جس کا کام اور نام

دنیا میں اکثر جگہوں پر نام اور ماحول کا اثر ہوتا ہے گوکہ یہ بھی انسانوں کے مستقل عمل اور محنت سے بنتا ہے۔ لیکن اکثریت محض نام دیکھتی ہے، مزید عمل نہیں۔۔ یا الجھتے ہوۓ بھی تبدیلی کی کوشش بھی نہیں کی جاتی۔

یہ زیادہ پڑھےلکھے مرد و خواتین دونوں کےلیے معلومہ اردو ادب سے مشہور رہا ہے کہ زیادہ پڑھنے سے خبطی ہوۓ جاتے ہیں یا ظاہری کسی رسم و قانون کو نہیں مانتے. جس تقریب میں کوئ لباس کی اہمیت جتاۓ یہ اپنے سب سے پرانے اور گھر میں پہنے جوڑے میں بھی جاسکتے ہیں. سادہ لوح دیہاتی گھڑے میں کپڑے محفوظ کرتے تھے کوئلے والی استری بھی نہ رکھتے تھے تو شہر میں پرانے سے شکن آلود جوڑے پہ کہا جاتا تھا, گھڑے سے نکالا پہن آۓ. یہ حضرات قصدا" جوڑا گھڑے میں ڈال اور نکال کے پہن لیتے ہیں, غریب کے یہاں چولہے کا ایندھن نہیں تو تم اسے بھی آگ لگاؤ. مرد زیادہ کمانے اور خواتین گھرداری میں قطعا" دلچسپی نہیں لیتیں سواۓ ضروریات کہ ناگزیریات کے. یہ بھی الگ جنگ ہے کہ عشق کو ناگزیر کیا جاۓ کہ ناگزیر حق بہرحال بزرگوں سے روایتی جنگ کے باوجود یہ زیادہ پڑھے لکھے عشق کو ناگزیر حد تک رکھنے کے ہی قائل ہیں یعنی اصل جاۓ دل کہ خانۂ دل است, بہ دیگر چنداں جاۓ نیست، ہاں عشق کولیگ یا علم و فن کا بھی ساتھی ہو تو الگ بات ہے. اس لیے دوسری شادی ہندو دھرم میں خصوصاً اور مشرق میں نصف بہتر کی دائمی رخصتی کے بعد بھی حدِ ادب کے تحت ضرورت نہیں کہی جاتی بلکہ یہ ہوس کہلاتی ہے۔ عشق کا تقاضہ پہلی دفعہ ناگزیر حق ہوتا ہے جو اکثر والدین زبردستی مسلط کردیتے ہیں، اس روایت کے تحت لوگ والدین کی نافرمانی کی جرأت نہ پائیں تو شادی کی روایت سمیت ہر قسم کی روایتی تعلیم کے منکر ہو بیٹھتے ہیں۔ ہماری نفسیات کی استاد نے کبھی یہ کہہ کر دل واقعی باغ باغ اور خوب ہرا بھرا یا سرسبز کر ڈالا کہ زیادہ ذہین لوگ بچپن سے روایتوں کے باغی ہوتے ہیں سو اکثر بچپن میں نکمے رہےہوتے ہیں ان کی درست تربیت باکمال لوگ دیتی ہے۔ بہرحال صاحبین یہ سچ ہے کہ ہم بچپن میں بھی روایتی تعلیم کے قطعا" منکر تھے. سو پہلی دفعہ اسکول بےحد شوق سے گۓ مگر دوچار دفعہ کے بعد ہم اسکول کے وقت سوجاتے. اٹھایا جاتا تو چیخیں ماری جاتیں جب کہ ہم ویسے چپ چپاتے آنسو بہانے کے بھی قائل نہ تھے. بلکہ ہماری خوش مزاجی و اخلاق سے والدین دونوں عاجز ہوجاتے تھے, ہم جہاں جاتے گھر بھر سے دوستی کرتے اور بلاتکلف بڑی بہنوں سمیت گھر کی ہر چیز بنا مانگے ذکر پہ عنایت کردیتے. سو پہلی دفعہ ربر, پینسل کے ڈبے لاکے اماں نے آدھے آدھے ہماری وجہ سے کیے. کیوں کہ ہم روز اسکول یا ٹیوشن میں دیگر محروم بچوں کو بانٹ آتے تھے. لنچ باکس بڑی بہنوں کے پاس ہوتا تھا, اگلے دن اسکول جاتے وقت اماں نے لنچ باکس خوب بھرا اور ہمیں دیا. " اچھا دوستوں کو بھی کھلادینا". ہم نے صاف منع کردیا اور شام کو ٹیوشن لےگۓ. ٹیوشن کی میڈم کو ہم سخت ناپسند کرتے تھے کیوں کہ وہ بچوں کو پیٹا کرتی تھیں. انہوں نے امی سے کہا, میں اسے تو نہیں مارتی مگر یہ مجھے بوڑھی ۔۔ کہتی ہے۔ بے شک منہ پہ پکار کے نہیں کہتی مگر میری اتنی عمر ہوگئ ہے بچوں کو پڑھاتے, لبوں کی حرکت سے سمجھ آتا ہے. ایسا .. کوئ بچہ نہیں آیا, حالاں کہ بچی ویسے ذہین اور فرماں دار ہے سارے پودوں سے چن کے چڑیا کے انڈے بھی لادیتی ہے مگر پیش کش پہ بھی کھاۓ نہیں جاتے . گھر پہ تفصیل معلوم کرکے ہم نے قاتل بھی بنا ڈالا اور عرصے تک مرغی کے انڈوں کو بھی ہاتھ نہ لگایا۔ اماں نے شاید یہ بہتر جانا کہ انہوں نے اس ٹیوشن سے ہٹاکے محلے کے ایک ایسے گھرانے کا بندوبست کیا جہاں دو ہی بہن بھائ تھے اور فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن ہولڈر , ہم ویسے بھی روز جاتے تھے. اور ان سے گذارش کی اسے ذرا خصوصی توجہ دو. کچھ آۓ گا تو ٹیچرز کی ڈانٹ نہ کھاۓ گی اور اسکول بھی جاۓ گی. ویسے سچ بات ہے کہ اس زمانے میں روف گارڈن ہم نے پہلی دفعہ پہلی مس کے گھر دیکھا اور عرصے تک یاد کرتے رہے۔

نئ مس سے ہم نے کہا، آپ کے گھر تو ہم ویسے بھی آتے تھے آپی نے اچھا نہیں کیا ۔۔ یہ بھی جیل ہوئ ( یہ ہم والدہ کو کہتے تھے، بڑے ماموؤں و دیگر سے سن کے جو ہر کام لگےبندھے انداز و دن پہ ہونے پہ کہا جاتا تھا)۔ دو چار دن گزرے, نئ مقرر کردہ ٹیوشن مس نے امی کو بلایا اور کہا اسے تو ساری کتابیں جیسے حفظ ہیں. میں نے تو بیچ بیچ میں سے بھی پوچھا ہے بس دھیان کھیل کود میں رہتا ہے, ابھی ہے بھی تو بہت چھوٹی. بات آئ گئ ہوگئ. ذرا بڑے ہوۓ تب بھی یہی معمول رہا تو اماں ازخود تحقیق کے لیے اسکول پہنچیں, ٹیچرز کہنے لگیں اتنی پیاری چھوٹی سی گڑیا ہے ہم تو اسے کبھی نہیں ڈانٹتے اتنی بڑی بڑی اس کے ساتھ لڑکیاں ہیں. سب آتا ہے مگر کلاس سے بھاگتی ہے. آخر ہماری ٹیوشن کی استاد کی مزاج داری کام آئ اور ہم نے بتادیا. بھئ ایک سے سبق یا ایک ہی سبق کتنے دن پڑھیں. کتاب تو چاردن میں ہم پڑھ لیتے ہیں. ہاں سائنس کے تجربے کرسکتے ہیں اب مگر کوئ لیب میں جانے نہیں دیتا. انہوں نے بھی ڈانٹ دیا, کوئ تیسری چوتھی جماعت کے بچوں کو بھی لیب میں لےجاتا ہے. اس کے بعد سے بہرحال روز چھوٹے بھائ کے ساتھ دو کتابیں معمول تھیں, ایک وہ خریدتے ایک ہم کبھی چار آنے