انسانی تاریخ کے مطالعے سے اس بات پر مہر تائید ثبت ہوتی
ہے کہ بنی نوع اِنسان کا اپنے حال پر عدم اطمینان کا اظہار اور آنے والی
نسلوں کے لیے بہترین مستقبل کی دریافت روز اول سے انسانی فطرت کا خاصہ رہی
ہے۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ انسان نے غاروں اور چٹانوں میں رہنے، درختوں کے
پتوں سے ستر پوشی کرنے اور گردش مہ و سال سے بے خبر بے لگام زندگی گزارنے
کو اسی فطری خاصیت اور بقا کی خاطر تج دی کہ ان کا آنے والا کل آج کی نسبت
محفوظ اور بہتر ہوجاٸے۔ اس مثبت فطری جستجو اور مشترکہ مفادات کے حصول کے
لیے ہم خیال انسانی گروہوں نے چند بنیادی اصولوں پر متفق ہونے کے بعد
گروہوں کی شکل میں رہائش اختیار کی۔ جس سے نہ صرف ابتداٸی انسانی معاشرے کی
تشکیل ہوئی، بلکہ اسی نو تشکیل شدہ انسانی معاشرے کی مستقل بقا اور فلاح و
بہبود کے لیے قوانین، اقدار، روایات، خیر و شر اور سزا و جزا کے تصورات بھی
متعارف ہونے لگے۔
جن انسانی معاشروں نے خود احتسابی، سماجی عدل وانصاف، تعلیم و تربیت،
احترام قانون، معاشی مساوات، مذہبی رواداری ، لسانی تحمل اور سیاسی بلوغت
کو اپنا شعار بنایا، وہی معاشرے دنیا میں ترقی یافتہ، مثالی اور قابل تقلید
بن گئے۔ مسائل سے پاک معاشرے کا تصور شروع ہی دن سے بنی نوع انسان کا خواب
رہا ہے، مگر فی زمانہ دنیا میں مساٸل سے آزاد معاشروں کا وجود عنقا ہوتا
جارہا ہے۔ بنیادی طور پر مسائل کی افراط و تفریط یعنی مساٸل کی کمی و بیشی
کی بنیاد پر انسانی معاشروں کو مثالی معاشروں یا زوال پذیر معاشروں کی
فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک مثالی معاشرہ بیک جنبشِ قلم اور آنکھ
جھپکنے میں وجود میں نہیں آتا، اس کے پیچھے ہزاروں سالوں پر محیط انسانی
کوششیں کارفرما ہوتی ہیں۔ ان کاوشوں کا عملی مظاہرہ ہمیں ادیان و الہامی
کتب کے نزول، انبیاۓ کرام کی بعثت، مذہبی تعلیمات کی پیروی، فلاسفہ کی حکمت
بھری باتوں، ادیبوں کے فن پاروں اور سائنسی محیرالعقول ایجادات کی صورت میں
دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان سب کا نصب العین صرف حضرت انسان کا آشیانہ اور
ٹھکانہ امن و آشتی کا گہوارہ بنانا ہے۔ دنیا کو پرامن اور مثالی بنانے کے
لیے منزل مقصود کی تعین ازحد ضروری ہے، لیکن بھٹکے ہوئے راستوں کے مسافر
کھبی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ زوال پذیر
معاشروں کے مقابلے میں مثالی معاشروں کی موجودگی اونٹ کے منہ میں زیرے کے
برابر ہے۔ ہم سے پہلے بھی مختلف اقوام اور معاشرے مذکورہ بالا سنگین غلطیوں
کی پاداش میں صفحہ ہستی سے مٹ گٸے ہیں۔ قرآن حکیم اس طرح کے زوال پزیر
معاشروں کے انجام کا شاہد ہے۔
انسانی معاشرے میں فرد واحد کو بنیادی اکائی کی اہمیت حاصل ہے۔ معاشرہ
مختلف انسانوں کے اجتماعی رویوں، مجموعی طرز فکر، معاشرتی اقدار اور اشتراک
عمل کی بنا پر اپنی سمت متعین کرلیتا ہے۔ معاشرے کو کل اور فرد واحد کو جزو
کی اہمیت حاصل ہے۔ یاد رہے کہ ہمیشہ جزو کا منفی کردار کل کے لیے زوال، اور
مثبت کردار استحکام کا باعث بنتا ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
مذکورہ بالا شعر کے معنوی پس منظر سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ معاشرتی
