ترقی کا زینہ

ار شادِ خدا وندی ہے کہ کسی انسان کو اس کا حق حاصل نہیں، خواہ اس کا منصب واضحِ قوانین کا ہو یا حکمرانی کا، حتی کہ اسے نبو ت بھی کیوں نہ حاصل ہو کہ وہ دوسرے انسانوں سے یہ کہے کہ تم خدا کے نہیں میرے غلام بن جاﺅ۔ انسانی فہم و ادراک سے مدون شدہ قوانین کو خدائی قوانین کا درجہ دے کر موت کے پروانے تقسیم کرناخدائی مسند پر بیٹھنے کے مترادف ہے جو بالکل باطل ،کفر ہے اور اسلام کی بنیا دی تعلیمات کے خلاف ہے۔ متذکرہ بالا آئیت جابرانہ سوچ کے ہر انداز اور ہر استدال کی مکمل نفی کرتی ہے اور انسانوں کو دانشِ نورانی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی ہدائیت کرتی ہے۔ بنی اسرائیل اور عیسائیت کا یہ شعار تھا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے لکھے گئے احکامات کو آسمانی صحیفے اور احکامات کہہ کر لوگوں کو اس کی اطاعت پر مجبور کرتے تھے حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ یہ سب ان کے خود نو شتہ احکامات اور ذاتی خیالات ہیں جن کا خدائی احکا مات سے دور کا بھی تعلق اور واسطہ نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی ذاتی منفعت کی خاطر اس روش کو اختیار کئے رکھتے تھے ۔ قدیم مذاہب کی قائم کردہ یہ روش کس نہ کسی انداز سے اسلام میں در آئی اور مذہبی پیشوائیت نے اپنی فکر اور سوچ کو خدائی احکامات کا نام دے کر لوگوں کو اسکی اطاعت کا پابند کرنے کی کوشش شروع کر دیں اور جس صا حبِ عقل و دانش نے ان کی اس فکر اور سوچ کو چیلنج کرنے کی جسارت کی اسے مختلف الزامات کے تحت قتل کا حق دار ٹھہرا دیا گیا ۔ انسانیت کو ابدی ہدا ئیت کےلئے جو ضابطِ حیات خدا کی طرف سے ودیعت ہو نا تھا وہ قرآن کی شکل میں عطا ہو چکا ہے اور اس میں ہر شہ کو وا ضح اور کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے کہ جس کسی نے ایک جان کو بھی ناحق ہلاک کر دیا تو ایسا سمجھئے گویا اس نے پوری نوعِ انساں کو ہلاک کر دیااور جس نے کسی ایک جان کو بھی ہلاکت سے بچا لیا تو یوں سمجھئے گویا اس نے تمام نوعِ انساں کو زندگی عطا کر دی۔علم و ادب کی دنیا میں تکریمِ انسانیت کا اس سے بہتر اسلوب اور انداز تلاش کرنا ممکن نہیں ہے۔ قرآن نے جس بات کو ایک جملے میں پوری جزیات کے ساتھ واضح کردیا ہے اسے وقت کے مورخ شائد کئی کتا بیں لکھ کر بھی واضح نہ کر سکیں لیکن حیف صد حیف کہ شدت پسند حلقے پھر بھی انسانیت کے قتل کےلئے راہِ جواز تلاش کر تے ہیں اور بے گنا ہوں کومذ ہب کے نام پر قتل کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔

حالتِ جنگ میں دشمن کو زیر کرنا،اس پر قابو پانا اور س کو قتل کرنا جرات اور بہادری کی علامت سمجھا جا تا ہے تبھی تو سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے خالد بن ولید کو سیف اللہ اور حضرت علی کو اسد ا للہ اور خیبر شکن کے خطا بات سے نوازا تھااور لا سیف الا ذو لفقار کا جرات و بسالت میں لپٹا ہوا تا ریخ ساز جملہ تاریخ عالم کی پیشانی کا جھو مر بنا تھا۔ لیکن انسانی عظمت اور رفعت کا کمال یہ ہے کہ سفاک اور بے رحم دشمنوں سے حالتِ جنگ میں بھی سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ نے اسلام کے پیرو کاروں کو ہدائیت فرما رکھی تھی کہ کمزو روں ،ناتوانوں،بچوں ،بوڑھو ں اور خوا تین پر ہاتھ نہ ا ٹھا نا لیکن کچھ لوگ ہیں کہ بڑے سورما بن کر اپنے ہی وطن کے مفلو ک ا لحال،کمزور، مفلس و نادار اور غریب عوام کو ذاتی جذبہِ انانیت کی تسکین کی خاطر اسلام کے مقدس نام پر گھسیٹ کر سرِ دار کھنچنے کی مشق میں لگے ہو ئے ہیں اور اپنے اس فعل کو سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ سے اپنی محبت کا نام دے کر اس کی تشہیر کر رہے ہیں حالا نکہ سرکارِ دو عالم ﷺ نے تو ایسا کرنے سے سختی سے منع فرمایاتھا ۔آپ ﷺ کی تو ساری حیاتِ طیبہ انسانی احترام اور ا س کی عظمتوں کی منہ بولتی تصویر ہے۔اب اگر کوئی شخص،گروہ اور جماعت ایسے شدت پسند افراد کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے، انھیں حقائق کا آئینہ دکھانے کی جرات کرتا ہے اور اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کروانے کی سعی کرتا ہے تو اس پر اسلام دشمنی اور توہینِ رسا لت کا فتوی لگا کر ا سے قتل کردیا جاتا ہے۔۔
احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر۔۔تاویل سے قرآں کو بنا دیتے ہیں پا ژند (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال)

