چین کے اہم زرعی پیداواری علاقوں میں اس وقت جدید مشینوں
کی مدد سے گندم کی کٹائی جاری ہے۔ملک میں زرعی ٹیکنالوجی کے اطلاق کی بات
کی جائے تو بگ ڈیٹا سینٹرز اور مقامی ساختہ ذہین ڈیجیٹل پلیٹ فارم کو
استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ مقامی گندم کے کاشتکاروں کو درست بگ ڈیٹا خدمات
فراہم کی جا سکیں، فصلوں کے انتظام اور کٹائی کی کارکردگی میں اضافہ کیا جا
سکے۔ویسے بھی اس وقت چین میں ذہین زرعی مشینری کے استعمال کی شرح نمایاں حد
تک بڑھ چکی ہے اور میکانی کٹائی کے نقصان کی شرح 0.6 فیصد تک کم ہوگئی
ہے۔اس میں فی ہزار کلو گرام اناج کے حصول میں زیادہ سے زیادہ نقصان صرف چھ
کلو گرام ہوتا ہے جو کہ دو فیصد کے قومی معیار سے بہت کم ہے۔اس کے علاوہ،
کٹائی شدہ بھوسے کو بنڈل کیا جاتا ہے اور ری سائیکل کیا جاتا ہے تاکہ آمدنی
میں اضافہ ہو اور مقامی کسانوں کی لاگت کو کم کیا جا سکے۔
گندم کی کٹائی کا موسم قریب آتے ہی زرعی علاقوں میں بڑے پیمانے پر میکانی
کٹائی کی تیاریاں شروع کر دی جاتی ہیں۔ تیاریوں میں مدد کے لیے بگ ڈیٹا
سینٹر کے ماہرین گندم کی افزائش پر نظر رکھنے کے لیے سیٹلائٹ مانیٹرنگ کا
استعمال کرتے ہیں۔یہ مانیٹرنگ سیٹلائٹ زمین کی سطح پر 0.25 مربع میٹر تک کے
چھوٹے علاقوں کی نگرانی کر سکتے ہیں. اس کا مطلب ہے کہ ایک مو (0.067
ہیکٹر) کے سائز کے علاقے میں 2600 سے زیادہ مانیٹرنگ پوائنٹس ہیں ۔سیٹلائٹ
مانیٹرنگ نیٹ ورک بگ ڈیٹا پلیٹ فارم کے ذریعے گندم کی کاشت کے پورے عمل کی
جامع نگرانی اور انتظام کو ممکن بناتا ہے۔
بگ ڈیٹا سروسز کی بدولت رواں سال گندم کی فی مو (0.067 ہیکٹر) پیداوار بڑھ
کر تقریباً 500 کلوگرام ہو گئی ہے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 25 سے 50
کلوگرام زیادہ ہے۔گندم کی بوائی کے موسم سے لے کر کیڑوں پر قابو پانے کے
موسم تک، اور اب کٹائی کے موسم کے دوران، پیداوار میں مدد کے لئے مختلف
اسمارٹ فارمنگ مشینوں کا استعمال کیا گیا ہے. کیڑوں پر قابو پانے کے موئثر
اقدامات کے تحت مجموعی کاشتکاری کے رقبے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔اس حوالے
سے فعال جامع نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ موسم گرما کی گندم کی فصل
کو کیڑوں کی روک تھام اور کنٹرول کی کوششوں کے ذریعے کم از کم ایک بار تحفظ
حاصل ہوا ہے۔ یہ نظام اسمارٹ زرعی مشینری کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے ساتھ
ساتھ ان کے آپریشنل ڈیٹا میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
چین نے حالیہ برسوں کے دوران انہی جدید زرعی اصولوں کی بدولت نہ صرف اپنے
ہاں غذائی تحفظ کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مسلسل مشکلات پر قابو پایا ہے
بلکہ انتہائی ضرورت مند ممالک کو ہنگامی غذائی امداد بھی فراہم کی ہے۔ چین
نے 140 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ زرعی تعاون کیا ہے اور ترقی پذیر
ممالک میں ایک ہزار سے زائد زرعی ٹیکنالوجیز کو مقبول طور پر قابلِ استعمال
بنایا ہے۔ ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے اناج کی سالانہ پیداوار 650ملین ٹن
سے زائد چلی آ رہی ہے۔یہاں چین کو اس اعتبار سے داد دینا پڑے گی کہ وہ صرف
120 ملین ہیکٹر قابل کاشت اراضی کے ساتھ ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی
کی خوراک کی ضروریات کو احسن طور پر پورا کر رہا ہے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چین کے پاس قابل کاشت اراضی محدود ہے، یہی وجہ
ہے اس وقت چین کے اہم زرعی علاقوں میں اناج کی پیداوار کو مستحکم اور بہتر
بنانے کے لئے اعلیٰ معیار کے کھیت تعمیر کیے جا رہے ہیں، جدید زرعی
ٹیکنالوجی کے استعمال کو آسان بنایا گیا ہے، وسیع پیمانے پر انتہائی پیشہ
ورانہ زرعی پیداوار کو فروغ دیا جا رہا ہے، اور زراعت اور دیہی علاقوں کی
جدت کاری کو آگے بڑھاتے ہوئے چینی عوام کو تحفظ خورارک کی ضمانت دی گئی ہے
اور کسانوں کو بھی ایک خوشحال اور آسودہ زندگی کی جانب لایا گیا ہے.
|