گرین ترقی کا سفر

چین نے ابھی حال ہی میں اختتام پزیر ہونے والے "دو اجلاسوں" کے دوران گرین توانائی کے انقلاب کو آگے بڑھانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ چین اس وقت دنیا کے 80 فیصد سولر پینل اور الیکٹرک وہیکل (ای وی) بیٹریاں اور تقریباً 60 فیصد الیکٹرک گاڑیاں تیار کرتا ہے۔ چین کی برقی کاریں تیار کرنے والی کمپنی بی وائی ڈی نے رواں سال ٹیسلا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی الیکٹرک کار ساز کمپنی کا اعزاز بھی حاصل کر لیا ہے۔گرین انرجی ٹرانسمیشن میں چین کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے ماہرین نئی توانائی والی گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ میں ملک کے قائدانہ کردار کے ساتھ ساتھ چین بھر میں قابل تجدید توانائی میں اس کی سرمایہ کاری اور اطلاق کو بھرپور سراہتے ہیں۔چین نے اپنی حکومتی ورک رپورٹ میں بھی کہا ہے کہ وہ انٹیلی جنٹ کنکٹڈ نیو انرجی وہیکلز جیسی صنعتوں میں اپنی قائدانہ پوزیشن کو مستحکم اور بہتر بنائے گا ، اپنے توانائی کے ڈھانچے کی سبز منتقلی کو آگے بڑھائے گا ، اور توانائی کے ایک نئے نظام کی ترقی کو تیز کرے گا۔بیٹری ٹیکنالوجی کے لحاظ سے چین دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ اہم معدنیات کی پیداوار کے لحاظ سے بھی دنیا کا رہنما ہے جو نہ صرف بیٹریوں بلکہ دیگر مصنوعات کے لحاظ سے بھی جانا جاتا ہے۔

شفاف نقل و حمل میں بھی چین دنیا پر حاوی ہے۔ صاف نقل و حمل کی بین الاقوامی کونسل کے مطابق 2021 تک ، دنیا میں استعمال ہونے والی 90 فیصد سے زیادہ برقی بسیں اور ٹرک چین میں تھے۔چین میں ایسے شہر بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنی ڈیزل بسوں کو مکمل طور پر برقی بسوں سے تبدیل کیا ہے ،چین نے قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری میں امریکہ اور یورپ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور ہوا اور شمسی توانائی کی پیداوار میں ان ممالک سے آگے نکل چکا ہے۔چین شمسی پینلز کا ایک اہم پروڈیوسر ہے، ونڈ ٹربائن ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ایک اہم شراکت دار ہے۔چین نے اپنی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو 2025 تک فوسل ایندھن توانائی کے ذرائع سے زیادہ کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا جو مقررہ وقت سے دو سال پہلے ہی حاصل کر لیا گیا ہے ۔ اس وقت قابل تجدید توانائی کے ذرائع ملک کی بجلی کی صلاحیت کا نصف سے زیادہ حصہ رکھتے ہیں۔

یہ بات قابل زکر ہے کہ چین گرین ترقی کے سفر میں تنہا محو پرواز نہیں ہے بلکہ دیگر ممالک کو بھی ساتھ لے کر چل رہا ہے۔اس ضمن میں چینی کمپنیاں دنیا بھر میں 130 سے زائد ممالک اور خطوں میں اپنے قدم جمانے کے ساتھ نئے انفراسٹرکچر کی ماحول دوست ترقی کو فروغ دے رہی ہیں ۔ چینی اداروں نے کئی ممالک کو پانی کی بچت اور پن بجلی کے منصوبوں کو ترقی دینے میں مدد کی ہے، جن کی مجموعی مالیت اربوں امریکی ڈالر میں ہے۔اسی طرح بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت بھی شراکت دار ممالک میں آبی تحفظ اور پن بجلی کے منصوبوں کو ڈیزائن اور تعمیر کیا جا رہا ہے ۔ یوں ، جدت طرازی کو پائیدار ترقی کے لئے ایک محرک قوت کے طور پر لیا جا رہا ہے اور جدید ٹیکنالوجی اور فائدہ مند پیداواری صلاحیت برآمد کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ پیداوار اور مینوفیکچرنگ سے لے کر مربوط پیداوار، تحقیق اور ترقی اور خدمات تک، اعلیٰ معیار کے منصوبوں کے ڈیزائن اور تعمیر سے شراکت دار ممالک کو ماحول دوست اور معیاری خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔
.
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت گرین سلک روڈ کا تصور ترقی پذیر ممالک کی سبز اور کم کاربن ترقی کو فروغ دینے اور ایک صاف اور خوبصورت دنیا کی تعمیر کے لئے ایک اہم اقدام ہے۔مشترکہ مشاورت، مشترکہ شراکت اور مشترکہ فوائد کے اصول کے تحت بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شامل ممالک میں تعاون کی مختلف شکلوں کو فروغ دیتے ہوئے گرین سلک روڈ کی تعمیر کو تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے ۔ان منصوبوں نے نہ صرف گھروں تک بجلی پہنچائی ہے بلکہ متعلقہ ممالک کو ماحول دوست ترقی کے مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔ چینی کمپنیوں نے بہت سے شمسی پاور اسٹیشن ، ہائیڈرو پاور اسٹیشن، صاف توانائی کے نئے ذرائع، ہوا سے بجلی وغیرہ کے ذرائع تعمیر کیے ہیں، جو مقامی لوگوں کے ذریعہ معاش کے لئے بھی اچھا تحفظ فراہم کرتے ہیں. علاوہ ازیں،لاکھوں مقامی لوگوں کو بڑی تعداد میں تربیت اور روزگار کے مواقع بھی میسر آئے ہیں جو ترقی و خوشحالی کی کلید ہے۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1159 Articles with 458600 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More