ملک اورمعاشرے اجتماعی" عقل" اور" عدل" کے بل
پرتعمیر وترقی کی منازل طے کر تے ہیں۔اگرقوم کے اجتماعی" فیصلے "کو دل سے
تسلیم نہ کیاجائے تو پھر عوام اورحکام کے مابین "فاصلے "بڑھ جاتے ہیں ۔ کسی
فردواحد سے ایک خاندان کانظام نہیں چلتا توپورا ملک کس طرح چلے گا ،اگر
عوام کواقتدارمیں "شریک "کیاجائے توپھر حکمرانوں کواپنے کسی سیاسی" شریک"
سے خطرہ نہیں رہتا۔ون مین شو ،قومی شعور دبانے کیلئے مصنوعی اعدادوشمار کا
شورمچانے اورمسلسل شعبدہ بازی کرنے سے ریاست کاہرشعبہ بیمار ہوجاتا ہے،عوام
کا موروثیت برانڈ ارباب اقتدار کی نیت اورصلاحیت دونوں پرشبہ کرنا بیجا
نہیں۔جس ریاست اورمعاشرت میں نظام عدل ہرقسم کے دباؤ سے آزاد اورپوری طرح"
فعال" نہ ہو وہاں دنیا کی کوئی طاقت "زوال" کاراستہ نہیں روک سکتی ۔اگر
کوئی ریاست ناتواں اور نحیف ہوتووہ بھی ہرعہد کے مقتدر افراد سے مقدم ہوتی
ہے لہٰذاء عدلیہ سمیت ریاستی" اداروں" کیلئے مخصوص اورمنحوس سیاسی بونوں کے
منفی "ارادو ں" کوہرگز کوئی اہمیت نہیں دی جاسکتی۔سنجیدہ پاکستانیوں کو عدت
پرسیاست اور عدالت سے عداوت دونوں برداشت نہیں۔عدلیہ کیخلاف توہین
آمیزاوراشتعال انگیز بیانات دینے والے سیاسی شعبدہ باز اپنی" خطاؤں "کی
پاداش میں سخت "سزاؤں "کے مستحق ہیں۔واصف علی واصف ؒ نے کہا تھا"بادشاہ
کاگناہ ،گناہوں کابادشاہ ہے"،عام آدمی اورعوامی نمائندے کاگناہ برابر نہیں
ہوسکتا۔ منتخب سینیٹرز کا حلف متقاضی ہے وہ دوسروں سے زیادہ آئین اورقومی
اداروں کاتقدس ملحوظ خاطررکھیں ۔معاشرے کے کسی فرد یاطبقہ کو عزت ما ٓب
ججوں کیخلاف مہم جوئی یاتوہین عدالت کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
جوعدلیہ سمیت موجودہ یاسابقہ ججوں کامیڈیا ٹرائل کر تے ہیں ا نہیں ایوان
نہیں زندان میں ہونا چاہئے ۔مخصوص اہل سیاست کی عدالت سے عدوات کسی سے
پوشیدہ نہیں ،کوئی زندہ ضمیرمنصف اپنے خلاف ہونیوالی کسی مہم جوئی سے مرعوب
نہیں ہوتا ۔
چیف جسٹس (ر)میاں ثاقب نثار نے اپنے دور میں بحیثیت منصف جوکیا وہ آئین
وقانون کے دائرہ میں کیا جبکہ انہوں نے ہرطرح کے مقدمات میں ملزمان کواپنے
دفاع کابھرپورحق دیا ۔ججوں کی سروس کے دوران یاان کی ریٹائرمنٹ کے
بعدسیاستدانوں کا ان کے کسی مخصوص فیصلے کی بنیادپرانہیں تنقید یاتوہین
کانشانہ بنانا ہرگز قابل قبول نہیں،ریٹائرڈ ججوں پربوگس "الزام" یاان
کیخلاف "انتقام" سے ملک میں عدم استحکام پیداہوگا۔ا س طرح تونظام عدل ناکام
اوربدنام ہوکررہ جائے گا،پھرسیاستدانوں کی دیکھا دیکھی عام ملزمان یامجرمان
بھی ججوں پرذاتی "حملے "کیلئے نامناسب اورناقابل برداشت" جملے" استعمال
کرنا شروع کردیں گے لہٰذاء اس مجرمانہ روش کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔میاں
ثاقب نثار کی صورت میں بزرگ کسی برگد کے سایہ دار شجر کی مانند ہوتے ہیں،ان
کی ہر ایک "نصیحت "میں "نصرت" کا رازپنہاں ہوتا ہے،نصرت کیلئے نفرت کاتابوت
سمندر بردکرنا ہوگا۔ عام آدمی کے ہمدرد میاں ثاقب نثار (بابا رحمت) کادم
غنیمت ہے،انہوں نے منصف ہوتے ہوئے عام آدمی کے حقوق کی وکالت اورحفاظت
یقینی بنائی۔ماضی میں حکمران اورسیاستدان عوام کوڈیم کے نام پرڈیم فول