ترقی اور بگاڑ کا بوجھ فرد واحد کے ناتواں کاندھوں پر ہے۔ اس کے برعکس،
ہمارے اذہان میں یہ بات سرائیت کر گٸی ہے کہ فرد واحد کی کوشیش سماجی تغیر
کا پیش خیمہ ثابت نہیں ہوسکتیں۔ جو فی الحقیقت سچائی کا سامنا نہ کرنے،
اپنے حصے کی قربانی سے دریغ کرنے اور راہِ فرار اختیار کرنے کے مترادف ہے۔
فرد کو ہر حال میں اپنے حصے کا دیا جلانا ہوگا، ورنہ اندھیر نگری میں صرف
ظلمتوں کا راج ہوگا۔
المختصر، مثالی معاشرے کا قیام مثالی افراد کی رہین منت ہوتی ہے۔ جب تک فرد
خود مثالی بننے کی کوشش نہیں کرتا، تب تک ایک مثالی معاشرے کا قیام صرف
دیوانے کا خواب رہے گا۔ بدقسمتی سے شدید مادیت پرستی میں مبتلا، خارجی
عوامل و حوادث سے بے خبر اور خواہشات نفسانی کے ملبے تلے دبے فرد کو مثالی
بننے یا ادراک ذات کرنے کی فرصت تک نہیں ملتی۔ وہ انسان جس کو اللّٰہ
تعالیٰ نے اپنا نائب مقرر کرکے تسخیر کائنات کے لیے دنیا میں بھیجا، وہ خود
کائنات کے ہاتھوں تسخیر ہو کر مغلوب و محکوم بن گیا ہے۔ اسی بابت علامہ
اقبال نے فرد کو اپنی ذات کی اہمیت کا احساس دلانے اور فرد اور معاشرے کے
درمیان باہمی ربط اُجاگر کرنے کےلئے اپنی شاعری کے زریعے خودی اور بے خودی
کا تصور پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں، علامہ نے فرد کو مثالی صفات سے متصف کرنے
کے لیے شاہین، مرد مومن، بندہ آفاقی، مرد حق اور مرد قلندر جیسے اسما سے
پکارا ہے۔ من الحیث المجموع، ہمیں تخلیق انسانیت، ادراک ذات اور عرفان نفس
کے حوالے سے شعور و آگہی حاصل کرنے کے لیے تعلیمات خودی پر عمل پیرا ہونے
کی ضرورت ہے۔ ایک فرد اپنی خودی کی تعمیر و تربیت اس طرح کریں کہ اطاعت
خداوندی کے ساتھ ساتھ وہ لامحدود دولت کے حصول کے لا لچ سے اپنا دامن آلودہ
ہونے سے بچاۓ، فقر و استغنا کے صبر آزما راستے پر گامزن ہوجاۓ اور خواہشات
نفسانی پر کنٹرول حاصل کریں۔ دور جدید میں مادے کی اہمیت سے انکار ممکن
نہیں، لیکن مادیت پرستی میں مبتلا انسان اگر روحانی اقدار، سماجی قاعدے اور
قوانین فطرت کو اپنے اوپر بوجھ تصور کرنے کے بجائے کچھ سماجی پابندیاں
اجتماعیت کی خاطر خندہ پیشانی سے قبول کریں اور ہر قسم کی شخصی آزادی، مسرت
اور ذاتی مفادات کو اجتماعی مفادات کی خاطر بالائے طاق رکھ کر معاشرے کے
ساتھ روابط مضبوط رکھیں تو ایک مثالی معاشرے کا قیام ممکن ہے۔ ایک ڈالی بھی
فصل بہار کی امید پر درخت سے مضبوط تعلق استوار کرنے کے بعد برگ وبار لاتی
ہے۔
اگر فرد فلسفہ خودی اور بے خودی سی آگاہ ہوجاۓ اور مثالی معاشرے کی تشکیل
میں اپنی تمام تر تواناٸیاں صرف کردیں تو اس معاشرے میں بلاامتیاز کسی رنگ،
نسل، قوم، قبیلے اور عقیدے کے لوگ بخوشی زندگی بسر کر سکیں گے، امن عامہ کا
مسئلہ نہیں ہوگا، جزا اور سزا کا مربوط نظام ہوگا، میرٹ اور شفافیت اولین
ترجیح ہوگی، انسانی خون ارزاں نہ ہوگا، طبقاتی تفریق اور استحصال کا خاتمہ
ہوگا، سماجی اور تہذیبی بنیادیں کھوکھلی کرنے والے سماج دشمن عناصر کا سورج
رو بہ زوال ہوگا، لاچاروں اور مظلوموں کی بروقت دادرسی ہوگی، ہر سو برداشت
اور رواداری کی فضا قائم ہوگی، احترام آدمیت ہمہ وقت جواں ہوگا، عدل و
انصاف کا بول بالا ہوگا، ریاکاری نہیں ہوگی اور سب سے بڑھ کر کرہ ارض پر
حضرت انسان کی عمر میں بھی اضافہ ہوگا۔
|