میرا ہائیکو مجموعہ ”ڈھلتی جائے رین“ 2016ء میں شائع ہوا۔
جسے میں نے اپنے ادبی حلقے میں شامل تمام احباب کو بذریعہ کورئیر اس نوٹ کے
ساتھ بھیجا کہ احباب جب یہ کتاب وصول کر لیں تو وصولیابی کی تصدیق بذریعہ
فون ؛ برقی پیغام یا برقی ڈاک بھیج دیں۔ تقریباً سبھی احباب کی طرف سے مجھے
وصولیابی کے تصدیقی پیغامات وقتاً فوقتاً موصول ہوتے رہے۔ تاہم ایک صاحب
جنہیں میں نے کتاب بھیجی تھی ان کی طرف سے جب مہینہ بھر گزرنے کے بعد بھی
کوئی جواب نہ آیا تو میں نے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ اُنہیں میری کتاب ملی
یا نہیں یا کہیں کورئیر نے گم نہ کردی ہو انہیں فون کیا۔ دوسری طرف سے جو
آواز مجھے سنائی دی اس سے میں آشنا نہیں تھا۔ معلوم ہوا جن صاحب کو میں نے
فون کیا تھا اُن کا چند ماہ پہلے انتقال ہو چکا ہے۔ فون کے دوسری طرف جن سے
میں بات کر رہا تھا وہ ان کے صاحبزادے تھے۔ یہ خبر میرے لئے اس طرح تھی
گویا میرے اندر ایک دم چھناکے سے کچھ ٹوٹ گیا ہو۔ اور میں چند لمحوں کے لئے
بالکل گنگ سا ہو کر رہ گیا۔ یقین مانئیے یہ سننے کے بعد میں ان کے صاحبزادے
سے تعزیتی کلمات بھی صحیح طور ادا نہیں کر سکا۔ یہ صاحب جن کے انتقال کے
بارے میں مجھے فون کال کرنے پر معلوم ہوا جہلم سے تعلق رکھنے والے شاعر
جناب مختار جاوید تھے۔ میری ان سے پہلی اور آخری ملاقات ۲۰۱۵ء میں ہوئی تھی۔
اس ملاقات سے قبل میں نہ تو ان کے نام سے واقف تھا اور نہ ہی ان کے کام
سے۔مختار جاوید سے میری ملاقات کا پسِ منظر کیا تھا اب میں اس کی طرف آتا
ہوں۔
کارہائے دفتری کے سلسلے میں مجھے کبھی کبھار پاکستان کے مختلف شہروں میں
جانا ہوتا ہے۔ اورعموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب میرے قبیل کے لوگ ایسی کسی
یاترا پر جاتے ہیں تو دفتری امور کے ساتھ ساتھ ان کے پیشِ نظر یہ بھی ہوتا
ہے کہ وقت ملا تو شہر کی سیاحت بھی کریں گے اور اس کے کوچہ و بازار، فضا
اور ماحول کواپنے وجود کے احساس سے آشنا بھی کریں گے۔ تاہم میرے معاملے میں
ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ میں اپنے اس طرح کے دوروں پر دفتری امور نمٹانے
کے بعد عموماً اپنے ہوٹل کے کمرے تک ہی محدود رہتا ہوں اور میر ی مصروفیت
مطالعہ کتب تک ہی رہتی ہے۔ دوسرا یہ کہ میری عادت ہے کہ میں سفر کے دوران
اپنے مطالعہ کے لئے کتب کبھی بھی گھر سے لے کر نہیں نکلتا بلکہ عموماً
ہوائی اڈے کی انتظار گاہ میں واقع مرکزِ کتب سے ہی دو چار کتابیں خرید لیتا
ہوں۔ اور میری کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ نئے شعراء کی کتب خریدوں ایک تو یہ
کہ ان کی حوصلہ افزائی ہو ۔دوم یہ کہ معلوم ہو سکے کہ آج کے دور کا شاعر کن
موضو عات پر شاعری کر رہا ہے۔
شعری مجموعہ ”جھیل میں ستارے“ بھی ایسی ہی ایک کتاب تھی جسے میں نے مارچ
2015ء میں سفر پر روانگی سے قبل کراچی ہوائی اڈے کی انتظار گاہ سے اسی سوچ
کے تحت خریدا تھا۔ اپنی منزل مقصود یعنی سیالکوٹ پہنچنے اور دن بھر دفتری
