” چمکیل“ وادئی کالام اور کوہستان بلٹ کی منفرد ڈش

خوراک ہر جاندار کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے جس کی لئے وہ دن رات کوشاں رہتا ہے ، حضرت انسان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ لذت دہن پید ا کرنے کیلئے ہر گزرتے دن کے ساتھ خوراک میں جدت پیدا کرنے اور ذائقوں کی تلاش میں رہتا ہے ، آج ہم اپنے قارئین کو سوات کی حسین وادی کالام،بحرین اورملحقہ علاقوں سمیت سوات کو ہستان بلٹ، انڈس کوہستان میں بشام سے لے کر چلاس تک اور دیر کوہستان میں شرینگل سے کمراٹ اور دیگر ملحقہ علاقوں میں خاص مواقع پر تیا رکی جانے والی منفرد ڈش” چمکیل “ کے بارے میں بتائیں گے کہ یہ لذیذ کھانا کس طرح اورکن مواقع پر تیار کیا جاتا ہے اور اسے کھانے والوں کے کیا تاثرات ہیں۔

سوات دنیا بھر میں نہ صرف اپنے خوبصورت سیاحتی علاقوں کی وجہ سے مشہور ہے بلکہ ان حسین وادیوں کے باسیوں کا بودو باش اور منفرد قسم کے لذید کھانے بھی دنیا بھر میں بہت مشہور ہیں اور جنہوں نے ایک بار سوات کے مقامی لوگوں کے ہاتھوں تیار کردہ ایسے منفرد ڈش کو کھایا پھر وہ زندگی بھر اسے بھولتا نہیں، بھولنا تو ایک طرف پہلی بار اسے کھانے والا پھر بار با ر اس کا تقاضا بھی کرتاہے جو پھر قسمت سے کبھی کبھار دوبارہ ملتا ہے۔ لذیذ ڈش چمکیل کے بارے میں تفصیلات بیان کرنے میں ہم مزید دیر نہیں لگائیں گے۔

چمکیل کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ زمانہ قدیم سے متذکرہ علاقوں کی خاص روایتی ڈش ہے جسے خاص طورپر غمی ، خوشی، شادی، بیاہ اور صدقہ و خیرات کے مواقع پر تیار کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے یعنی یہ کھانا کسی کے فوت ہونے یا شادی بیاہ کے مواقع پر خصوصی طورپر تیا رکیا جاتا ہے ، وقت گزرنے کے ساتھ اب شادی بیاہ کے مواقع پر اس ڈش کو بہت کم تیارکرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی جگہ چاول کی مختلف ڈشز نے لے لی ہے تاہم کسی کے فوت ہونے پر اب بھی مہمانوں کیلئے اس کھانے کی تیاری کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔اس ڈش کی تیاری کیلئے مقامی لوگ خالص دیسی گھی جو عموماً گائے کے دودھ سے تیار کیا گیا ہوتا ہے جمع کرتے ہیں اور جب بھی جہاں سے یہ خالص دیسی گھی ملے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے جمع کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اس منفرد ڈش میں مکئی کے آٹا سے تیار کردہ روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ڈالے جاتے ہیں ساتھ میں ایک پورے جانور گائے بھینس کا گوشت بھی پکایا جاتا ہے جسے مہمانوں کو خاص طریقہ سے تیار کرنے کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔
چمکیل کی تیار ی کے حوالے سے کالام کی وادی مٹلتان کے رہائشی قاری بلال نے راقم کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کالام کوہستان اور دیر کوہستان سمیت انڈس کوہستان کے بعض علاقوں میں شادی بیاہ اور صدقہ و خیرات کے مواقع پر تیار کی جانے والی اس ڈش کو ہم کالامی زبان میں” چمکیل‘ ‘کہتے ہیں۔ یہ ڈش مختلف علاقوں میں معمولی تبدیلیوں کے ساتھ مختلف ناموں سے پہچانی جاتی ہے مگر کوہستانی علاقوں میں اس کی تیاری کے اجزا اور طریقہ کار یکساں ہیں۔ہمارے ہاں کالام،بحرین اور ملحقہ علاقوں میں خاص مواقع پر اس ڈش کی تیاری کافی دن پہلے سے شروع کی جاتی ہے لیکن باقاعدہ تیاری تقریب سے ایک دن پہلے شروع ہوتی ہے۔

