میں سرکار کا ملازم تھا

مجھے لگاتا پڑھاتے پچاسواں سال ختم ہونے والا ہے۔ساری عمر سرکار کی نوکری کی ہے مگر کچھ عجیب انداز میں کہ جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے۔آج سوچا کہ ماضی کی یادوں کو قلم بند کروں۔بڑے دلچسپ واقعات گزرے ۔ کبھی کبھی اپنی حماقتوں پر ہنسی آتی ہے۔ شاید نوکری میرا مزاج نہیں تھا مگر یہ جبر بھی خود پر کرلیا اور پچاس سال گزار لئے۔قائد اعظم یونیورسٹی میں میرا M.Sc کا دورانیہ 1971-73 تھا۔ کچھ دن 1974 کے بھی اسی یونیورسٹی کی نظر ہو گئے۔دوست احباب کو میرا یونیورسٹی چھوڑنا گوارا نہیں تھا۔ چھٹیاں ہوئیں تو گھر کا چکر لگانے کے بہانے وہاں سے نکلا اور پھر لوٹ کر نہیں گیا۔ عالم اس وقت ہوسٹل کا کلرک تھا۔ اسے فون کیا کہ میرے کمرے کا سامان کسی ضرورت مند کو دے دے۔ اور یوں میرا کمرہ خالی ہو گیا۔ دوستوں کے بہت سے فون آئے ، ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ میں انہیں کیا سمجھاتا کہ میرے جیسے لوئر مڈل کلاس کے والدین کو امید ہوتی ہے کہ بیٹا پڑھ گیا ہے تو گھر کے معاملات میں بہتر ہے کہ ہاتھ بٹائے یا کم سے کم ان کی جان چھوڑ دے، ان سے مزید اخراجات نہ مانگے۔ اپنے معاملے میں خود کفیل ہو جائے۔کسی بچے کا خود کفیل ہونا، اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جانا یہی والدین کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔ دوست احباب کی خواہش اپنی جگہ مگر میری مجبوریاں اور گھر کے دباؤ نے مجھے پھریونیورسٹی واپس نہیں جانے دیا۔

اب میں نوکری کی تلاش میں تھا۔ مجھے شروع سے پڑھانا پسند تھا۔ اس میں آپ کے پاس بڑا وقت ہوتا ہے۔ میں پھرتے پھراتے گورنمنٹ کالج پہنچ گیا۔ میرے محترم استاد ڈاکٹر منور مرحوم ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے۔کہنے لگے ، کیا کر رہے ہو۔میں نے بتایا کہ فارغ ہوں اور نوکری کی تلاش ہے۔ ہنس کر کہنے لگے ، یہ کون سی بات ہے۔ میں نے اسی ہفتے دو بندے یہاں رکھے ہیں۔ صبح آجاؤ۔ میں فارم منگوا لیتا ہوں۔ فارم بھر دینا، میں اسی وقت پرنسپل سے دستخط کروا دوں گا۔ جا کر دفتر سے حکم لے آنا۔ میں اٹھ کر ریاضی کے دوسرے دوستوں کے پاس آیا اور انہیں یہ خوش خبری سنائی تو وہ ہنس کرکہنے لگے کہ وہ تمہارے استاد ہیں، تمہیں اور تمہاری عادات کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ہم فقط تمہاری شہرت سے واقف ہیں ہم تمہیں ملازمت دیتے دس دفعہ سوچیں گے۔ ڈاکٹر صاحب تو بڑے محتاط آدمی ہیں،وہ تمہیں کیسے برداشت کریں گے۔ ابھی کلاسوں کو شروع ہونے میں ایک ڈیڑھ مہینہ ہے۔ وہ دو بندے جو انہوں نے بھرتی کئے ہیں، وہ صبح ایک گھنٹہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے کھڑے رہتے ہیں، کرسی پر بھی بیٹھ نہیں سکتے۔پھر ڈاکٹر صاحب جیب سے کچھ پیسے نکال کر ایک کو دیتے ہیں کہ جاؤ میرے گھر میری بیگم سے پوچھوں آج پکانے کے لئے کیا منگوانا ہے ۔ وہ ساری چیزیں لا کر اسے دو۔ پوچھ لینا کوئی اور کام ہو تو وہ بھی کر دینا، پھر تم فارغ ہو۔ پھر دوسرے کو کہتے ہیں کہ جاؤ بچے اٹھ گئے ہوں گے۔ زیادہ نہیں صرف دو گھنٹے انہیں پڑھا کر چلے جانا۔تم یہ دونوں کام نہیں کر سکتے۔ شاید ڈاکٹر صاحب بھی تمہیں ایسی بات کہہ نہ پائیں۔ پھرہم لوگ تو چھٹیوں میں ہفتے کے دو تین دن کالج آ جاتے ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ تم چھٹیوں میں نظر بھی نہ آؤ گے۔میں نے جواب دیا کہ بات تو ٹھیک ہے مگر استاد محترم نے خود پیش کش کی تھی ۔ اس لئے آزمانے میں کوئی حرج نہیں۔

