ایک قوم کے لئے مذہب کو تھامنا کتنا ضروری ہے۔۔۔

بات بڑو کی نہیں ، بات اقلیت اور قابلیت والوں کی ہیں۔ورنہ کیسے سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم ایک بڑی فوج کو کمانڈ کر سکتا ہے کہ ایک تجربہ کار راجہ داہر کی فوج کو ان کے اپنے ہی ملک میں شکست دیکر یہاں اسلام کا پرچم لہرائے۔کیو اتنی كم عمر نوجوان نے ایسا کارنامہ سر انجام دیا ،جو تیس سالہ جوان سپہ سالار یا اس کا حاکم بھی نہیں کر پایا؟ کیا کوئی اور بڑی طاقتور افواج نہیں تھی؟ اگر محمد بن قاسم ایک مسلمان تھا تو کیا اور مسلمان حاکم نہیں تھے؟ محمد بن قاسم کے حسن انتظام اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر سندھ کے بہت سارے خاندان مسلمان ہو گئے ۔ کچھ روایات میں یہ بھی ہے کہ راجہ داہر کا ایک بیٹا بھی مسلمان ہو گیا تھا۔ یوں بقول قائداعظم برصغير دو قومی نظریے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ظاہر
میں ہے جس شخص نے بتوں کی پرستش کو چھوڑ کر ایک اللہ کو اپنا معبود مان لیا تو اس نے ان تمام رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت کو چھوڑ دیا جس پر وہ عمل پیرا تھا۔ اس نے اس نام تک کو ترک کر لیا جو اسے پیدائش پر دیا گیا تھا۔ یہی کچھ بر صغیر میں ہوا اور ایک نئے نظریہ زندگی نے جنم لے لیا جو موجود طرز زندگی سے بالکل مختلف تھا۔

اسلام اور ہندومت دو مختلف سمتوں چلتی ہوئے دو قوموں کی صورت میں موجود رہے۔ مسلمانوں نے محمود غزنوی اور قطب الدین ایبک سے لیکر تا وقت اپنا تشخص برقرار رکھا کیونکہ ان کے پاس ایک دین، مذہب اور اصول تھے۔ اس کے برعکس ہندو مذہب کے رسم و رواج کا ایک مجموعہ ہی ہے وہ ہر اس چیز کو معبود بنا دیتے ہیں جو انکے فائدے یا نقصان کا باعث بنے۔ اسلام مساوات کا داعی ہے جسمیں کالے کو گورے ،گورے کو کالے اور کو عربی پر کوئی فوقیت عربی کو . حاصل نہیں۔ یہاں ہر انسان اپنے اعمال کی بنا پر عزت یا ذلت کا حقدار ہے۔ جبکہ ہندومت میں عزت و ذلت خاندان اور ذات پات رنگ نسل کا بڑا فرقہ ہے۔ صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود ہندو اور مسلمان اپنے اپنے مذہب اور رہن سہن پر مکمل طور پر قائم رہے۔ البیرونی اپنی مشہور کتاب، کتاب الہند میں لکھتے ہیں 'ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں (غیرو) کی طرح اپنی اپنی راہ چل رہے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے کو چھو تو لیتے ہیں لیکن مدغم نہیں ہوتے۔ البیرونی کے صدیوں بعد بھی یہی صورتحال قائم رہی۔ اور ہندو اور مسلمان اپنے اپنے طرز زندگی پر قائم رہے۔ دراصل یہ معاملہ دو مذاہب کا تھا۔ جن میں سے ایک قوم کا ایک لیڈر تھا اور دوسرے قوم کے کئی لیڈر تھے۔ سرسید احمد خان جو ایک عرصہ تک ہندو اور مسلمان کو ایک ہندوستانی قوم کے افراد سمجھتے رہے لیکن اردو ہندی تنازعے کے بعد نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنے خیالات بدلے بلکہ بڑی شدت سے ہندو اور مسلمان کو پہلی بار دو قوموں کے طور پر پیش کیا اور اعتراف کیا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے مذہب اور زندگی گزارنے کا طریقہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ سید امیر علی اور کئی دوسرے اکابرین نے اس نظریے کی بڑی مدلل اور منطقی انداز میں تشریح کی۔ اقبال کی آواز قوم مذہب سے ہے نے برصغیر کے مسلمانوں کے شعور کو مزید جلا بخشی۔ قائد اعظم نے اس نظریے کو سیاسی طور پر اتنے مضبوط انداز میں پیش کیا کہ انگریز کو پاکستان کے مطالبے کے سامنے ہار ماننا ہی پڑی۔ قائد نے کہا مسلمان اقلیت نہیں وہ قوم کی ہر تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں۔ 1937ء میں قائد نے کہا کہ ہندوستان کبھی ایک ملک نہیں رہا اور نہ ہی اس کے رہنے والے ایک قوم۔ یہ بر صغیر ہے جس میں بہت ساری قومیں بستی ہیں جن میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔

