رحمت اللٰہ کی،ناقدری ہماری

اس تحریر میں ہمارے معاشرے میں بیٹیوں کے ساتھ جو حق تلفی کی جاتی ہے اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بیٹی جو اللّٰہ کی رحمت سمجھی جاتی ہے، کس طرح اس پر بیٹوں کو ترجیح دینا اور بیٹیوں کو بدنصیب کہنا یہ سب ہمارے معاشرے کی عام روش بن چکی ہے، اسی سے متعلق یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ اس بے حس معاشرے کے لئے ۔۔۔ انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے،
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
(مختصر تعارف)مصنفہ: سبین عباس
تعلیم: ایم۔ایس۔سی (ریاضی) کراچی یونیورسٹی
شہر: کراچی(شعبہ تدریس سے منسلک)
دیگر مصروفیات: بلاگر / یوٹیوبر/ صوفی پینٹنگز بنانا






"رحمت اللٰہ کی،ناقدری ہماری"

شاذی او شاذی۔۔۔ کہاں رہ گئی ہے یہ؟
امّاں آرہی ہوں نہ !!!
شاذیہ ابھی ابھی اسکول سے آئ تھی اور یونیفارم بھی نہیں بدلا تھا کہ برتنوں کا ڈھیر اس کا منتظر تھا،وہ بیچاری اپنا بستہ ایک طرف رکھ کر برتن دھونے لگ گئی اتنے میں ماں کی آواز کانوں سے ٹکرائ تو جھنجلا کر ماں کو جواب دیا۔۔۔
ہاں ، کیا ہوا اماں؟
"ارے لے اس گڈو کو گود میں، ذرا باہر کا چکر لگا کر لا،کب سے چپ کرا رہی ہوں،ہوکر ہی نہیں دے رہا، یہ چپ ہو جاۓ تو منھی کی دودھ کی بوتل دھوکر اس میں ہلکا دودھ گرم کر کے بھر کر رکھ دینا۔۔۔اور ہاں یونیفارم بدل کر گھر کی جھاڑو بھی لگا لینا ،کس قدر گندا ہو رہا ہے گھر!

اسکول سے آنے کے بعد شازی کے لئے کاموں کی لائن لگی ہوتی تھی,اس کو پڑھنے کا بہت شوق تھا،لیکن گھر آکر پڑھنا تو دور کی بات کھیلنے کے لئے بھی وقت نہیں ملتا تھا،وہ چاروں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اور شاید یہی اس کا قصور تھا،چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنا اس کے اولین فرائض میں شامل تھا ،اوپر تلے بچوں کی پیدائش سے ماں کی طبیعت اکثر ہی خراب رہتی اور ماں کو بھی بڑی بیٹی کا سہارا مل گیا تھا،گھر کے کام ہوں یا چھوٹے بچوں کو سنبھالنا ہو ان کے ڈھیروں کام ہوں بس شازی کو ہی آوزیں پڑتی تھیں۔بیچاری رات دن گھر کے کاموں میں ہی لگی رہتی تھی۔ کئی بار اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے گرم دودھ بوتل میں بھرتے ہوۓ اپنے ہاتھ بھی جلا بیٹھی تھی،جھاڑو پوچھا، برتن۔ ،بچوں کے کپڑے دھونا ،گھر کی دھلائی کرنا، چاۓ بنانا،پانی بھر کے لانا اور نجانے کتنے چھوٹے بڑے کام تھے جو کبھی ختم ہونے کا نام ہی نا لیتے تھے۔۔۔ اپنے ابّا سے اسے بہت لگاؤ تھا ،جب ابا کام پر سے تھکا ہارا آتا تو وہ دوڑ دوڑ کر اس کے لئے پانی لاتی ،چاۓ بناتی اس کے آگے پیچھے پھرتی مگر ابا تو اپنے اکلوتے بیٹے جو تین بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تھا اس کو گلے کا ہار بنا لیتا۔ شازی حسرت بھری نگاہوں سے چھوٹے بھائی کو دیکھتی اپنے ابا کی محبت و شفقت کو ترستی رہ جاتی۔