کی عمرو عیار کی داستان مل جاتی تو کبھی آٹھ آنے میں مرجینا کی نئ چالاکی لاتے. کتاب ختم کرکے اپنے اور دوست کے سارے چھوٹے ان پڑھ بہن بھائیوں کو جمع کرکے سناتے پھر ہنڈکلیا کا وقت ہوجاتا. گھر میں سب کہتے. ہاں بھئ تین لڑکیاں برابر کی ہوگئیں اور تین لڑکے. ہنڈکلیا کے بعد کرکٹ کھیلا جاۓ گا. ہمارے تو لڑکے بھی پراٹھے سیکھ رہے ہیں ( ورنہ مشہور ہے کہ پڑھاکو لڑکیاں اور مرد ایک سے گھرداری میں کورے ہوتے ہیں)۔ شادی کے بعد نمبر دو بہنوئ جب ذرا بےتکلف ہوۓ تو ڈرائنگ روم میں سجی کتابوں کا جائزہ لیا گیا اور شوکی اور اشتیاق احمد سے تعارف پہ بےحد خوش ہوۓ۔ پھر ہم نے انہیں آگاہ کیا کہ ان کی کور ذوق بیگم نے پہلی دفعہ عمرو عیار کی زنبیل سجانے پہ ہمیں کتنا سنایا تھا۔۔ پاپا کے سارے دوست بھی ہمارا سارا ذخیرہ پڑھتے رہے ہیں۔ اب دوسو کتابیں دو ہاتھوں میں اٹھانی پڑتی ہیں۔ اور اب چارآنے والی ذخیم کتاب آٹھ آنے کی ہوگئ ہے اور اشتیاق احمد سیریز تو دو روپے کی ہوگئ ہے۔ شکر وہ تو لکھتے ہی ہر ہفتے ایک ہیں پھر کچھ وقت دیگر کاموں کو دینا بھی ضروری ہے اب تو ہم سب سےبڑے ہیں اور امی کیا کریں گی ہمارے بغیر۔ وہ بتانے لگیں چاۓ بھی اچھی ہوتی ہے کافی بھی صحیح بنالیتی ہے آلو آدھے گھنٹے میں تل لیتی ہے جب اپنا دل چاہے کہ چھوٹے کل گھر کے بچے فرمائش کردیں۔ البتہ ہم بس رات کو چاول کا دم ان سے بند کرواتے ہیں۔ اتنے کام کا ساتھ بھی غنیمت ہے، چھوٹے بھائ پانی کی بوتلیں بھرتے گرائیں تو یہ وائپر بھی لگا دیتی ہیں۔ بار بار بھاگنا نہیں پڑتا سچ میں بھئ ہماری معاون ہیں مگر بڑی آپا کی طرح چھوٹے بہن بھائیوں کوڈانتی نہیں تو دوستی ہے۔ یہ بڑی آپا آپ کی بیگم کو ہمارے تین چھوٹے طنزیہ کہتے ہیں مگر ان کی ڈانٹ سے ڈر سب سےبڑی بھی جاتی ہیں سو تیز کہلاتی ہیں۔ ہم چار پانچ برس کی عمر سے( غالبا" خاندانی روایات و یادداشت کے تحت ) ہنڈ کلیا بنانے لگے تھے. شروع میں خالصتا" بچکانہ یعنی بنیادی سچ پھر پھر لمبی گپ.. خیالی پلاؤ قطعا" نہیں. چولہا اصلی تھا کئ ننے ننے برتنوں و پتیلوں سمیت جو نانی کی طرف سے بڑی بہن کو چھٹی پہ دئیے گۓ تھے ( ان دنوں گیس عام نہ تھی سو لکڑی و مٹی کے تیل کے ساتھ لائق استعمال بھی تھا گو کہ ہمارے یہاں اس وقت بڑے اور واقعتا" ترقی یافتہ شہر کے بھی اعلی' رہائشی علاقہ ہونے کے سبب گیس تھی, یہی کوئ تیس .. برس پہلے, بالکل ہی بڑھیا کھوسٹ نہ سمجھ لے کہیں ہمیں نئ ننی دو عشرے پرانی و ذرا ایک آدھ .. عشرے چھوٹی نسل.. ( یہاں تحقیق کی گنجائش سدا رہتی ہے ). ہمارا ان چولھوں و برتنوں پہ نانی سے بڑا جھگڑا