آج جب ہم ایک آزاد ملک میں آزاد شہری کی میں تو حیثیت سے رہ رہے ہیں تو کچھ ناشکرے اور احسان فراموش لوگوں کی دو قومی نظریے پر تنقید بھی سنائی دے دیتی ہے۔ میرے خیال یہ وہ بدقسمت لوگ ہیں جو تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہیں ورنہ وہ جانتے کہ چوہدری رحمت علی نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگال میں بانگ اسلام کے نام سے مسلم مملکت کا منصوبہ پیش کیا تھا اور ابھی بھی ان کا ایک منصوبہ تشنہ تکمیل ہے۔اس وقت مغربی اور مشرقی پاکستان میں مسلمان ہندوستان سے دو گنا تھے۔ اور جو لوگ پاکستان نہ پہنچ سکے وہ بھی مجبوراً وہاں رہ گئے اور آج بھی کوئی اچھی زندگی نہیں گزار رہے۔ وہ لوگ اب بھی ہندوستان میں دو قومی نظریے کے ثبوت کے طور پر اپنے مذہب اور طرز زندگی پر قائم ہیں وہ آج بھی عید میلاد النبی اور عاشورہ محرم مناتے ہیں دیوالی اور ہولی اب بھی ان کے مذہبی تہوار نہیں ان کے مہینے آج بھی محرم، صفر اور ربیع الاول ہیں، ماگھ اور جیٹ نہیں اگرچہ وہ ان ناموں کو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا کیلنڈر ہجری ہے ہندی نہیں لباس کے معاملے میں بھی وہ ہندوں سے بالکل مختلف ہیں۔ اور تو چھوڑیے طرز تعمیر ہی کو لیجئے جہاں روایتی طور پر ہندو تنگ اور ہوا بند گھروں میں رہتے ہیں وہیں مسلمان کھلے اور ہوادار گھر بناتے ہیں ان کے روایتی برتن اور ان کے رسم و رواج آج بھی یکسر مختلف ہیں۔ پیدائش، شادی اور موت ہر ہر طریقہ آج بھی ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ماڈرن ازم کے نام پر رسم و رواج کے ہندو ملغوبے کو اگرچہ میڈیا سے دیکھ دیکھ کر ہم میں بھی کچھ لوگ اپنانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن نا سنجیدہ طبقوں میں یہ سب کچھ آج بھی پسندیدہ ہے۔ جو لوگ قوم کو مذہب سے الگ کر کے
اس نظریے کو باطل ثابت کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قومیں بنتی ہی مذہب کی بنیاد پر ہیں ورنہ آج امریکہ مسیحی صدر کی شرط نہ رکھتا اور اسرائیل میں بھی مسلمان صدر ہونا ممکن ہوتا۔ لہذا اس انتہائی نا معقول نظریے پر بجائے فخر کے ندامت ان کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ بھارت میں مسلمان صدر بن جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ اب وہاں دو قومیں نہیں بستی گجرات، بہار اور احمد آباد بھی بھارت ہی کے شہر ہیں جہاں مسلمان کے خون کی کوئی قیمت نہیں اور انہیں ان کی مسلمانی کی شدید سزا دی جاتی ہے۔ لہذا یہ سوچ لینا کہ دو قومی نظریہ کوئی فرسودہ نظریہ ہے میرے خیال میں یہ خیال ہی فرسودہ ہے۔ دو قومی نظریہ آج بھی اتنا ہی جواز رکھتا ہے جتنا آج سے سو یا تریسٹھ سال پہلے رکھتا تھا۔ دو قومی نظریے نے ہی برصغیر کے عوام کو وہ توانائی عطا کی جس نے پاکستان کی بنیاد رکھی اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے دشمن پاکستان کے خلاف سازش کرتے ہیں تو پہلے جو بھارت سے محبت اور دوستی کا ثبوت دینے کی کوشش اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ ہمارا کلچر یعنی ثقافت ایک ہے اور اس کے لیے چھوٹی چھوٹی علاقائی مماثلتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بات آج بھی وہی ہے جو البیرونی نے ہزار سال پہلے کہی تھی کہ مسلمان اور ہندو دھارے ایک دوسرے کو چھوتے ضرور ہیں آپس میں مدغم نہیں ہوتے۔

یہ سب باتیں اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک قوم دو مذاہب کہ ساتھ نہیں رہ سکتی۔ ایک شخص ایک جسم پہ دو لباس نہیں پہن سکتا۔ اسے طرح ایک ھاتھ میں دو تربوز نہیں آ سکتے۔تو کیوں ہم جو ایک آزاد ملک میں ایک آزاد انساں کی طرح رہے رہی ہے تو کیوں نہ آپنے مالک کا شکر ادا کریں۔اور ان کا جنہونے قربانیاں دیں اپنی آنے والی نسلوں کے لئے مطلب کے ہم۔ جو اس وقت خد کو سپرہروز سمجھ رہیں ہے
 

Abdul Samad
About the Author: Abdul Samad Read More Articles by Abdul Samad: 2 Articles with 424 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.