بیٹیاں ماں باپ کا بہت بڑا سہارا ہوتی ہیں۔۔۔
زمانۂ جاہلیت میں اسلام سے قبل جب بیٹیوں کی پیدائش پہ اہل عرب شرمندگی محسوس کرتے تھے اور ان کو زندہ در گور کردیا کرتے تھے۔۔۔جبکہ اسلام اور ہمارے پیارے نبی نے اس کے برعکس ہمیشہ بیٹیوں سے والہانہ محبت کی جب حضرت فاطمتہ الزہرہ آپ کے گھر آتیں تو آپ ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے، آخری وقت تک اپنی بیٹیوں کو سینے سے لگا کر رکھا۔بیٹیوں سے محبت ان سے شفقت یہ بھی ہمارے نبی کی سنت ہے،لیکن بیٹوں کی محبت میں اس سنت کو بھلا دیا جاتا ہے۔

جب کسی بیٹی پہ ظلم ہوتا ہے ،کبھی اس کو غیرت کے نام پہ قتل کیا جاتا ہے کبھی ونی کیا جاتا ہے کبھی قرآن سے شادی کرکے اس کی زندگی تباہی کردی جاتی ہے اس کو وراثت سے بے دخل کردیا جاتا ہے،اس کے خلاف ظلم کا ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے بیٹیوں کے حقوق کو پامال کردیا جاتا ہے ان کو باپ کی شفقت سے محروم کردیا جاتا ہے،بیٹیوں کے ساتھ ظلم کرنے والوں میں بیٹے بھی پہلی صف میں کھڑے ہوتے ہیں،وہ بہنیں جو بچپن سے ان پر جان چھڑکتی ہیں اپنی خوشیوں کو ان کی خوشیوں پر قربان کر دیتی ہیں,جن بھائیوں کو بچپن میں اپنی گودوں میں کھلایاہوتا ہے ،ان کو ماں کی طرح پالا ہوتا ہے استاد بن کر پڑھایا ہوتا ہے،ان ہی کے خلاف وہی بھائ محاذ کھڑا کرکے نہ صرف خود ان پر ظلم و ذیادتیوں کے مرتکب ہوتے بلکہ باپ کو کبھی جبراً اور کبھی ان کے خلاف نفرت بھر کر ان سے دور کر دیتے ہیں۔

تو لوگ کہتے ہیں ارے کتنی بد نصیب بیٹی ہے۔۔۔۔ ارے او عقل کے اندھوں تم اللّٰہ کی رحمت کو بد نصیب کہتے ہو؟ اللہ کی رحمت کیسے بدنصیب ہوسکتی ہے، بد نصیب تو وہ لوگ ہیں جو اللّٰہ کی طرف سے عطا کی گئی رحمت کی نا قدری کرتے ہیں،بد نصیب تو وہ ہیں جو اللّٰہ کی رحمت کو ٹھکراتے ہیں، بد نصیب تو وہ ہیں جو بیٹوں کو اللّٰہ کی رحمت پر ترجیح دیتے ہیں،بیٹے تو اللہ کی دی ہوئی نعمت ہیں اور ہر نعمت کا حساب آخرت میں لیا جاۓ گا جبکہ اللّٰہ کی رحمت تو بے حساب بھی ہو تو اللّٰہ کبھی اس کا حساب نہیں کرے گا۔۔۔۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ عبادت کوئی دلیل نہیں معاملات سے پتہ چلتا ہے کہ خوفِ خدا ہے کہ نہیں!!!! صرف نمازیں روزے اس قرآن کی تلاوت جس میں بیٹیوں کے حقوق کا بیان ہے ،محض زبان سے پڑھنا ، جتنے سجدے کرلو سوال تو ہوگا!!!

کون ایسے ان بد نصیبوں کو سمجھاۓ جو اللّٰہ کی رحمت سے منہ پھیر لیتے ہیں۔۔۔
 

Sabeen Abbas
About the Author: Sabeen Abbas Read More Articles by Sabeen Abbas: 3 Articles with 1761 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.