رہتا تھا کہ آخر ہم اس قدر لاڈلے کیوں نہ ہوۓ کہ ہمارے لیۓ بھی چھٹی پہ لاۓ جاتے. وہ روایتوں و بزرگی کی بات چھیڑ دیتیں. ہم نہ سمجھتے بھی سنتے اور پھر اظہار خفگی کرتے اٹھ جاتے, نئ کہانی تو نہیں سناتیں بس وہی کی وہی پرانی بات. یہاں تک کہ سب سے چھوٹی خالہ کی ضد پہ جب ہم دس کے اور وہ گیارہ برس سے کچھ اوپر کی تھیں ایک عدد نیا اور بڑا چولہا جب ان کے لیے آیا تو ہمارے لۓ بھی آیا ( یادداشت بخیر ). خیر چھ سات برس کی عمر تک ہم گھر کی بنی چاۓ اور بازاری بسکٹ, نمک پارے اور ذاتی خاندانی مٹھائ کی دکان کی مٹھائیوں سمیت بے شمار اشیا ذرا کچل مسل کے یا اور چیزیں ملا کے اپنی کاری گری کہہ کر گھر بھر کو ٹھنساتے رہے تو سب بخوشی کھالیتے تھے ( کیوں کہ پلیٹ, چمچ سب ہمارے سائز کے ہوتے تھے ) جب پہلی دفعہ چولہا جلا کے چاۓ بنی تو سواۓ نصف درجن کے قریب چھوٹے اور سگے چچازاد بہن بھائیوں کے کسی نے تعریف نہ کی. اماں نے چولہا چھین لیا تو رونے دھونے پہ دادی نے سمجھایا ابھی آگ جلاۓ بغیر ہی پکاؤ. ہم نے اس طرح پکانے کے فن کو ماننے سے انکار کردیا اور اگلے دن کئ بڑوں کی مداخلت کے بعد ملا چولہا لے کر چھت پہ پہنچ گۓ. جلد امی چچی تک یہ کارگزاری پہنچ گئ تو کچھ دن پابندی رہی پھر اللہ مسبب الاسباب ہے ( ہم ایسی اردو بولتے تھے آٹھ برس کی عمر سے سسپنس سے بسم اللہ ہوتے ہی, کام یہ اماں کا ہی تھا اردو کی کارکردگی جانچنے کو. گو وہ کہتی تھیں آٹھ کی بھی پوری نہ تھی پونے چار برس کی اسکول گئ تھی ( یہ اس زمانے میں غیر معمولی بات تھی, ہمارے پونے دو برس کی عمر میں نۓ پیدا شدہ چچازاد بھائ کو کہانیاں سناتے ہنسانے کی کوشش کرنے سمیت. اماں کے بقول پونے تین کی تھی مگر اسکول میں داخلہ اس وقت چار برس سے پہلے جائز نہ تھا اور کچھ نظر نہ لگ جاۓ تو ایک سال عمر بڑھا کے لکھوا دی گئ ( پرانے دور کی لڑکیوں کی سگی امائیں یوں سوتیلی ٹھہرتی تھیں شاید ) بہرحال ہم نے محلے میں نۓ آمد شدہ پڑوسیوں کی اپنی ہم سن بچی سے دوستی بڑھائ اور پھر ان کا خطرناک کوئ سوسالہ پرانا لکڑی کا زینہ طے کرکے ان کی چھت ہمارا نیا مطبخ ٹھہری. ہماری عربی کی استاد نہایت سختی سے ہر بچی کو عام الفاظ و عربی معمولات سکھاتی تھیں مگر ہم نے اسے اپنی کارکردگی خفیہ رکھنے کو استعمال کیا. دوست کی بھولی گاؤں کی تعلیم یافتہ اماں اسے مکتب کا شہری نام سمجھتی رہیں تاآنکہ ان کے سیدھے لگتے شوہر نامدار نے ہماری کئ گزری پہ پانی پھیر دیا. بہرحال بارہ کہ چودہ برس کی عمر میں ( یہ واقعی صحیح یاد نہیں ) ہمیں گھر کے کچن میں چاۓ بسکٹ ( اگر بناسکیں تو ) بنانے کی اجازت مل گئ. چچا ماموں ہمارے ہی ہاتھ کی چاۓ شوق سے پیتے تھے کیوں کہ ہم ہر دفعہ چاۓ چھانتے تھے اور جب وہ آدھا کپ اور اس سے بھی کم ہوتی تو ہم کمی دودھ سے پوری کرتے اور پھر گرم کرتے ابالتے اور بالآخر تیسری چوتھی کوشش میں کامیاب بھی ہوجاتے. چونکہ ہم پتیلی دھو کے ہی نہیں بلکہ وم سے مانجھ کے بھی اور بقول بڑی بہنوں کے چمکا کے رکھتے تھے تو اماں نے ہم پہ پابندی نہ لگائ ( ہم بارہ برس کے تھے تو بڑی بہنوں کو سسرال رخصت کردیا گیا تھا مگر سب سے بڑی اپنا ایف ایس سی مکمل کرنے تک کوئ دو برس باپ کے گھر ہی مقیم رہیں اور دوسری بھی ذرا جلدی آتی جاتی رہیں سو غالبا" یاداشت غیر یقینی ہے ). جب نانی کے گھر اس سے کافی بڑے ہوکے ہمارے شام کی چاۓ بنانے پہ پابندی لگی تو ہم نے ان سے کہا, آج پتہ چل گیا ہماری اماں سگی ہیں. انہوں نے کہا میں تجھے روز سیر بھر دودھ پلا سکتی ہوں مگر یہ تیری ربڑی چاۓ ہم پچاس لوگوں میں افورڈ نہیں کرسکتے. ہم نے سخت برا منایا اور باقی خالاؤں, ماموؤں حتی' کہ مامیوں تک کے روکنے کی کوشش کے باوجود دودن بعد ہی واپس چلے آۓ. بقول ہماری بڑی بہنوں کے جب دادی خود اپنے میکے یعنی اپنے بھائیوں کے گھر جاتی تھیں تب ہی ہم ان کے ساتھ ہفتہ بھر رک جاتے تھے ورنہ یوں ہی نانی سے جھگڑ کے ہنگامے کرکے واپس آجاتے اور وہ دادی سے کہتیں, تیری لاڈو ہمیں کچھ سمجھتی ہی نہیں سمدھیانہ بعد میں بنا ہے پہلے تیرے بھائ کا گھر بھی تو ہے. جب ہم دادی کی دیکھا دیکھی علاوہ رمضان کے بھی نماز پڑھنے لگے تو وہ ایسے لاڈ اٹھانے لگیں کہ بہنوں نے چالاک کا خطاب دے ڈالا.

بہرحال بات تو پکانے کی تھی وہیں چلتے ہیں. دراصل ہر کام یوں ہی بسم اللہ چاہتا ہے, ہم ردی پیپر والے سے پرانے انگریزی کھانے کے رسالے خریدتے. پھر ان کا مکمل ترجمہ پھر تجربہ ہوتا, ابا کہتے میری ماں کے ہاتھ والا ذائقہ ہے تو کبھی کبھی علاوہ چچی .. کے بہنیں بھی کہہ دیتیں وہ تو زیادہ تر دیسی بناتی تھیں مگر کیک بسکٹ تو ہمیشہ بازار سے ہی آۓ. ہم نے کبھی کسی کے حسد سے دل نہ دکھایا یہاں تک کہ کالج میں پہنچنے تک قریبی احباب سمیت بہنوں نے بھی کیک بسکٹ کا ماہر مان لیا اور گاہے ان کے سسرال یہ فرمائشی تحفے جانے لگے. اس چیز نے ہم میں اعتماد حد درجہ بھر دیا اور جب ہمارے اس وقت تک کے ناپسندیدہ کالج میں کھانے کے مقابلہ کا اعلان ہوا تو ہم نے حصہ لینے کا اعلان کردیا. ہوا یوں تھا کہ ہمارے گھر سے واقعتا" چند قدم دور اسکول اور پہلا کالج واقعتا" نامور بھی تھا یعنی اچھی شہرت کا حامل مگر وہاں انٹر کے بعد تعلیم کا سلسلہ نہ تھا. اور