اگر ہم معاشروں کے ارتقا اور انکی ترقی کا جائزہ لیں تو ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں نظر آتی ہے کہ جن معاشروں نے تحمل اور برداشت کو اپنی زندگیوں پر لاگو کیا وہی معاشرے ترقی کی منازل طے کرتے رہے ۔ سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفےﷺ کا خطبہ حجتہ الوداع اس سوچ کا سب سے بڑا شاہکار ہے۔ ایسا خطبہ جس نے ایک طرف نسلی تفا خر کی ساری دیواروں کو ملیا میٹ کیا تو دوسری طرف عفو و درگر کی ایسی عظیم روائیت کا آغاز کیا کہ جس پر اہلِ دنش آج بھی انگشت بد ندان ہیں۔ ایک قبا ئلی معاشرہ جس میں جنگ و جدل اور انتقام اس قبائلی معاشرے کی سب سے مضبوط بنیاد بھی تھی اور اسکی پہچان بھی تھی اسکا بیک جنبشِ قلم خاتمہ کر دیا گیا۔ اتنی قدیم روایات کے خاتمے کے اعلان کےلئے فصاحت و بلا غت کا ایسا دلکش انداز اپنا یا کہ عقل دنگ رہ جا تی ہے ۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کسی گورے کو کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کو ئی فوقیت نہیں ہے ۔ بڑائی کا معیار صرف تقوی ہے۔ تمھارا خون اور تمھارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جسطرح تمھارے لئے آج کے دن کی اس مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہےلکن باعثِ حیرت ہے کہ مذہبی شدت پسند پھر بھی مذہب کی من پسند تعبیروں سے لوگوں کے قتل کے فتوے د ینے معاشرے میں ناہمواریوں پھیلا نے اور فساد کو ہوا دینے سے باز نہیں آتی۔ تکریمِ انسانی کا وہ درس اور فلسفہ جس کی تبلیغ کر تے کرتے سرکاررِ دو عالم ﷺ کی پوری زندگی گزر گئی اور جو اسلام کی پہچان، اس کی روح اور اس کا حاصل ہے اس سے صریحا رو گردانی کرتے ہیں۔۔

قرآنِ مجید میں ارشادِ خداوندی ہے کہ تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے لکھی گئی تحریروں کو خدائی احکامات کہہ کر پکارتے ہیں اور پھر اسے خدا کی جانب منسوب کر دیتے ہیں حا لانکہ جو کچھ وہ کہتے اور کرتے ہیں خدا نے اس کی کو ئی سند نہیں اتاری ۔ مختلف ادوار میں عقلِ انسانی اپنے مسائل کے حل کےلئے کچھ قوا نیں مدون کرتی ہے اور اپنی فہم و فراست اور دانش پر تہنیت کے ڈ ھنڈو رے بھی برساتی ہے لیکن انکی دانش کا شاہکار قا نون ابھی چند قدم بھی نہیں چلتا کہ لڑکھڑانے لگتا ہے کیونکہ اس میں انسانی جذبات کی امیزش ، انتقام کی بوا ور انسانی فکر کی محدودیت اسکی راہ میں حائل ہو جاتی ہے او اس قانون کے نقائص کو طشت از بام کر دیتی ہے لہذا انسانوں کو فہم و فراست سے تخلیق کردہ قوانیں میں ترمیم کرنی پڑ جاتی ہے صدیوں سے یہی ہوتا چلا آیا ہے اور صدیوں تک یہی ہو تا رہےگا کیونکہ معروضی حالات کے مطابق نئی قانون سازی ہی ا نسا نیت کی ضرورت ہو تی ہے۔دنیا کے کسی بھی آئین کو اٹھا کر اس کا مطالعہ کر لیجئے آپ کو اس میں سینکڑوں ترامیم ملیں گی کیونکہ حالات کا جبر، وقت کا بہاﺅ اور سائنس کی دنیا میں حیرت انگیز ترقی قوانین کو بدلنے کا محرک بن جاتی ہے۔

پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کو ایک قانون منظور کرنا ہو گا جس کے ذریعے ہر طرح کے فتووں پر پابندی لگا دی جا ئے اورا س قانون کو توڑنے والے کےلئے سزا لکا تعین کر دیا جائے تا کہ صدیوں سے چلے آنے والا یہ سلسلہ اپنے انجام کو پہنچے اور انسان سکھ کا سانس لیں۔ علامہ اقبال اسی فکر اور سوچ کے حامی تھے اور منتخب پارلیمنٹ کو اجتہاد کا فرض سو نپنا چا ہتے تھے ۔پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ کو اجتہاد کے مشکل کام کو خود اپنے ہا تھوں میں لینا ہو گا ۔ اس مشکل کام کےلئے اگر انھیں اپنے وقت کے جید علما سے مشاورت کی ضرورت پڑے تو وہ ان سے مشاورت کرے تا کہ باہمی مشاورت سے مجوزہ قانون سازی اور اسلام کی تعبیر اسلام کی حقیقی روح کی عکاس بن سکے۔ بنگلہ دیش میں ایک زمانہ ہوا ایسا قانون منظور ہو چکا ہے جس کے تحت فتوے دینے کا اختیار صرف منتخب پارلیمنٹ کو تفویض ہو چکا ہے لہذا ضروری ہے کہ ایسا قانون پا کستان میں بھی منظور کیا جا ئے تا کہ روز روز کے کشت و خون سے پاکستا نیوں کی جان چھوٹ جا ئے اور مذ ہبی پیشوائیت کا ڈر اور خوف قدرے کم ہو سکے۔۔

ٹارگٹ کلنگ کے ناسور نے جس طرح ہماری اخلاقی، مذہبی اور معاشرتی قدروں کے دیوالیے پن کا بھانڈا بیچ چو راہے میں پھوڑ دیا ہے وہ ہم سب کے لئے لمحةَ فکریہ ہے۔ اپنے ہمو طنوں کا جس بے دردی اور سفاکیت سے ہم قتل کر رہے ہیں اس نے ہمیں انسانیت کی مسند سے بہت نیچے گرا دیا ہے اور ہم مہذب دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ کراچی جیسے شہر میں روزانہ درجنوں انسانوں کا قتل درندگی کی بد ترین مثال ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ ہمیں اپنے افعال پر شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوتا ۔ پوری دنیاہمارے کردار کی وجہ سے ہمارے منہ پر تھوک رہی ہے لیکن ہم ہیں کہ انسانی قتل کے کلنک کا ٹیکہ اپنی پیشانی پر سجانے سے باز نہیں آرہے۔کو ئی لسانی مجبوریوں کا اسیر ہے تو کوئی نسلی تفاخر کا شکار ہے۔اور اسی تفاخر کی شمشیر سے وہ اپنے ہموطنوں کے گلے کاٹ رہا ہے۔ بوری بند لاشیں پاکستان کی پہچان بن گئی ہیں ۔دن دھاڑے قتل اور اغواہ برائے تاوان روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ چند سکوں کے عوض انسانی قتل ایک عام سی بات ہے ۔سیاسی جما عتیں جو عوامی نمائندگی کا دعوے کرتے نہیں تھکتیں ان کے ہاتھ عوام کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں کا ایک ہی خواب ہے کہ کراچی کا کنٹرول کسی نہ کسی طرح ان کے ہاتھ میں ہونا چائیے اور اس کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