امور نمٹانے کے بعد اپنے ہوٹل کے کمرے میں شام ڈھلے اس کتاب کی ورق گردانی
کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ کلام بہت عمدہ ہے۔ اشتیاق ہوا کہ شاعر کے بارے
میں کچھ جانا جائے۔ کتاب کے اندرونی سر ورق کی پشت پر شاعر کا نام، پتہ اور
فون نمبر درج تھا۔ مجھ کم علم نے چونکہ مختار جاوید کا نام کبھی نہیں سن
رکھا تھا تو میرا خیال یہی تھا کہ یہ نئے شاعر ہیں۔ لہذاٰ میں نے انہیں فون
ملایا ۔ رسمی دعا سلام اور ان کی شاعری پر اپنے سرسری تبصرے اور توصیفی
کلمات کے بعد ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا اور پوچھا کب، کیسے اور
کہاں ملاقات ہو سکتی ہے۔ معلوم ہوا موصوف کا تعلق جہلم سے ہے لیکن ان دنوں
لاہور میں مقیم ہیں۔ میں نے اپنی بابت بتایا کہ میں سیالکوٹ میں ہوں۔ تاہم
میں نے انہیں آگاہ کیا کہ میری واپسی لاہور سے ہی ہوگی اور میرا لاہور میں
ایک دن کا قیام بھی ہے۔ تو کہنے لگے بس جب آپ لاہور آئیں تو رابطہ کریں
ضرور ملاقات ہو گی۔
خیر دو چارروز بعدسیالکوٹ سے لاہور کے لئے روانہ ہوا۔ اور وہاں پہنچتے ہی
مختار جاوید صاحب سے رابطہ کیا اور جس ہوٹل میں میرا قیام تھا اس کی
تفصیلات سے آگاہ کیا۔ غالباً صبح دس بجے کا وقت طے ہوا تھا کہ وہ ہوٹل
پہنچیں گے ۔ ابھی تک میں مختار جاوید صاحب کے ادبی قد اور وہ عمر کے کس حصے
میں ہیں بالکل نہیں جانتا تھا۔ آپ کو بتاتا چلوں کے میں ہوٹل کی چوتھی منزل
پر مقیم تھا۔ صبح دس بجے کے قریب مجھے جب کہ میں ابھی اپنے ہوٹل کے کمرے
میں ہی تھا مختار جاوید صاحب کی کال آئی کہ آپ نیچے لابی میں آ جائیں۔ میں
نے کہا لفٹ موجود ہے آپ کو اوپر آنے کے لئے سیڑھیاں چڑھنے کی دشورای کا
سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ تو انہوں نے اصرا ر کیا کہ آپ نیچے لابی میں ہی آ
جائیں۔ میں نیچے لابی میں آ گیا مگر میں نیچے لابی میں پہنچا تو مجھے احساس
ہوا کہ مجھ سے انجانے میں بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے ۔میرے سامنے بالکل سفید
بالوں میں ایک عمر رسیدہ ؛ چلنے میں چھڑی کا سہارا لینے والا شخص موجود
تھا۔ بعد از گفتگو معلوم ہوا کہ نہ صرف وہ عارضہ قلب اور پیرانہ سالی کے
دیگر عوارض میں مبتلا تھے بلکہ ان کی قوتِ سماعت بھی قدرے متاثرتھی۔ مجھے
یہ سب جان کر انتہائی شرمندگی ہو رہی تھی کہ مجھے اُنہیں اپنے پاس بلانے کی
زحمت دینے کی بجائے خود اُن سے ملنے جانا چاہئے تھا۔ خیر اب تو تیر کمان سے
نکل چکا تھا۔
اُن کے ساتھ ان کے دوست محترم طارق چغتائی صاحب اورغالباً اُن کے صاحبزادے
بھی ملاقات کے لئے آئے ہمراہ تھے۔ مختار جاوید صاحب انتہائی خندہ پیشانی سے
ملے۔دورانِ گفتگو ہم دونوں نے اپنے بارے میں اور اپنے ادبی ذوق کے بارے میں
تبادلہ خیال کیا۔ اُن کا ایک شعری مجموعہ جھیل میں ستارے تو میں پہلے ہی
خرید اورسرسری طور پر دیکھ چکا تھا۔ معلوم ہوا کہ اُن کا ایک شعری مجموعہ
زمین پر کہکشاں بھی شائع ہو چکا ہے اور غالباً ایک کسی اور مجموعے کا ذکر