بناتے رہے لیکن میاں ثاقب نثار نے ایک ٹرسٹ وردی کی حیثیت سے ڈیم کی تعمیر
کابیڑااٹھایا اوراس کیلئے فنڈاکٹھا کیا اوروہ فنڈ آج بھی محفوظ ہاتھوں میں
ہے۔وہ ان دنوں لاہور میں اسلامیت ، انسانیت اورپاکستانیت سے وابستہ مختلف
موضوعات پرلیکچرز دے رہے ہیں، میں جب بھی میاں ثاقب نثار کے چیمبر میں جا
تاہوں وہاں معاشرے کے سنجیدہ طبقات کو ان کی بصیرت اورعلمیت سے مستفید ہو
تے ہوئے دیکھتا ہوں۔
عوام کوعدل تک رسائی میں" آسانی" اورملک میں انصاف کی " فراوانی" کیلئے
عدلیہ کی آزادی کاپہرہ دیناہوگا۔ایک عام انسان کیلئے منتخب ایوان سے زیادہ
انصا ف کے ایوان اہم ہیں،بدقسمتی سے زیادہ تر منتخب نمائندے نظام عدل کوسہل
بنانے کے حامی نہیں،ان کے بس میں ہوا تووہ اپنے" راج "کیلئے عوام
کواپناغلام اورـ"محتاج" بنائے رکھیں گے ۔یادرکھیں پراگندہ سیاست کی آڑ میں
عدالت سے عداوت ریاست اورآئین کیخلاف علم بغاوت بلندکرنے کے مترادف ہے ۔میں
سمجھتا ہوں ہرقسم کی سیاسی مداخلت ، دباؤاوردھونس سے آزاد عدالت ریاست کے
استحکام اور دوام کی ضمانت ہے۔ نظام عدل میں نقب لگانا قومی چوروں سے بیزار
اورمتنفرعوام کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ ماضی میں یقینا متنازعہ فیصلے بھی
ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد برقرار ہے ،وہ
آج بھی باہمی تنازعات کے نتیجہ میں عدالت کارخ کرتے ہیں۔اعتماد ،اعتباراورافتخار
کے معاملے میں عدالت آج بھی اہل سیاست کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہے ۔سیاست
توبہت مثبت ہے لیکن کاش ہمارے سبھی سیاستدان بھی تعمیری سوچ کے علمبردار
ہوتے،مخصوص سیاستدانوں نے ایک طرف معاشرت میں نقب لگاتے ہوئے عوام کوعوام
کادشمن بنایا دوسری طرف1971ء میں ریاست کابٹوارہ تک کردیا تھا ۔ہماری سیاسی
اورمذہبی پارٹیز نے قوم کو نام نہاد نظریات، صوبائیت ،منافرت اورلسانیت کی
بنیاد پرتقسیم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔وردی پوش اورشیروانی برانڈ آمریت
کیخلاف عدالت کی استقامت اورمزاحمت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،جس وقت
سیاستدان فوجی آمروں کے قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں اس وقت عدالت کوآئین کی
تشریحات کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے ۔
پچھلے دنوں لاہور ہائیکورٹ کے نیک نیت اور نیک نام چیف جسٹس ملک شہزاد احمد
خان نے پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں پری سروس ٹریننگ کورس کی پروقار اختتامی
تقریب سے پرجوش اورپرمغزاندازمیں خطاب کیا جو قومی میڈیاپرنشر اور اخبارات
کی زینت بناجبکہ ان کے ہرایک بیش قیمت جملے کو سوشل میڈیا پر بیحدسراہا
اوردوہرایاگیا۔ان کاخطاب عدلیہ کی آزادی کے حامی قانون دانوں کیلئے نصاب
کاایک اہم باب بن گیا۔ چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان کی تقریر میں تدبیر اور
تاثیر تھی ۔انہوں نے اپنے مخصوص اور منفرد اسلوب کے ساتھ مختلف آئینی نکات
اورعدالتی معاملات پرسیرحاصل روشنی ڈالی۔چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے اپنی
