کرغزستان میں پھنسے سوات سمیت پاکستانی طلبہ اور ورکرز مدد کے منتظر

بہتر مستقبل اور ڈاکٹر بننے کا خواب لئے دیار غیر کرغزستان میں پاکستانی طلبہ پر قیامت ٹوٹ پڑی، بے یارومددگار طلبہ وطالبات اور مختلف شعبہ جات میں کام کرنے والے پاکستانی ورکر بھی حکومتی ذمہ داروں اور کرغز ستان میں متعین سفیر کی سرد مہری کا رونا روتے ہوئے فوری طورپر حفاظتی اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں، 12 ہزار سے زائد پاکستانیوں میں خیبر پختونخوا کے ہزاروں اور سوات کے سینکڑوں طلبہ وطالبات بھی اس وقت مشکل حالات میں گھرے ہوئے ہیں اور کرغزستان کے شہر بشکیک سے بحفاظت نکلنے کیلئے غیر محفوظ ماحول میں امداد کے منتظر ہیں۔

کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں رہائش پذیر طالب علموں کے ساتھ راقم کے رابطہ کرنے پر متاثرہ طلبہ نے بتایا کہ گزشتہ جمعہ کی شب ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے لیس مقامی باشندوں نے پاکستانیوں سمیت دیگر غیر ملکی طلبہ کے ہاسٹلوں اور پرائیویٹ رہائش گاہوں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ساتھ متعدد غیر ملکیوں سمیت درجنوں پاکستانی طلبہ و طالبات کو زخمی کردیا۔ اس دوران پاکستانی اور انڈین حکام نے اپنے ملکوں کے طلبہ کو اپنی رہائش گاہوں اور ہاسٹلوں تک محدود رہنے کی ہدایت کردی،اگرچہ کرغزستان کے حکام کے مطابق صورتحال اب قابو میں ہے لیکن پاکستانی طلبہ اب بھی سخت تشویش میں مبتلا ہیں اور وفاق سمیت اپنے اپنے صوبوں کے ذمہ داروں سے وطن واپسی کیلئے اقدامات کا مطالبہ کررہے ہیں۔

جمعہ کو بشکیک میں شروع ہونے والے ہنگاموں کی خبریں میڈیا پر گردش کرنے کے بعد گزشتہ منگل کی صبح سوات میں والدین کی ایک بہت بڑی تعداد نے مینگورہ شہر کے نشاط چوک میں جمع ہوکر مظاہرہ کرتے ہوئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ ہمارے بچے جس میں بڑی تعداد بچیوں کی ہے اس وقت کرغزستان میں بلوائیوں کے رحم وکرم پر ہیں، مقامی مظاہرین ہمارے بچوں کو ہاسٹلوں اور ان کی پرائیویٹ رہائش گاہوں میں داخل ہوکر تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ انتہائی خوف کے عالم میں ہیں ۔

مظاہرے میں شامل سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے ترجمان اور سوات کے معروف سماجی ورکرز ڈاکٹر خالد محمود نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی بیٹی اور بھتیجی جو بھائی ڈاکٹر طارق کی بیٹی ہے کرغزستان میں اس وقت موجود ہے ، دیگر افراد نے بھی اپنی بچیوں کے حوالے سے فکر مندی ظاہر کرتے ہوئے بتایا کہ مرد طالب علم تو پھر بھی اپنی حفاظت کیلئے کچھ نہ کچھ کرسکیں گے لیکن خواتین طالبات کو دیار غیر میں جن مشکلات کا اس وقت سامنا ہے اس کے بارے میں ہم بہت زیادہ فکر مند ہیں جس پر انہوں نے حکومت سے اپنے بچوں اور بچیوں کو بحفاظت نکالنے اور ملک پہنچانے کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ۔ اس وقت پورے پاکستان سے اُٹھنے والی آوازوں میں بشکیک کے میڈیکل یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ وطالبات کی بات کی جارہی ہے لیکن راقم نے بشکیک میں موجود طالب علموں تک رسائی حاصل کرکے ان کے ایک واٹس گروپ میں شامل ہوکر پوری صورت حال کا بغور جائزہ لیا تو ایک اور دردناک کہانی سامنے آئی کہ اس وقت ان طالب علموں کے علاوہ بشکیک میں ہزاروں کی تعداد میں مختلف شعبوں میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کش بھی موجود ہیں جو اس مشکل صورت حال کا سامنا کررہے ہیں لیکن جو سب سے اذیت ناک صورت حال ہے وہ یہ ہے کہ ان ورکرز کے ساتھ ویزوں کا بہت بڑا ایشو ہے اور قیاس کیا جارہا ہے کہ بہت بڑی تعداد وہاں اب ویزوں کی میعاد ختم ہونے کے بعد کرغزستا ن میں غیر قانونی طورپر مقیم ہیں جس کی وجہ سے وہ نہ تو کرغز حکومت کے ذمہ داروں کے سامنے آسکتے ہیں اور نہ حکومت پاکستان کے ذمہ داروں کی ان تک رسائی ممکن ہے ۔