یہاں پر ہم شادی کی تقریب کے حوالے سے بات کریں گے۔کسی نوجوان کی شادی کی تاریخ مقرر ہونے پر اس کے خاندان والے سب سے پہلے ایک بھینس یا گائے خریدتی ہے پرانے وقتوں میں ایک ہی بھینس یا گائے سے کام چل جاتا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ علاقے کی آبادی میں اضافہ اور لوگوں کی دل چسپی بڑھنے کی وجہ سے اب ایک جانور کم پڑتا ہے جس کی وجہ سے اہل خانہ کو اپنی استطاعت کے مطابق کم ازکم دو جانور ذبح کرنا پڑتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی مکئی کا آٹا اور خالص دیسی گھی اگر کسی نے پہلے سے نہ رکھا ہو تو اس کی خریداری بھی کی جاتی ہے۔ علاقے کی روایات کے مطابق شادی سے دو دن پہلے نوجوان لڑکوں کی ٹولیاں بناکر پورے گاؤں سمیت اطراف کے علاقوں میں بھیجے جاتے ہیں جو لوگوں کواس شادی میں شرکت کیلئے پیغام دیتے ہیں ، نوجوانوں کی یہ ٹولیاں ہر گھر کے دروازے پر جاکر اطلاع دیتے ہیں کہ پرسوں فلاں کے بیٹے فلاں کی شادی ہو رہی ہے جس میں آپ سب لوگوں نے حاضری دینی ہے ۔

شادی سے ایک دن قبل دور دراز کے علاقوں سے عزیز و اقارب تحفے تحائف لے کر شادی والے گھر پہنچ جاتے ہیں ، رات کے وقت پورے گاؤں کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت لکڑیو ں کے گھٹے پیٹ پر لاد کر لاتے ہیں تاکہ دیگیں پکانے کیلئے بڑی مقدار میں آگ جلانے کے واسطے کام آسکیں اور اتنی لکڑیاں لائی جاتی ہیں کہ کم نہ پڑ جائیں یہ بات ذہن میں رہے کہ گؤں کے ہر گھر سے لکڑیاں لانے کیلئے ایک بندے کی ذمہ داری لگائی جاتی ہے۔اسی طرح شادی سے ایک دن قبل استطاعت کے مطابق بھینس گائے ذبح کی جاتی ہے اور یہ ساری کارروائی رشتہ دار اور پڑوسی رضاکارانہ طور پر کرتے ہیں، شادی کے گھر والے اس وقت صرف ہدایات دیتے رہتے ہیں کہ کام کس طرح کرنا ہے۔جانور ذبح کرنے اور گوشت کاٹنے کے بعد کٹے ہوئے گوشت کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ شادی سے ایک دن پہلے عصر تک تیار کرلیا جاتا ہے،تیاری کے حوالے سے گاؤں کے لوگ مشاورت کیلئے نماز عصر کے فوری بعد پہنچ جاتے ہیں اس دوران شادی کے گھر میں ایک اور کام بھی ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے یعنی مکئی کے آٹا کے 5 کلو والے تھیلے تیار کئے جاتے ہیں جسے ایک کھلے میدان میں صاف جگہ یا چارپائیوں پر رکھا جاتا ہے، رات کے وقت مشاورت کیلئے آنے والے گاﺅں کے لوگوں کو سادہ سا کھانا دے کر رخصت کیا جاتا ہے لیکن گاﺅں کا ہر ایک بندہ واپس جاتے ہوئے مکئی کے آٹا کے پانچ کلو کا ایک ایک تھیلہ اپنے ساتھ لے جاتا ہے جس سے وہ رضاکارانہ طورپر اپنے گھر میں مکئی کی روٹیاں خاص طریقہ سے تیار کرکے پھر اگلے دن شادی والے گھر میں پہنچاتے ہیں جسے بعد ازاں خصوصی ڈش”چمکیل“ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

