خود احتسابی اورمعاشرہ

یہی درماں ہے میری اقتصادی تیرہ بختی کا
مرے اندر کوئی پھوٹے کرن خود احتسابی کی
بانو قدسیہ لکھتی ہیں کہ ہمارے لیے گناہ کا معیار اس سے ذرا سا آگے ہوتا ہے جہاں ہم خود ہوتے ہیں۔
اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی سے بات کرتا ہو تو اس کو وہ گناہ گار لگتا ہے جو ملاقات بھی کرتا ہو۔ جو ملاقات کرتا ہو اسے لگتا ہے یہ تو اتنا بڑا گناہ نہیں۔ گناہ تو وہ کرتے ہیں جو بوس و کنار کرتے ہیں۔ بوس و کنار والے سوچتے ہیں کہ گناہ تو زانی کرتے ہیں، یہ تو اتنا گناہ نہیں۔الغرض ہم گناہ کا پیمانہ ہمیشہ خود سے ایک قدم آگے ہی رکھتے ہیں۔یہی ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ ہم ہمیشہ خود کو اس پیمانے پہ رکھتے ہیں جہاں سے ہمیں صرف دوسروں کی غلطیاں نظر آتی ہیں.،مگر ہم اپنا محاسبہ نہیں کرتے، یہاں ہر انسان نے درست اور غلط کے الگ الگ معیار بنا رکھے ہیں اورر وہ اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں نا کہ
"اتنے نیک بھی نہ بنیں کے باقی سب گنہگارلگنے لگیں۔"
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سْراغِ زندگی
کہتے ہیں، کسی میوزیم میں ایک قدِ آدم تصویر آویزاں تھی، یہ تصویر جھیل کی تھی جس پر پْل بنا ہوا تھا۔
دیکھنے والے آتے، دیکھتے، پھر اس کی خوب صورتی اور حقیقت سے قریب تر ہونے کی داد دیتے۔ بعض لوگ اس جھیل کو حقیقی سمجھ کر پار کرنے کی کوشش بھی کرتے، لیکن بالکل قریب آنے پر اْنہیں احساس ہوتا کہ یہ حقیقی جھیل نہیں، بلکہ تصویر ہے۔ کسی نے یہ بات اس تصویر کے مصور تک پہنچادی۔ مصور اْداس ہو گیا، کہنے لگا: افسوس! میری تصویر حقیقت سے زیادہ قریب نہیں ہے، یہ تصویر ایسی ہونی چاہیے تھی کہ جب تک کوئی اسے چھو نہ لے اْسے یقین نہ آئے کہ یہ تصویر ہے یا حقیقت! اْس نے تصویر کو ازسرِنو بنایا، دن رات محنت کی اور کئی ماہ کی عرق ریزی کے بعد ایسی تصویر تیار کر لی کہ جب تک اسے چْھوا نہ جاتا، کوئی یقین نہ کرتا کہ یہ حقیقت ہے یا تصویر!
مصور کے اپنی غلطی کے احتساب والے اس نظرئیے کو خود احتسابی کہتے ہیں۔ یہ ایک بہت مبارک عمل ہے۔ حکیم لقمانؒ سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حکمت و دانائی کہاں سے سیکھی؟ کہنے لگے: ”نادانوں سے.. کہ جب وہ کوئی نادانی والا عمل کرتے، میں فوراً اپنا محاسبہ کرتا کہ کہیں مجھ میں تو یہ عمل نہیں پایا جاتا؟ اگر میرے اندر وہ عادت ہوتی تو میں فوراً اْسے چھوڑ دیتا۔“
ہمارے آس پاس ایسے بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں مگر ہم انہیں دیکھ کرسیکھنے کی بجائے تنقید میں مگن رہتے ہیں۔خود احتسابی، محاسبہ یا سیلف ٹرائل کی عادت انسان کو بہت فائدہ دیتی ہے۔ یہ کامیابی کا پہلا زینہ ہے۔ اس کے ذریعے سے ہم اپنے اندر پیدا ہونے والے مثبت یا منفی رجحانات کا پتا لگا سکتے ہیں، اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نگاہ رکھ سکتے ہیں، اپنے اخلاق و کردار کو سنوار سکتے ہیں کیوں کہ بہت سے معاشرتی، معاشی، سماجی، انفرادی اور اجتماعی مسائل کی جڑ ہی خود احتسابی کا فقدان ہے۔خود احتسابی سے محروم شخص ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا، کیوں کہ اسے اپنی کمی کوتاہیوں کا علم نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی اور وہ سابقہ غلطیوں سے سبق نہیں سیکھ سکتا۔
خود احتسابی دنیا کا مشکل ترین کام ہے، کیوں کہ یہ انسان کو اْس کی حقیقی اور سچی تصویر دکھاتا ہے، اسے اس کے بھیانک روپ سے متعارف
کراتا ہے اس کو اس پیمانے پر سوچنے پر قائل کرتا ہے جس سے عموماً انسان دوسروں کو جانچاجاسکتا ہے، اور اس کی سستی و کاہلی، تن آسانی و آرام طلبی اور تغافل و تساہل کو توڑدیتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص اپنے اہداف و مقاصد اور منزل و راہِ عمل متعین کر کے خود احتسابی کرتا ہے، کامیابیاں اس کے قدم چومتی ہیں.کیونکہ جو وقت ہم دوسروں کو جانچنے اور کو گنہگار ثابت کرنے میں لگاتے ہیں وہی وقت جب ہماری خود احتسابی پر خرچ ہوتا ہے تو اس سے معاشرے کے بہت سے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔

Mishaal Fatima
About the Author: Mishaal Fatima Read More Articles by Mishaal Fatima: 3 Articles with 2309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.