کی تخلیق اور تربیت کون کرتا ہے۔ سب جانتے ہیں مگر بولنے پر پابندی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( جاری ہے )
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 76434 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More