آج کا موضوع نہ صرف نہایت اہمیت کا حامل ہے بلکہ اپنے اندر حساسیت کا پہلو بھی رکھتا ہے۔ اچھا اس بات کی شاہد میں ہی نہیں، آپ کے مشاہدے میں بھی یہ بات ہو گی اور اگر آپ غور کریں گے تو شاید آپ بھی میری بات سے اتفاق کریں گے۔
بات کی شروعات میں ہی معذرت کرنا چاہونگی اپنی تمام بہنوں سے مگر حقیقت کچھ یوں ہی ہے اس لۓ مجبوری ہے۔ جب بھی دو یا دو سے زائد خواتین کہیں تشریف فرما ہو یا کسی محفل کا حصہ تو ان کا پسندیدہ موضوع یا تو شوہر ہوتے ہیں یا بہو، ساس یا سسرال۔ ایک اور توجہ طلب تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی ان کے بارے میں گفت و شنید کر رہی ہوتی ہیں وہ منفی جذبات سے لیس ہوتی ہے۔
معلوم نہیں اس سے یا تو ان کو تسکین ملتی ہے یا شاید ایسا کر کے نادانستہ طور پر وہ اپنی شخصیت کے منفی اسرارورموزسے پردہ اٹھا رہی ہوتی ہیں۔ بلا شبہ کسی کی غیبت کرنا ایک برا عادت بلکہ گنہگار بنا دینے والی عمل ہے۔
اگر وہ اپنے شوہر، بہو یا سسرال کی برائیاں بیان کر رہی ہوتی ہیں تو یقیناً اس سے دوسرے صرف لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں کیونکہ اچھا مشورہ تو کوئ دیتا نہیں اور پھر وہی حاضرینِ محفل کہیں اور جاکر آپ کے گھریلو معاملات کو مزید مرچ مصالحہ لگا کر بیان کرتے ہیں۔
ایک نہایت اہم نقطے کی طرف اپنے قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہونگی کہ جس طرح تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے اسی طرح آپ صرف دوسروں کی برائیوں کی تشہیر کر کے، کسی کی کردار کشی کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ تصور نہیں کر سکتے۔ ضروری نہیں کہ غلطی صرف اسی ذات کی ہو جو آپ کے درمیان موجود نہیں۔ بحیثیت بیوی، ساس یا بہو چونکہ ہم بھی انسان ہی ہیں ہم سے بھی غلطیاں سرذد ہوتی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم اس حقیقت کو ماننے کے لۓ تیار نہیں ہوتے۔ ہم کیوں غلطیوں کے بھنور سے خود کو باآسانی الگ کر کے دوسروں کو دانستہ بلکہ بخوشی اس میں دھکیل دیتے ہیں اور پھر کمال بات کہ اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
لہذٰا میرا مخلصانہ مشورہ مجھ سمیت اپنے تمام پڑھنے والوں کو ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اپنے شوہر، بہو، ساس یا سسرال کو موضوعِ محفل نہ بنائیں۔ بلکہ اس کے بر عکس اگر ان کا ذکر کرنا مقصود ہی ہو تو ان کی شخصیت وکردار کے مثبت پہلوؤں کو سامنے لائیں۔
مانا کہ امر مشکل ہے مگر یہ ممکن تب ہی ہو گا جب ہم مثبت سوچیں گے، جبھی تو ہمارے رویے اور طرزِعمل مثبت ہو نگے اور ہم دوسروں میں مثبت سوچ منتقل کر سکیں گے۔
|