ملک میں عدت کے آجکل بڑے چرچے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے ایک
صاحب یاد آ گئےْ میرے محلے میں رہتے تھے۔ بوڑھے آدمی ، ایک پرانی مگر قیمتی
کار۔ معقول بڑا گھر۔ بات کرتے ہوئے کسی سے ناراضی کا اظہار کرنا ہوتا تو
اسے ذرہ غصے کے انداز میں بتاتے، بیٹا میرے ساتھ تحمل سے بات کرو میں
ریٹائرڈ ریونیو افسر ہوں اور ریونیو افسر سے تو وزیر اور بڑے بڑے افسر بھی
ڈرتے ہیں۔ والد صاحب کے پاس کبھی کبھی بیٹھے ہوتے تو میں محسوس کرتا کہ
والد صاحب کچھ بے چین ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ وہ ریونیو افسر صاحب جلدی
چلے جائیں۔ ایک دن وہ آئے۔ چائے پی ، گپ شپ لگائی لیکن لگتا تھا آج جانے کے
موڈ میں نہیں۔ میں نے اندازہ لگا کر ابا جی کو کہا کہ ان کو فلاں جگہ جانا
تھا، دیر ہو رہی ہے ۔مہمان سے اجازت لے لیں وگرنہ جہاں جانا ہے ، جا نہیں
سکیں گے۔وہ لوگ پہلے ہی ناراض ہیں۔افسر صاحب نے میری بات سنی تو ابا جی کو
پوچھنے لگے کہ آپ کو ضروری تو نہیں جانا۔ ویسے کہیں جانے کا کوئی فائدہ
نہیں ،بہتر ہے گھربیٹھے رہیں ، آپ سے باتیں کرنے کا مزہ آ رہا ہے۔ ابا جی
نے ان کا موڈ دیکھ کر کہا ، نہیں جانا بڑا ضروری ہے۔ آپ بیٹھیں، میں بیٹے
کو کہتا ہوں آپ کے پاس بیٹھے گا۔
ابا جی تو جانے کا بہانہ بنا کر اپنے کمرے میں آرام کرنے چلے گئے اور میں
پھنس گیا۔ وہ کچھ بتا رہے تھے اور میں اونگھ رہا تھا۔ وہ بغیر میری حالت
دیکھے یا محسوس کئے بڑی روانی سے کچھ سنا رہے تھے۔ ان کی گفتگو میں ہر چند
ساعتوں کے بعد کوئی گالی یا لطیفہ شامل ہو جاتا، ایسا لطیفہ جو میں کم از
کم کسی دوسرے کو سنا نہیں سکتا تھا۔ میرے والد بڑے نفیس آدمی تھے۔ پانچوں
وقت کی نماز مسجد میں پڑھتے۔ واپسی پر کسی نہ کسی نمازی کو ساتھ لے آتے ۔
اسے چائے پلاتے ، کھانا کھلاتے اور اپنے اس عمل پر خوش ہوتے۔مگر ریونیو
افسر کو مل کر وہ پتہ نہیں کیوں اداس ہو جاتے۔ آج میں قابو تھا تو مجھے
تھوڑی دیر میں اندازہ ہو گیا کہ دوستی کے لئے کچھ کیمسٹری تو ایک جیسی ہو۔
میرے والد اور ان افسر صاحب میں کوئی عادت ایک جیسی نہیں تھی۔دوسرا میرے
والد کوئی فضول بات کرنے کا سوچتے بھی نہ تھے اور اس کی باتیں، اگر فضول
نکال دی جائیں تو باقی واقعی خاموشی بچتی تھی۔مجھے اندازہ ہو گیا کہ والد
صاحب تکلفا بس ًرواداری میں قابو آ جاتے ہیں ورنہ ان دونوں کے مزاج میں دور
دور تک کوئی ہم آہنگی نہ تھی۔
میرے والد ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے جو حکومت پنجاب سے گریڈ اکیس میں
بحیثیت سیکرٹری ریٹائر ہوئے تھے۔اگلے دن میں نے والد صاحب کو کہا کہ مجھے
آپ کی اس سئے بے اعتناعی سمجھ آ گئی ہے۔ وہ باتیں کر رہا ہوتا ہے اور آپ
اسے صرف سن رہے ہوتے ہیں جواب بھی بہت کم دیتے ہیں، شاید وہ شخص بات کرنے
کاسلیقہ ہی نہیں جانتا۔بات کم ، گالیاں اور فضول فقرے زیادہ بولتا ہے۔ ہنس
کر کہنے لگے، ریٹائرڈ پٹواری ہے،رعب ڈالنے کو بتاتا ریونیو آفیسر ہے۔دوسرا
جس گاؤں یا علاقے میں تعیناتی رہی ہے وہاں کی کسی امیر بیوہ کو گھیر کر اس
سے شادی بھی کرتا رہا ہے۔اس کی جائداد اور روپے پیسے سب اس کے ہو جاتے رہے
ہیں۔ ہر وقت چار بیویاں لازمی ہوتی ہیں۔اب تک پندرہ بیس شادیاں کر چکا ہے ۔
ہر سال ایک دو بیویاں مر جاتی ہیں، کیوں اور کیسے ، کوئی سمجھ نہیں پایا۔