اپنے اقتدار کی خاطر حقیقی بھائیوں کے قتل کے واقعات سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں لیکن وہ لوگ جن کا اقتدار سے دور تک کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے ان کے لہو کو اپنے اقتدار کے لئے زینہ بنا نا انسانی سفاکیت کی انتہا ہے۔ایک طرف لسانی گروہ ہیں دوسری جانب علاقائی جماعتیں، تیسری طرف سیاسی جماعتیں ہیں اور چوتھی جانب مذہبی جماتیں ہیں اور ان ساروں کے بیچ انسانی خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔مذہبی منافرت، عداوتوں اور نفرتوں نے اس معاشرے میں قتل و غارتگری کا آغاز کیا تھا لیکن اب بات ان کے ہاتھوں سے بہت دور نکل گئی ہے ۔ آج کے پاکستان میں لوگ دن دھاڑے کبھی دھشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں کبھی مذہبی منافرت کا ھدف بنتے ہیں کبھی لسانیت ان کی جان لے لیتی ہے کبھی علاقائی سوچ ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیتی ہے اور کو ئی نہیں جو ان درندہ صفت انسانوں اور بھیڑیا نما انسانوں سے ان کی حفاطت کا بندو بست کرے ۔سیدنا فاروقِ اعظم کا ارشاد ہے کہ اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک اور پیاس مر گیا تو روزِ محشر عمر بن خطاب سے اس کی باز پرس ہو گی ۔پاکستان میں تو دھشت گرد روز اپنے ہمو طنوں کا خون بہا رہے ہیں اور ان میں خوفِ خدا نام کی کوئی چیز جنم نہیں لیتی ۔ کیا پاکستان کے لوگ کتوں سے بھی کم تر ہیں کہ ان کے بارے میںہمارے حکمر ان، سیاسی اکابرین ، مذہبی جنونی اور شدت پسند باز پرس کے تصور سے ماورا ہو چکے ہیں۔

اے تقدیسِ انسان کے علمبردارو ، عظمتِ انساں کے نغمہ خوانوں اور مساواتِ انسا ں کے حاشیہ بردارو مجھے تاریخِ عالم میں کسی ایک ہی ایسی شخصیت سے روشناس کرا دو جو صاحبِ اقتدار ہو تو ان سب مخا لفین کو جنھوں نے اس سے جنگیں کی ہوں، اسے ہجرت پر مجبور کیا ہو، اس کے گھر بار پر قبضہ کر لیا ہو اس کے اہلِ خانہ کے قتل میں ملوث ہوئے ہوں ، اس کے انتہائی قریبی اور پیارے ساتھیوں کی موت کا باعث بنے ہوں، اس کی پاکیزہ زندگی کا چراغ گل کرنے کی سازشیں کرتے رہے ہوں اور جب کبھی بھی اسے انہی لوگوں اور گروہوں پر غلبہ حاصل ہوا ہو تو اس نے انھیں معاف کر دیا ہو۔ہمیں تو تاریخ میں ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو اپنی فتح کے جشن پر انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنا تے ہیں خون کی خولی کھیلتے ہیں اور اپنے مخالفین کا نام و نشاں مٹا دیتے ہیں ۔تاریخ ہمیں بتا تی ہے کہ سرکارِ دو عالم ﷺ تو فتح مکہ کے وقت اتنے جھکے ہو ئے تھے کہ ان کا چہرہ مبارک قصوی کی گردن کے بالوں کو چھو رہا تھا اور وہ مولائے دو جہاں اور خالقِ ارض و سما سے رحمت کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ ہم لوگ بھی کیا لوگ ہیں کہ وہ شخصیت جسے آپ ﷺ کے مخالفین بھی رحیم ، کریم اور انسان دوست شخصیت کہہ کر پکارتے ہیں اور جسے مالکِ ار ض و سما رحمت للعالمین کہ کر پکارتا ہے ہم ا سی ذاتِ اقدس ﷺ پر اپنے مخالفین کے قتل کا الزام لگانے سے نہیں چوکتے ۔ہم ریاست کے مجرمین جنگی مجرمین اور ذاتی مخالفین میں فرق نہیں کرتے اور یوں سچائی کو دیکھنے ، سمجھنے اور پرکھنے سے معذور ہو جاتے ہیں ۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا ہمیں مہذب اقوام کی صف میں کھڑے ہو نے کا موقعہ دے تو پھر ہمیں تحمل برداشت رواداری اور معاف کر دینے کے جذبوں کی آبیاری کرنی ہو گی۔ ہمارے سامنے معراجِ انسانیت پر فائز آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفے ﷺ کی ذاتِ اقدس کا اسوہ حسنہ موجود ہے لہذا نفرتوں کا گلہ گھونٹ کر محبت کی شمع جلا نی ہو گی تا کہ انسانیت ہم پر فخرر و ناز کرے۔یاد رکھو تخمل ، برداشت اور رواداری کے جذبے ہی قوموں کی ترقی کے زینے ہوا کرتے ہیں لہذا ہمیں ان زینوں کو نئے سرے سے تراشنا ہو گا اور تکریمِ ا انسا نیت کی تابندہ اور روشن راہ اپنانی ہو گی تاکہ ہم بھی عظمتِ انسان کی مسند پر بیٹھ کر دنیا کے مقدر کے فیصلے کر سکیں۔یاد رکھو اگر ہم نے ایسے رویے نا اپنائے تو ہم وقت کی دھول میں گم ہو جائیں گئے اور ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516058 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.