جب ہر سال دو سو کی جگہ دو ہزار درخواستیں پا کے وہ بہ امر مجبوری ہر گروپ میں چار سو لڑکیوں کو جگہ دینے لگے یوں کہ سائنسی تجربہ کے دوران اضافی لڑکیاں لیب کے باہری برآمدوں اور دیگر اضافی کلاسز کے دوران کالج کی راہداریوں میں بیٹھی رہتیں. کبھی اتفاقیہ سامنے پہ دل سے شکر ادا کرتے کہ ہم آرٹس گروپ میں ہیں کیوں کہ ہم فقط تین دن ہفتہ میں کالج جاتے تھے جب سائنس گروپ کی چھٹی ہوتی تھی . بقیہ دن ہم چھٹی پر ہوتے تھے مگر واقعتا" خوش نہ ہوتے تھے آپ کی مرضی مانیں کہ نہ مانیں. مگر اکثر مقابلوں کے اعلان اس دوران ہوتے اور عین وقت پہ بنا مقابلہ کے ناپاس ہوجاتے. یہ شہر کا سب سے نامور کالج تھا سو کراچی یونیورسٹی دیکھ کر ہم نے ایک کزن کے سامنے مان لیا کہ حیدرآباد تو واقعی چھوٹا سا ہے. جو دوسرا کالج تھا وہ بدنام تھا کہ کسی گاؤں کی حویلی طرح بلڈنگ لق و دق ہے اور سندھ بھر سے طے شدہ دیہہ کے چالیس فیصد کوٹہ پر اسی فیصد سادہ لوح دیہاتی لڑکیاں اسکول کی بلڈنگ نہ ہونے کے سبب نقل سے ڈی گریڈ لے کے یہاں داخلہ حاصل کرلیتی ہیں. مگر فی الحال علاوہ یونیورسٹی کے ایم اے تک تعلیم یہیں حاصل کی جاسکتی ہے کیوں کہ یہ بدنام کالجز میں سب سے نچلا درجہ رکھتا تھا.ورنہ گھر سے قریب اس سے بھی بدنام بی اے تک دو مزید کالج بھی تھے وہاں ہم نے جانے سے ازخود منع کردیا. یونیورسٹی کےلیے اماں نے اٹھارہ برس میں بھی باقی چھ ماہ کا عذر یوں ہی کہا اور نازک صحت کی آڑ میں ابا کو قائل کرلیا, یونیورسٹی کتنی مضر صحت ہے. ہم سے انہوں نے کہا, بےشک دو برس بعد پھر کالج بدل لینا اب بھی برا نہ مناتے کہ یعنی کہ دربدری مقدر ہوئ.

بہرحال یہاں پندرہ دن پہلے ہماری نفسیات کی استاد نے ' کوکنگ کنٹیسٹ ' سے آگاہ کردیا یہ کہتے, ویسے مجھے پکانا نہیں آتا مگر میں بھی جج ہوں گی. دنیا جہان کی ترکیبیں چھان کے اورنج کیک کی ترکیب منتخب کی گئ. یہ ہم نے بھی اس اہم موقع پہ پہلی دفعہ بنانا تھا سو رسالے اور اپنی انگریزی دونوں پہ مشکوک ہوتے ابا سے کہا. آج آپ کی دوستی کام آۓ گی, شہر کی سب سے مشہور بیکری کے مالک بھی آپ کے دوست ہیں وہاں سے ہمیں اس کی ترکیب اردو میں لکھوا کے لادیجئے. ابا نے پلکیں جھپکاتے کہا, انگریزی تو انہیں خود بھی نہ آتی ہوگی نہ باورچی کو بےشک انگریزی مٹھائیاں بناتے ہیں. ہم نے اترے چہرے سے ہدایت کی, ان سے پکا پوچھنا ہے کہ اس کی سجاوٹ نہیں کی جاتی بس ذرا سا رس اوپر سے انڈیل دیتے ہیں وہ بھی بیک کرتے. بہرحال ترکیب مع کل سامان مل گئ ابا نے بسکٹ کھاتے بتایا, صبح کا ناشتہ بھی مفت میں لایا ہوں آخر کو دوست ہیں.

