چین نے اسمارٹ شہروں کی ترقی کو فروغ دینے اور شہری
انتظامیہ کو اسمارٹ بنانے کے لئے شہری ڈیجیٹل تبدیلی کے بارے میں ایک رہنما
اصول جاری کیا ہے۔نیشنل ڈیٹا بیورو اور کئی دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے
جاری کردہ دستاویز کے مطابق 2027 تک چین کو توقع ہے کہ شہری علاقوں میں
ڈیجیٹل تبدیلی میں نمایاں پیش رفت دیکھنے کو ملے گی اور قابل رہائش، لچکدار
اور اسمارٹ شہروں کی تعمیر کی جا سکے گی۔گائیڈ لائن کا مقصد شہری ترقی کے
ذریعے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز اور معیشت، گورننس اور زندگی کے درمیان انضمام کو
گہرا کرنا، شہروں کے پورے ترقیاتی سائیکل میں ڈیٹا کو یکجا کرنا اور تکنیکی
پیش رفت اور ادارہ جاتی جدت طرازی کو مربوط کرنا ہے۔
منصوبے کے تحت شہری علاقوں میں اعلیٰ معیار کی ترقی، اعلیٰ کارکردگی کی
حکمرانی اور اعلیٰ معیار کی زندگی کو آسان بنانے کے لئے، ڈیٹا کے انضمام
اور ترقی کو پورے شہری ڈیجیٹل تبدیلی کے عمل میں شامل کیا جائے گا۔چینی
حکام کے مطابق ڈیجیٹل تبدیلی میں شہری ترقی کے تمام پہلو جیسے شہری منصوبہ
بندی، تعمیر، انتظام، سروس اور آپریشن وغیرہ شامل ہوں گے۔اس طرح کی تبدیلی
کو فروغ دینے کی خاطر ، شہری ڈیجیٹلائزیشن کے لئے ایک پلیٹ فارم قائم کرنے
، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے اور ڈیجیٹل شہری انتظام کے تقاضوں کے
مطابق ادارہ جاتی جدت طرازی کی کوششیں کی جائیں گی۔
اس وقت ویسے بھی چینی شہر ڈیجیٹل مہارت کے ساتھ اسمارٹ ترقی کے لئے کوشاں
ہیں جو روزمرہ زندگی، شہری انتظام اور دیگر شعبوں کی ترقی کو فروغ دے رہی
ہے۔آج چین کے بڑے شہروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عمدہ اطلاق کی بدولت
سڑکیں "اسمارٹ" ہو رہی ہیں۔ڈرائیونگ کے دوران سڑک کی حقیقی صورتحال سے
متعلق بر وقت معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں ، شدید ٹریفک کے ہجوم سے بچنے کے
لئے بہترین راستے کا انتخاب بھی ممکن ہے۔گاڑیاں، سڑکیں اور لوگ مزید مربوط
ہو رہے ہیں جو ڈرائیوروں کے لیے زیادہ محفوظ ہے۔دوران سفر ملی سیکنڈ کی سطح
پر معلومات کو اپ ڈیٹ کیا جاسکتا ہے۔شہروں میں نصب سینسرز، ملی میٹر ویو
ریڈار اور لیزر ریڈار کے آلات معلومات جمع کرنے کے بعد مرکزی کنٹرول روم کو
واپس بھیجتے ہیں ،جہاں ان کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور پھر سڑک پر گاڑیوں کو
بھیجا جاتا ہے۔ شہر وں میں ایک جامع انفارمیشن ماڈل قائم کرتے ہوئے زیر
زمین ٹریفک کے لئے اسمارٹ ٹیکنالوجی کو بھی اپنایا گیا ہے۔ہزاروں سینسرز کی
مدد سے ہوا کے معیار، درجہ حرارت، اہلکاروں کی پوزیشن کی نگرانی ممکن ہے
اور آگ کے خطرے کا بروقت پتہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ تو محض ایک مثال ہے کہ
چینی شہروں میں اسمارٹ ٹریفک نظام کیسے فعال طور پر کام کرر ہا ہے ،اس کے
علاوہ بھی آپ کو جا بجا جدید ٹیکنالوجی کے کمالات دیکھنے کو ملیں گے۔
چین کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ سائنسی اور تکنیکی انقلاب کا ہر دور
نئے انفراسٹرکچر کو متعارف کرائے گا جبکہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کا ہر دور
معاشی تبدیلی میں بہتری لائے گا۔یہی وجہ ہے کہ چین نے حالیہ برسوں کے دوران
نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جس سے گزشتہ
ایک دہائی کے دوران ملک کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں زبردست مدد ملی
ہے۔چین نے انفارمیشن انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر
کے انضمام اور اختراع کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے اقدامات کو بھی تیز کیا
ہے۔انہی ٹیکنالوجی دوست پالیسیوں کے ثمرات ہیں کہ گزشتہ دہائی کے دوران چین
کے آپٹیکل فائبر نیٹ ورک کی طوالت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور ڈیٹا سینٹر
کی تعداد بھی لاکھوں تک پہنچ گئی ہے۔سمارٹ ڈیوائسز کو مختلف صنعتوں اور
کاروباروں میں ضم کیا جا رہا ہے جیسے کہ ٹرانسپورٹ، توانائی کی فراہمی، اور
صنعتی پیداوار کے ساتھ ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود سے متعلق سہولیات جیسے
ای کامرس، ٹیلی میڈیسن اور آن لائن تعلیم کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔جدت کے
لحاظ سے، چین کے قومی سائنس و ٹیکنالوجی کے بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں میں سے
زیادہ تر فعال ہو چکے ہیں، جبکہ ملک بھر میں انجینئرنگ ریسرچ، انٹرپرائز
ٹیکنالوجی، اور صنعتی اختراع کے مراکز مسلسل قائم کیے جا رہے ہیں جو چینی
عوام کے لیے وسیع ثمرات کا موجب ہیں۔
|