ڈاکٹر عطیہ ظفر سید یہ ایک نام نہیں یہ کراچی اور سندھ کی
وہ بیٹی ہے جس نے نامناسب حالت اور نوازائیدہ پاکستان جب آزاد ہوا تو کسی
کو کیا پتہ تھا یہ لڑکی اپنی انتھک محنت اور گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ
ساتھ ایسا نام پیدا کریگی کہ اُس پر عطیہ کا خاندان تو کیا فخر کریگا پورا
کراچی اس پر اور اس کہ خاندان پر فخر کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے.
چالیس ڈاکٹروں کے خاندان کی کہانی ۔
عطیہ خاتون کو ان کے والدین نے ایک اسکول ٹیچر کے ساتھ زندگی کا ہمسفر بنا
کر رخصت کر دیا اور ان کی زندگی ایک نئی ڈگر پر چل پڑی۔ اس وقت ان کی عمر
صرف تیرہ برس تھی۔ اس وقت انہوں نے صرف ابتدائی تعلیم اور قرآنی تعلیم حاصل
کی ہوئی تھی۔ وہ بیاہ کر بہار کے دسینہ کے چھوٹے سے گاؤں سے اٹھ کر پٹنہ
جیسے بڑے شہر آگئیں۔ اس زمانے میں خواتین کے لیے تعلیم سے زیادہ گھر گھرستی
ضروری سمجھی جاتی تھی۔ لڑکی کو جب تک سلائ کڑھائی اور دیگر کاموں میں عبور
حاصل نہ ہو وہ سگھڑ تصور نہیں کی جاتی تھی۔ عطیہ خاتون کی زندگی بھی اسی
روش پر رواں دواں تھی۔ اسی طرح وقت گزرتا رہا اور 1947 آگیا اور اللّٰہ
تعالیٰ نے پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کو ایک خوبصورت انعام سے نوازا
الحمدللّٰہ رب العالمین۔ جہاں لاکھوں خاندانوں نے ہجرت کی وہیں ابو ظفر
صاحب اور عطیہ خاتون کا خاندان بھی ہجرت کر کے بے سرو سامانی کی حالت میں
پاکستان آکر آباد ہو گیا۔ یہ خاندان لیاری میں لاکھوں مہاجر خاندانوں کی
طرح آباد ہو گیا۔
عطیہ خاتون ایک نہایت محنتی اور ہمت و حوصلے والی خاتون تھیں۔ انھیں پڑھنے
کا بےحد شوق تھا۔ بس گردش حالات نے اجازت نہ دی تھی لیکن پاکستان آنے کے
بعد ان کے اندر اس خواہش نے دوبارہ سر اٹھایا اور ایک نئے ولولے اور نئی
امید کے ساتھ انھوں نے اس کام کی ابتدا کی۔ اللّٰہ کے فضل و کرم سے خاوند
تعلیم یافتہ اور تعلیم ہی کے شعبے سے وابستہ تھے۔ انھوں نے اس کام میں عطیہ
سے مکمل تعاون کیا اور یوں انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے ہی حاصل کی
اور اپنے شوہر سے سیکھتے سیکھتے میٹرک تک پہنچ گئیں۔ دونوں میاں بیوی نے
ایک دوسرے سے بھر پور تعاون کیا۔ وہ خوب محنت کر رہے تھے اور یہ بات بخوبی
جانتے تھے کہ ترقی کرنے کا واحد راستہ صرف اور صرف تعلیم ہے اور صرف تعلیم
حاصل کر کے ہی وہ دنیا میں اپنا کوئی مقام بنا سکتے ہیں۔ اس دوران عطیہ کے
دل میں اس شدید خواہش نے سر اٹھایا کہ وہ اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنائیں گی اور
اس کے ساتھ ساتھ اس علم دوست خاتون کے دل میں ایک اور خواہش پیدا ہوئی۔ وہ
خواہش یہ تھی کہ وہ خود بھی ڈاکٹر بنیں۔ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنا بہت
مشکل کام تھا مگر شاید علامہ اقبال نے ایسے ہی بلند حوصلہ افراد کے لیے یہ
شعر کہا ہے۔۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
عطیہ خاتون بس اسی شعر کی تفسیر تھیں۔ گھر گھرستی سنبھالنے بچوں کی پرورش
کرنے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ خواب