شادی والی رات شادی میں شرکت کیلئے آنے والے مقامی اور دور دراز کے مہمانوں کی دعوت وطعام کیلئے دیگیں چڑھنا شروع ہوجاتی ہیں، دیگ میں پانی، نمک اور گوشت ڈال کر نیچے آگ جلائی جاتی ہے اور پھر رات بھر بزرگ اور نوجوانوں کی ٹولیاں ان دیگوں کے ارد گرد چارپائیوں، پتھروں اور کرسیوں پر بیٹھ کر جگتیں اور گپ شپ مارتے ہیں۔دیگ تیار کرنے والے نانبائی لوگ جو مقامی ہی ہوتے ہیں ان دیگوں میں پکنے والے گوشت کومسلسل چیک کرتے رہتے ہیں کہ کہیں حد سے زیادہ گھل نہ جائے، جب دیگ میں گوشت پک جاتا ہے تو پھر آگ بجھا کر گوشت کو گرم رکھنے کیلئے صرف کوئلہ رہنے دیا جاتا ہے تاکہ دیگ ٹھنڈے نہ ہوں۔صبح ہوتے ہی گاؤں والے مکئی کی جو روٹیاں گھر میں بنا چکے ہوتے ہیں وہ صاف ستھرے کپڑوں میں لپیٹ کر شادی والے گھر کا رخ کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بارات کی تیاری بھی جاری رہتی ہے اور دن 11 سے 12 بجے کے درمیان بارات گھر پہنچ جاتی ہے جس کے بعد مہمانوں کیلئے کھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ولیمہ کا کھانا کھانے کیلئے کسی کھلے میدان میں دو متوازی لکڑیاں رکھ کر مخصوص ’پینڈہ‘ بنایا جاتا ہے یا پھر کسی بڑے ہال میں لمبا دسترخوان بچھایا جاتا ہے۔اس کے بعد مٹی کے مخصوص برتنوں میں گوشت پکانے کے دوران نکالا گیا سفید شوربہ ڈال کر مکئی کی روٹی کے ساتھ مہمانوں کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ لوگ مکئی کی روٹی اس میں اچھی طرح توڑ کر چھورا کرلیتے ہیں۔ پھر میزبانی کرنے والا ایک بندہ مٹی کے ایک اور مخصوص برتن میں خالص دیسی گھی لے کر آتا ہے اور ہر برتن میں حسب ضرورت فراخ دلی کے ساتھ مہمانوں کے سامنے ڈالتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور بندہ تیلیوں سے بنی ایک مخصوص ٹوکرے میں گوشت لے کر آتا ہے اور ایک بزرگ مہمانوں میں رات کے وقت تیارکردہ گوشت کو مناسب مقدار میں تقسیم کرتا ہے جسے دعوت اُڑانے والے ہر نوالے کے ساتھ لذیذ گوشت کی اچھی خاصی مقدار مزے مزے لے لے کر کھاتے ہیں جبکہ بعض لوگ اپنے حصے کا گوشت روٹی کے ٹکڑوں میں لپیٹ کر گھر بھی لے جاتے ہیں تاکہ گھر کے جو لوگ کسی وجہ سے شادی میں شریک نہیں ہوسکے ہیں وہ بھی اس لذیذ ڈش” چمکیل“ میں تیار ہونے والے لذیذ کھانے کا مزہ لے سکیں، اس پوری تقریب میں صرف اشیا ءکی خریداری پر پیسہ خرچ ہوتا ہے جبکہ اس کے علاوہ باقی کی تمام خدمات گاؤں کے لوگ رضاکارانہ طورپر سرانجام دیتے ہیں،تقریب کے اختتام پر گاﺅں کے لوگ اس وقت تک اپنے گھروں کو نہیں جاتے جب تک کھانا پکانے اور کھانے کے دوران گندے ہونے والے برتن دھو کر صاف نہیں کرلیتے،یہ اس علاقے کے لوگوں کی روایات ہی ہیں کہ شادی والے گھر کے مہمانوں کوکھانا پیش کرنا اور کھانے کے بعد مہمانوں کے سامنے سے آخر میں برتن اٹھانا گاؤں کا ہر فرد اپنا فرض سمجھتا ہے اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔
بات وہیں پر آکر ختم ہوجاتی ہے کہ سوات جتنا خوبصورت ہے اتنا ہی یہاں کا کلچر اور علاقائی روایات بھی دنیا بھر کی دیگر اقوام کے مقابلے میں منفرد ہیں یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا سے لاکھوں کی تعداد میں ہر سال سیاح سوات کا رُخ کرتے ہیں اور جو ایک بار یہاں آکرسوات کے خوبصورت نظاروں اور لوگوں کی مہمان نوازی کا لطف اُٹھاتا ہے وہ یا تو یہیں کا ہوکر رہ جاتا ہے اور یا باربار سوات آکر اپنی تشنگی بجھاتا ہے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 62 Articles with 49518 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.