اگلی صبح میں نو بجے کے لگ بھگ ڈاکٹر صاحب کے دفتر میں موجود تھا۔آج ڈاکٹر صاحب مجھ سے کچھ نظریں چرا رہے تھے۔پندرہ منٹ انہوں نے میری طرف دیکھا ہی نہیں۔ میں نے پھر ذرہ زوردار انداز میں ڈاکٹر صاحب سے فارم کا پوچھا، کہنے لگے فارم، ہاں میں نے پرنسپل سے بات کی تھی۔ وہ کہتا ہے چھٹیاں ہیں۔ چھٹیوں کے بعد رابطہ کرنا، پھر دیکھیں گے۔میں نے ہنس کر کہا، ڈاکٹر صاحب میں نے آپ سے نوکری مانگی نہیں تھی، آپ نے مجھے پیشکش کی تھی۔ اب آپ چھٹیوں کے بعد دیکھیں گے مگر میں اتنا لمبا انتظار نہیں کر سکتا۔ڈاکٹر صاحب بولے ، تم ایسے ہی ناراض ہو جاتے ہو ، میری مجبوری سمجھو۔میں نے ہنس کر کہا کہ مجبوری ہی نہیں، میں دلوں کے حال بھی جانتا ہوں ۔یہ کہہ کر میں وہاں سے چلا آیا۔ان دنوں لیکچرار کی تنخواہ پانچ سو روپے تھی ۔ جب کہ بے روزگار نوجوانوں کو NDVP پروگرام کے تحت شاید 390 روپے ملتے تھے جو 1974 میں بے روزگاری کے دور میں بڑی معقول رقم تھی۔میں واپس گھر آیا۔ موٹر سائیکل کھڑی کی اور گھر سے چند قدم دور سامنے والد صاحب کا دفتر کا کمرہ تھا، وہاں پہنچا اورانہیں بتایا کہ چھٹیوں کی وجہ سے NDVP والے سفارش پر نوکری دیتے ہیں ان سے کہہ کر مجھے گورنمنٹ کالج کے لئے تقرری نامہ لے دیں۔

والد محترم نے اپنے پرائیویٹ سیکرٹری کو ڈائریکٹر جنرل NDVP سے بات کرانے کا کہا۔ بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ میرا بیٹا گورنمنٹ کالج جائن کرنا چاہتا ہے ، اسے لیٹر بنا دیں ڈی جی صاحب نے میرے کوائف پوچھے جو انہیں فوراً بتا دئیے گئے۔ کہنے لگے آدھ گھنٹے بعد کوئی بندہ اگر بھیج دیں کہ لیٹر لے جائے وگرنہ بعد دوپہر میرا بندہ لیٹر آپ کو دے جائے گا۔ ایک موٹر سائیکل سوار فوری روانہ ہوا اورتقریباً آدھ گھنٹے بعد گورنمنٹ کالج میں تقرری کا خط میرے ہاتھ میں تھا۔اگلی صبح میں سیدھا پرنسپل آفس میں موجود تھا۔ وہ لیٹر اور جائننگ رپورٹ میں نے پرنسپل صاحب کو پیش کی۔ انہوں نے میرا پتہ اور دیگر کوائف دیکھے اور آرام سے دونوں پر دستخط کر دئیے اور مجھے کہا کہ ڈیپارٹمنٹ رپورٹ کرو۔اور ڈاکٹر صاحب کو بتا دو کہ جایننگ دے دی ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا ۔ کہنے لگے ، تم پھر آ گئے ہو ، میں نے بتایا تھا کہ پرنسپل چھٹیوں کی وجہ سے اجازت نہیں دے رہا۔اب جواب دینے کی بجائے میں دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔ اور ڈاکٹر صاحب کے کل کے رویے کی طرح ان سے نظریں ملانے کو تیار نہیں تھا۔

پندرہ بیس منٹ مست بیٹھے رہنے کے بعد میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ پرنسپل صاحب کا حکم ہے کہ آپ سے کوئی کلاس پڑھانے کے لئے لے لوں۔ کیونکہ انہوں نے مجھے ملازمت دے دی ہے۔ملازمت دے دی ہے ،مگر کیسے ،میں نے تو سفارش نہیں کی۔انہوں نے پریشان ہو کر کہا۔ میں ابھی ان سے بات کرتا ہوں۔ وہ کچھ غصے اور کچھ ناراضی میں پرنسپل کے دفتر پہنچ گئے۔ پرنسپل نے میرے دونوں لیٹر انہیں پکڑا دئیے۔ انہوں نے دیکھے اور کہنے لگے ۔ میرا سٹوڈنٹ ہے۔ بہت اچھا بچہ ہے ، آپ نے اچھا کیا جو ملازم رکھ لیا۔ اسے کلاس چھٹیوں کے فوراً بعد مل جائے گی۔پرنسپل صاحب نے کہا کہ میرا کام اتنا ہی تھا ، باقی آپ خود دیکھیں۔ میں ابھی ان کے دفتر ہی میں بیٹھا تھا کہ واپس آئے اور کہنے لگے ۔ مبارک ہو ، میں بہت خوش ہوں کہ تم میرے ساتھ کام کرو گے۔ مگر آج کل چھٹیاں ہیں۔ مہینہ بھر عیش کرو۔ کالج کھلے گا تو کلاس کا دیکھیں گے۔چھٹیاں ختم ہوئیں تو کلاسوں شروع ہونے سے پہلے میں بحیثیت لیکچرار گورنمنٹ ایف سی کالج میں موجود تھا۔
تنویر صادق

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501293 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More