کیا تھا جو زیر طباعت تھا۔ مختار جاوید صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میرے
پاس آنے کے لئے گھر سے نکلتے وقت انہوں نے اپنے دوست اعتبار ساجد کو بھی
فون کیا تھا اور انہیں بتایا کہ کراچی سے میرے ایک مہمان آئے ہوئے ہیں ان
سے ملاقات کے لئے جا رہا ہوں آپ بھی وہاں وہاں پہنچے مگراعتبار صاحب ان
دنوں اسلام آباد گئے ہوئے تھے لہذاٰ شریک نہ ہو سکے۔
مختار جاوید ایک حساس اور خاموش طبع شخصیت کے مالک، زمانے کے درد کا ادراک
رکھنے والے اور اپنے ارد گرد کے حالات اور مشاہدہ کو انتہائی خوبصورتی سے
شعروں میں پرونے والے ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ اپنے گھر پر باقاعدگی سے شعری
نشست منعقد کرتے رہے ہیں جن میں احمد ندیم قاسمی اور اُن کے دیگر ہم عصر
شعراء شریک ہوتے رہے ہیں۔ہماری اس ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ کی ملاقات میں اُنہوں
نے مجھ سے فرمائش کر کے میری ہائیکو بھی سُنی اور اپنا کلام بھی پیش کیا۔
یہ میری مختار جاوید سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ تاہم اس ملاقات نے مختار
جاوید صاحب کی شخصیت کے حوالے سے میرے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑا ایک تو یہ
کہ وہ ادبی حلقے میں نمایاں مقام رکھنے کے باوجود انتہائی خلیق، ملنسار؛
تصنع سے پاک شخصیت تھے۔ دوسرا یہ کہ اپنے تمام مسائل اور جسمانی عارضوں کے
باوجود مجھ جیسے بالکل گمنام شخص جس کا ادبی حوالہ اُن کے ادبی قد سے کوئی
مطابقت نہ رکھتا ہو اس سے ملنے کے لئے حامی بھرنا اور خود ملاقات کے لئے چل
کر آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ مختار جاوید واقعی چھوٹے شہرکا بڑا شاعر ہے اور
بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا آدمی بھی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میرا ان
سے تعلق محض اس ایک ملاقات تک ہی محدود رہا اور میں محض ایک چھوٹے شہر کے
بڑے آدمی کو اپنی یادوں کے قصے کے طور پر بیان کر رہا ہوں۔ آخر میں مختار
جاوید کے چند اشعار اور ایک غزل کے بعد آپ سے اجازت چاہوں گا۔
زندگی موت کی امانت تھی
درمیان سے نکل گیا ہوں میں
☆
منزل کی جستجو میں بڑی بھول ہوگئی
وہ شخص راہزن تھا، جسے رہبر کیا
☆
ہم سے ہوتے نہ وہ گناہ کبھی
جو ہوئے نیکیاں کمانے میں
☆
چاہت بلندیوں کی تھی لیکن خدا کا شکر
انسان ہی رہا ہوں غبارا نہیں ہوا
غزل
معیار کو اٹھاوں تو کردار گر پڑے
چھت کو سنبھالتا ہوں تو دیوار گر پڑے
تُو اور کیا بلند ہو، میں اور کیا گروں
دیکھوں بھی تیری سمت تو دستار گر پڑے
ایسا کوئی کمال کہ میدانِ جنگ میں
ہر جنگ جُو کے ہاتھ سے تلوار گر پڑے
اتنا ہوا کہ رزقِ سمندر نہیں ہوئے
اِس پار گر پڑے کبھی اُ س پار گر پڑے
دیکھا پلٹ کے تو کہیں پیچھے کھڑا تھا وہ
جیسے کسی کے پاوں سے رفتار گر پڑے
بے حوصلہ نہیں تھا کوئی اِک بھی ڈار میں
دو چار اوپر اٹھ گئے دو چار گر پڑے
|