سحرانگیز شخصیت اوربصیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی کے ساتھ ساتھ
عدالت کی حمیت کے دفاع کے پختہ عزم کااعادہ کیا ۔ہمارے ہاں زیادہ تر ججوں
کو اپنے اپنے تعصب کی عینک کے ساتھ جج کیاجاتا ہے جوہرگز درست نہیں۔ہمارے
منصف انصاف کرتے ہیں لیکن ظاہر ہے بیک وقت دونوں فریق عدلیہ سے خوش نہیں رہ
سکتے ۔چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے بڑے استدلال اوراستقلال کے ساتھ
فرمایا، "ہم میں سے کوئی کسی بار، کسی ریاستی ادارے، کسی حکومت کے ساتھ
ہرگزتصادم نہیں چاہتا تاہم تالی دونوں ہاتھ سے بجے گی ـ"،ان کے تصورات میں
ویژن اور وزن ہے جبکہ عدالت کی رِٹ اور عزت کے بارے میں ان کی ترجیحات بھی
واضح ہیں۔
عزت دار وہ ہے جودوسروں کوعزت دے ، میں سمجھتا ہوں ہمارے اداروں کوایک
دوسرے کیلئے نیک ارادوں اورمثبت رویوں کامظاہرہ کرناہوگا۔چیف جسٹس نے درست
کہا،"دوسروں کا احترام اس وقت تک ہے جب آزادعدلیہ کا احترام کیا جائے گا"،
واقعی عزت کروائی جاتی ہے۔ان کی یہ بات بھی بجا تھی کہ اگر انصاف کے
ایوانوں کا احترام نہیں ہے تو ہم سے بھی امید نہ رکھیں کہ ہم ان کی تعظیم
کریں گے۔ان کاپر اعتمادانداز اورانتہائی وثوق سے یہ بھی کہنا تھا جو ہوگا
وہ آئین اور قانون کی روسے ہوگا،ہم قانون کے دائرہ سے باہر ہم کچھ نہیں
کریں گے۔ ہمارے نزدیک ہمیشہ آئین و قانون مقدم ر ہاہے،ہم کسی کی بی ٹیم
نہیں ہیں۔ ہم صرف اﷲ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں، یہ عدالتی نظام کسی طاقتور
کیلئے نہیں بنا ہے۔ نظام عدل معتوب اورستم زدہ افراد کی دادرسی اوراشک شوئی
کیلئے بنایا گیا ہے،مقدمات میں تاخیر کاایک بڑاسبب ہڑتال کلچر ہے۔انہوں نے
افسردہ لہجے میں کہا،لاہور میں گزشتہ دنوں 73 روز تک عدالتیں بند رہیں ۔
انہوں نے فرمایا ،صوبائی دارلحکومت میں جنگل کا قانون نافذ جبکہ عوام کے
انصاف تک رسائی کے حقوق کو ختم کردیا گیا تھا۔چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ کے
نزدیک 90 فیصد سے زائد قانون دان پروفیشنل ہیں،پروفیشنل وکلاء نے ہڑتال
کلچر کو ختم کرنے میں ان کا بھرپورساتھ دیا۔ عدالت عظمیٰ کے عزت مآب ججوں
نے بھی ہڑتال کلچر کی حوصلہ شکنی کے ضمن میں اپنا مثبت اورکلیدی کردار ادا
کیا۔ چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان عد لیہ کے تقدس کیلئے
پرامیداورپرعزم ہیں ۔انہوں نے درست فرمایا،عدل کرنا اﷲ تعالیٰ کی صفات میں
سے ایک ہے،کسی مصلحت یادباؤ کے بغیرانصاف کرنیوالے منصف یقینااﷲ ربّ العزت
کے مقرب اور منتخب افراد ہوتے ہیں ،ہرسچے منصف کی صمیم قلب سے عزت کرنا
ہمارا فرض اورہم پرقرض ہے۔ایک پروفیشنل جج نڈر ،سودوزیاں سے بے نیاز،
جرأتمند اور دانشمند ہوتا ہے۔ راقم کے نزدیک منصف کے مقدس پیشہ کو ملازمت
سمجھنا قابل ملامت ہے، منصف تو ایک ویژن اور مشن پرکاربندہوتے ہیں ۔ میں
سمجھتا ہوں عدلیہ کی آزادی کاپہرہ جبکہ عدالت کوبھرپورعزت کی فراہمی یقینی
بنائے بغیرملک میں انصاف کی فراوانی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا
۔ریاست اورقومی معیشت کی مضبوطی کیلئے سیاست سمیت عدالت میں مداخلت
بندکرناہوگی۔
|