پہلی بیوی مرتی ہے تو اگلی کوئی بیوہ چند دنوں میں اس کے پاس ہوتی ہے۔ بغیر
کسی کام کے ہرکسی کے گھر چلا جاتا ہے اور بتاتا ہے کہ کل فلاں سیکرٹری صاحب
کے ہاں کھانا کھایا، پرسوں فلاں آئی جی صاحب نے ضد کرکے چائے پلائی۔ دو دن
پہلے فلاں ڈائریکٹر جنرل صاحب نے فون کرکے گپ شپ کے لئے بلا لیا۔سارے ملنے
والے تنگ ہیں ایک دو نے تو گالیاں نکال کر گھر سے نکالا ہے مگر یہ بہت ڈھیٹ
ہے۔لوگوں کو کہتا ہے میرا دوست ہے اور مجھ سے مذاق کرتا ہے۔وہ لوگوں کو
باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ ایک بڑا آدمی ہے اور اس کے تعلقات بھی سب بڑے
آدمیوں سے ہیں۔مگر اپنی چھوٹی حرکتوں کے باعث لوگ ان سے اجتناب کرتے ہیں۔
محلے کے بابوں نے ایک فلاحی انجمن بنائی ہوئی تھی۔ ان کا سالانہ ڈنر اور
گروپ فوٹو کی تقریب تھی۔ اتنے میں وہ آ گیا کہ مجھے دعوت کیوں نہیں دی۔ میں
بھی تو محلے دار ہوں۔ زبردستی کھانا کھایا اور پھر گروپ فوٹو کے لئے پہنچ
کیا۔ فوٹو گرافر نے پوچھ کر آگے کرسیوں پر صدر، سیکرٹری اور دیگر عہدیداروں
کے حوالے سے کاغذ چپکائے ہوئے تھے۔صدر والی کرسی سے صدر کا لفظ پھاڑ کر
وہاں بیٹھ گئے کہ کون ہے مجھ سے معتبر جسے صدر بنائے بیٹھے ہو ، یہ جگہ
میری ہے اور میں ہی یہاں بیٹھوں گا۔کوئی انہیں اٹھا نہ سکا اور بیچاری فوٹو
ان سمیت ہی کھچوائی گئی۔ بن بلائے صرف پتہ چلنے پر ہر محفل میں پہنچ جاتے۔
ان کو دور سے آتے دیکھ کر کچھ لوگ کھسک جاتے اور کچھ رنگین مزاج ادھر ادھر
سے ان کے عالمانہ اور غلیظانہ ارشادات سننے وہاں آجاتے۔انہیں کبھی اپنی
گفتگو پر شرمساری نہیں ہوئی بلکہ جتنی وہ فضول اور گھٹیا ہوتی وہ اسے اپنا
کارنامہ سمجھتے رہے۔
ایک دن صبح ہی صبح میرے گھر پہنچ گئے۔ بیٹا بلاؤ والد صاحب کو، میں نے بہت
ضروری بات کرنی ہے۔ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا کر میں والد صاحب کو بلا
لایا۔والد صاحب کو کہنے لگے آپ سے ایک ضروری مشورہ کرنا ہے۔پوچھا کہ
فرمائیں۔کہنے لگے چارپائی کے چار پائے ہوتے ہیں۔ اگر ایک ٹوٹ جائے تو مرمت
ضروری ہوتی ہے۔آپ کو پتہ ہے کہ میری چار بیویوں میں سے ایک دھائی تین ماہ
ہوئے فوت ہو چکی ۔ اب تین باقی ہیں اور چوتھی کا کمرہ خالی ہے۔ چار پانچ دن
پہلے میرے ایک سالے کی وفات ہو گئی ۔اس کی بیوی اچھی خوبصورت اور صاحب
جائداد ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں اس سے شادی کرکے چوتھا پایا سلامت کر لوں۔
والد صاحب نے کہا، شادی تو آپ کی مرضی ہے مگر ہفتے میں وہ بچاری تو عدت بھی
پوری نہیں کر پائی ہو گی۔ بلکہ ابھی صدمے سے باہر بھی نہ آئی ہو گی۔ کہنے
لگے مجھے نہیں پتہ کہ یہ عدت کیا ہے بس یہ بتا دیں کہ نکاح کب کروں کہ آپ
جیسا کوئی مولوی اعتراض نہ کرے ۔ باقی کمرہ جو خالی ہے وہ تو آباد کرنا ہے۔
نکاح ابھی نہیں کروں گا ، تھوڑا عرصہ انتظار کر لوں گا مگر اسے کسی کے ہتھے
تو چڑھنے سے بچا لوں گا۔یہ کہا اور وہ ہنستے ہوئے یہ جا وہ جا۔ چند ماہ
ہوئے میں اپنے پرانے محلے گیا تو پتہ چلا کہ چاروں پائے قائم ہیں مگر اس
دفعہ چارپائی رخصت ہو چکی ہے۔سوچتا ہوں، عدت کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہےِ
، اس کی مدت کیا ہے ، اس کی اہمیت کیا ہے ، یہ بہت سے لوگوں کو کم معلوم
تھا مگر یہ عمران کا احسان ہے کہ اب ساری دنیا کو اس کی سمجھ بوجھ آ گئی ہے
۔ بھگت عمران رہا ہے اور فائدہ قوم کوہو رہا ہے۔ |