بہت بڑا تھا مگر عطیہ کی ہمت اور حوصلے سے زیادہ نہیں۔ عطیہ نے میڈیکل کی
ابتدائی تعلیم مشرقی پاکستان کے شہر سلہٹ کے میڈیکل اسکول سے حاصل کی۔ اس
کے بعد میڈیکل میں چوتھے سال میں ان کا ٹرانسفر ڈاؤ میڈیکل کالج میں ہوگیا۔
میڈیکل کے فائنل سال میں اسی کالج میں ان کے بڑے صاحب زادے ٹیپو سلطان کا
ایڈمشن ہوا۔
عطیہ کے آٹھ بچے تھے اور بچوں میں بھی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ والدین سے
وراثت میں منتقل ہوا تھا۔ ماں اور باپ نے مل کر کسی قبولیت کی گھڑی میں
بچوں کے حق میں دعائیں کی ہوں گی جنہھیں اللّٰہ تعالیٰ نے قبولیت کا درجہ
دیا۔
ماں باپ کی انتھک محنت اور زندگی میں آگے بڑھنے کی لگن رنگ لائی اور کچھ ہی
عرصے بعد بچوں کے ساتھ ساتھ عطیہ خاتون کے ہاتھ میں بھی میڈیکل کی ڈگری
تھی۔ یہ وہ خواب تھا جو عطیہ خاتون نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا اور ان کی
محنت کا صلہ اللّٰہ تعالیٰ نے انھیں ڈگری کی صورت میں عطا کیا۔
اگلہ مرحلہ بچوں کی شادی کا تھا۔ ان کی دوسری دعا جو انھوں نے اپنے بچوں کے
حق میں مانگی تھی اسے بھی اللّٰہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشا اور ان کے آٹھ
بچوں کی شادیاں آٹھ ڈاکٹروں سے ہوئیں اور یوں ان کے گھرانے میں سترہ ڈاکٹرز
ہو گئے جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک ایک کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے
گئے۔
وقت گزرا اور یہ سب اپنے وطن کی خدمت کے لیے دوبارہ پاکستان میں رہائش پذیر
ہو گئے۔ عطیہ خاتون نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ سب بھی اپنے بچوں کو ڈاکٹر
بنائیں گے۔ والدین کے پروفیشن کو دیکھتے ہوئے اس ساری نئی نسل نے بھی طب کے
شعبے میں تعلیم حاصل کی اور اپنے بزرگوں کے خواب کو تعبیر دی۔ ماشاءاللّٰہ
جس گھر میں اتنے ڈاکٹر ہوں وہاں کے بچوں میں ڈاکٹر بننے کا شوق ایک فطری
بات ہے۔
انھوں نے اپنے کراچی کے ایک گھر کو ہسپتال بھی بنایا۔ اس کا نام کوہی گوٹھ
منتخب ہوا۔ اس کو اس قدر شہرت ملی کہ عالمی اداروں نے اسے میٹرنٹی کا
بہترین ہسپتال قرار دیا۔ یہاں بچیوں کو نرسنگ کی ٹریننگ بھی دی جاتی رہی
ہے۔ عطیہ خاتون نے واقعی اپنے بچوں کی مثالی تربیت کی۔ ان کے بچے تعلیم کے
شعبے میں بھی خدمات انجام دینا چاہتے ہیں۔اس منصوبے پر ابھی کام جاری ہے۔
نیپولین بوناپارٹ نے واقعی بہت خوب کہا تھا۔ تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو
میں تمہیں دنیا کی بہترین قوم دوں گا۔
عطیہ خاتون نے یہ ثابت کردیا۔ کہ آپ آج کیا ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
بنیادی اور اصل بات یہ ہے کہ آپ کا کل کیسا ہوگا۔ یقینا یہ اہم سوال ہمارے
بچوں کے مستقبل سے بھی جڑا ہوا ہے۔ عطیہ خاتون نے یہ ثابت کیا کہ اگر آج پر
آپ کی گرفت مضبوط ہو تو کل ضرور آپ کا ہی ہے۔
ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی اس کہانی نے مجھے بہت متاثر کیا۔چٹانوں جیسا حوصلہ
رکھنے والی یہ باہمت خاتون ڈاکٹر عطیہ ظفر ہم سب خواتین کے لیے ایک رول