واٹس گروپ میں ایک ایسے ہی ورکر نے رو رو کر دہائی دی کہ ہر کوئی طالب علموں کی بات کررہا ہے لیکن ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں ، متاثرہ طلبہ وطالبات اور پاکستانی ورکرز نے بتایا کہ بلوائی ٹولیوں کی شکل میں نکل کر پاکستانی ، انڈین اور بنگلہ دیشی طالب علموں اور محنت کشوں کو چن چن کر تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں ، ایک وڈیوں میں ایک بچی چیخ چیخ کر بتارہی ہے کہ مظاہرہ کرنے والے ہمارے ہاسٹل کے سامنے جمع ہوگئے ہیں لہذا خدا کیلئے ہماری مدد کی جائے۔راقم کو موصول ہونے والی ایک وڈیو میں کرغز بلوائی ایک پاکستانی بچی کو اُٹھا کر لے جارہے ہیں اور وہ بچی بے چارگی کے عالم میں چیخ چیخ کر مدد کیلئے پکار رہی ہے ،ایسے ہی ایک اور وڈیو میں مظاہرین ایک ہاسٹل میں داخل ہوکر وہاں موجود طالب علموں کو نہایت بے دردی کے ساتھ لاتوں اور مکھوں سے تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں۔

سوات کے رہائشیوں ڈاکٹر خالد محمود، محمد غفار ،عبداللہ اور بشکیک میں رہائش پذیر محمد ایاز، اویس اور فواد خان نے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ ہمیں حکومت پاکستان کی ناقص پالیسیوں، میڈیکل کالجوں کے مہنگے فیسوں اور میڈیکل کالجوں میں ہائی میرٹ کی وجہ سے اپنے بچوں کو اتنی دور غیرممالک میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے آ ج پیداشدہ صورتحال میں ہمیں دُہری پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہاہے اگر حکومت میڈیکل کالجوں کی تعداد میں اضافہ کرکے باصلاحیت طالب علموں کو ملک کی یونیورسٹیوں میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر مواقع فراہم کردے تو نہ والدین کو پریشانی ہوگی اور نہ پاکستانی طالب علموں کو بیرون ممالک میں ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔متاثر ہ والدین نے یہ سوال بار بار اُٹھایا کہ پاکستانی طلبہ کی ایک کثیر تعداد وسطی ایشیا کے دیگر ممالک سمیت 69 لاکھ کی آبادی والے ملک کرغزستان کو میڈیکل کی تعلیم کے لئے کیوں چن رہی ہے؟ اس سوال کا جواب پاکستان میں میڈیکل کی تعلیم کے نظام سے جڑا ہے جس کی نشان دہی ان والدین نے کی کہ یہاں کے میڈیکل کالجوں کا ہائی میرٹ اور بھاری بھرکم فیسیں ان کی مشکلا ت کی اصل وجہ ہے۔

کرغزستان میں اس وقت اس مشکل صورتحال کا سامنا کرنے والے طالب علموں ایاز، اویس ، فواد ، سارا رحمان نے راقم کو بتایا کہ اس وقت ہمیں اپنی جان کی پڑی ہوئی ہے جبکہ پاکستانی حکام اس مشکل میں بھی ہمارے ساتھ کھیل کھیل رہی ہے وزیر سفیران امیر مقام کے بارے میں میڈیا پر بتایا گیا کہ وہ بشکیک پہنچ گئے ہیں اور اتوار کو پہلی پرواز میں سیکڑوں طالب علموں کو لے کر پاکستان پہنچ رہے ہیں جبکہ موصوف پاکستان میں بیٹھ کر صرف بیان بازی تک محدود رہے ،ہاں اس مشکل صورت حال میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کارکردگی دکھاتے ہوئے 20 مئی اور منگل کو دو پروازوں کے ذریعے سینکڑوں طلبہ کو وطن پہنچاکر متاثرہ خاندانوں کی دعائیں لیں ساتھ ساتھ حکومتی ترجمان مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے بتایا کہ خصوصی طیاروں کے ذریعے وہاں محصور طالب علموں کو 300/300 کی تعداد میں لے کر وطن واپس لارہے ہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہم اس وقت صرف خیبر پختونخوا کے نہیں بلکہ پورے ملک کے جتنے بھی طلبہ بشکیک میں موجود ہیں ان کو نکالنے کیلئے کوشش کررہے ہیں اور اس کیلئے پی ڈی ایم اے کو ذمہ داری سونپ دی گئی ہے اور یہ تمام اپریشن ان کی نگرانی میں ہورہا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ متاثرہ طلبہ تک پہنچنے کیلئے صوبائی حکومت کی ہدایت پر دو واٹس ایپ گروپ بھی بنائے گئے ہیں جن کے نمبر یہ ہیں 03433333049/03440955550 متاثرہ طلبہ کو ان گروپ میں اپنی پوزیشن کی نشاندہی اور واپسی کیلئے ہدایت اور رجسٹریشن کیلئے کہا جارہا ہے تاکہ ان کو کرغزستان بشکیک سے بحفاظت نکالا جاسکے ۔

صورتحال کی تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کرغزستان میں متعین پاکستانی سفیر اور دیگر عملہ سمیت پاکستانی اعلیٰ حکام کرغز حکومت سے اس معاملے میں کردار ادا کرنے پر زور دے اور پاکستانی طالب علموں سمیت وہاں موجود پاکستانی ورکرز کے تحفظ کو یقینی بنائے جو اس وقت پس منظر میں چلے گئے ہیں ، ان ورکرز کو جو وطن واپس آنا چاہتے ہیں ویزے جاری کئے جائیں اور جو وہاں رہنا چاہتے ہیں ان کو پاکستانی سفارت خانہ کے ذریعے قانونی تحفظ کیلئے مدد فراہم کی جائے۔
 

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 55 Articles with 33525 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.