صبح سویرے ترکیب سے کیک بناتے پھر اماں کے تازہ بہ تازہ نۓ لاۓ اسٹیل کے انگریزی طرز کے تھال میں سجاتے ( وہ تھال شیشے کے روایتی انگریزی تھالوں سے چارگنا دام کا تھا مگر اس زمانے میں کوئ چاندنی کا دکان دار بھی پلیٹر نہ بولتا تھا آج کل یہ پائریکس کہے جاتے ہیں کہ کمپنی کا نام ہے ہم نے تحقیق نہیں کی ) اور پھر بھاگتے بھاگتے رکشہ پکڑتے بھی ہم ذرا لیٹ ہوگۓ. ساری چیزیں نہایت عمدہ لگ رہی تھیں کیوں کہ ہم تو تھے ہی اناڑی .. گھر کی کل خواتین متفق تھیں. گھرداری کا ماہر مسالے اور سارے گھر کے کام کا ناپ تول جانتا ہے, بچے نرا ذائقہ یا چیز کا چہرا و سہرا جانچتے ہیں. نتیجے کا اعلان ہوا تو ہم تیسری پوزیشن تک بھی ذرا دکھی ہوچکے تھے مگر ہم تینوں نمبروں پہ نہ تھے, چپ چاپ کھڑے تھے عادتا" روۓ نہیں. اماں کہتی تھیں اس سے بڑی اور چھوٹی دونوں ذرا سی بات پہ گھر بھر کو رلا دیتی تھیں یہ صابرہ بیماری میں دانے نکلے پورے پاؤں سوج گۓ تب بھی چپ چاپ لیٹی رہتیں تھیں. بس چپ سے ناراضگی اور لیٹے رہنے سے بیماری کا پتہ چلتا تھا. نفسیات کی ٹیچر جنہوں نے اکسایا تھا وہ مقابلے کی ایک اور جج کے ساتھ ہمارے پاس آئیں جو وائس پرنسپل تھیں اور کافی پرانی شادی شدہ یعنی طے شدہ ماہر امور گھرداری, وہ بولیں. یہ پہلا موقع تھا .. بہرحال آپ کا کیک واقعی بہت مزے دار تھا مگر ابھی آپ اس فن میں کوری ہیں. آپ سے تین بنیادی غلطیاں ہوئی ہیں, ایک کیک سجایا نہیں دوسرے آپ اسٹیل کے تھال میں لائیں. اچھا شیشے کا برتن نہ تھا تو پلاسٹک میں ہی لے آتیں. اور تیسرے آپ نے میدہ زیادہ ڈال دیا. ہم اتنے دکھی ہوچکے تھے ان کی علمیت و اس میدان کی بزرگی سے کہ کوئ جواب بھی نہ دے سکے.

واپسی کے سفر کے راستےمیں کلاس کی کافی لڑکیوں نے کھایا اور تبصرہ ہوا. "پوزیشن لینے والی لڑکیاں جان پہچان والیاں ہوں گی. یہاں تو کسی چیز کا کوئ معیار ہی نہیں گاؤں سے آئیں شہزادیاں ہیں اکثر کیک بسکٹ میں میدے کی مقدار تو ہماری امی نہیں جانچ سکتیں. اب روٹی میں بھی آٹا زیادہ ہوسکتا ہے آخر کو نمک پانی کا بھی حساب رکھنا پڑتا ہے".

گھر میں ابا بھونچکا, شہر کی نامور بیکری ہی نہیں پنجاب اور کراچی کے لوگ بھی لیجاتے ہیں اور باہر بھی سپلائ ہوتا ہے. یہ پھٹیچر کالج والے وہاں کے کسی باورچی کو صدر یا مہمان خصوصی بھی نہ بناتے بلکہ صرف جیوری ممبر ہی بنادیتے تو غریب خوش ہوجاتا اور ہم بھی نتیجہ مشکوک نہ کہتے. گھر کی خواتین نے بھی یوں ہی ہمدردی کی مگر رات کو ابا آۓ تو کہنے لگے بیکری گیا تھا. وہاں کہہ رہے تھے, چلو جی ہوسکتا ہے آپ کی بچی سے بھی ماہر ہوں مگر یہ میدہ تو کیک پیسٹری کی بنیاد ہے. چینی ہم بھی جیسے دام ہوں کم زیادہ کردیتے ہیں اور انڈا بہت لوگ نہیں کھاتے یہاں کے آباد ہندوؤں سمیت اور مکھن تو ہوتا ہی مہنگا ہے. مقابلے کا معاملہ تھا ہر چیز بہتر و برتر دی تھی سواۓ میدہ کے. آپ ان معزز ماہر خاتون کو ہماری طرف سے دعوت نامہ بھجوا دیجیۓ. بس ایک دفعہ آکے اپنے بڑھیا کیک کی ترکیب ہمیں بھی سکھا جائیے. پانچ دس ہزار کی تو بات ہی نہیں خاص ترکیب کے عوض ہم پچاس ہزار بھی دے سکتے ہیں اور ان کا نام بھی جیسے ملتان کے سوہن حلوہ پہ لکھا ہوتا ہے, حافظ... کا مشہور حلوہ.
 

Arshiya Ahsam
About the Author: Arshiya Ahsam Read More Articles by Arshiya Ahsam: 2 Articles with 1894 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.