ماڈل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
اسکے علاوہ ڈاکٹر عطیہ ملیر میں کالا بورڑ پر واقع عطیہ ہسپتال کی روح رواں
اور بانی بھی ہیں۔ انھوں نے اپنی تعلیم کے خواب کے ساتھ اپنے اس خواب کو
بھی تعبیر دی۔ سات سال کی عمر میں ان کے سر سے باپ کا دست شفقت اٹھ گیا تھا
لیکن ان کا کہا ہوا ایک جملہ انھوں نے گرہ سے باندھ لیا تھا کہ "تم پڑھو گی
اور اس گاؤں کی پہلی میٹرک کی ہوئی لڑکی ہوگی"۔
۔کس کو پتا تھا کہ بہار کے ایک گاؤں دیسنہ کی رہنے والی یہ چھوٹی سی بچی
اپنے والد کے نام کو اس طرح روشن کرے گی۔
۔ڈاکٹر عطیہ نے طب کی تعلیم چار بچوں کی پیدائش کے بعد حاصل کی۔ ڈاکٹر عطیہ
ظفر سید طویل عرصہ علیل رہنے کے بعد 14فروری 2014 کو اپنے خالق حقیقی سے جا
ملیں۔ انکی عمر 85 سال تھی۔ انکی تدفین ان کے مشہور کوہی گوٹھ کے ہسپتال کے
احاطے میں کی گئی ہے۔ ان کے بچوں میں ڈاکٹر ٹیپو سلطان ڈاکٹر چاند بی بی
ڈاکٹر سراج الدولہ ڈاکٹر شیرشاہ سید ڈاکٹر شاہین ظفر اور دیگر شامل ہیں۔ اس
وقت ان کے خاندان میں چالیس سے زائد ڈاکٹرز موجود ہیں۔
اللّٰہ اس فیملی کو ہمیشہ آباد رکھے۔ آمین ثم آمین۔
ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کا نام پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حرفوں میں
لکھا جائے گا اور انکی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ملیر کا عطیہ ہسپتال
ان کی انتھک کوششوں اور محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے انھوں نے ایک چھوٹے
سے کلینک سے شروع کیا تھا۔
ڈاکٹر عطیہ ظفر سید ایک بہت ہی مذہبی خاتون تھیں۔ نماز روزہ حج یہ سب انھوں
نے اپنی زندگی کے معمولات میں شامل کیا ہوا تھا اور یہ ساری عبادات انھوں
نے دنیاوی معاملات کے ساتھ ساتھ اپنے وقت پر ادا کیں۔
وہ ادب سے گہرا لگاؤ رکھتی تھیں۔ علامہ اقبال کی بے شمار غزلیں انھیں زبانی
یاد تھیں۔
اس کے علاوہ حالی مومن کی شاعری سے بھی انھیں گہرا شغف تھا۔ غالب کی غزل
گوئی انھیں بےحد پسند تھی۔ نذیر احمد کی مرات العروس اے آر خاتون سلمی کنول
عصمت چغتائی رضیہ بٹ غلام عباس قرت العین حیدر کے افسانے ہر وقت ان کے پاس
ہوتے تھے۔
اسکے علاوہ سید سلمان ندوی کی سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم اور
امام غزالی کی کیمیاے سادات بھی ان کی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک تھی۔
ڈاکٹر عطیہ ظفر سید ایک غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک خاتون تھیں۔ انھون نے
اپنی پوری زندگی انتھک محنت کی۔اور یہ ثابت کر دیا کہ اگر محنت اور لگن کا
جذبہ ساتھ ہو تو دنیا میں کچھ بھی نہ ممکن نہیں ہوتا۔ انھوں نے اپنی زندگی
میں ایک دیا روشن کیا اور پھر چراغ سے چراغ روشن ہوتے گئے۔ وہ اپنی آنے
والی نسلوں کو محنت میں عظمت کا ایسا سبق سکھا گئیں جس کی کہیں نظیر نہیں
ملتی ہے۔ ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کا نام تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ سنہری حرفوں
میں جگمگاتا رہے گا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔۔
|