مایوس لوگ

کاغذ قلم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ معاشروں کے چہرے بگاڑ دیتی ہے

مایوس لوگ عوام کو شہر خاموشاں کی طرف لیجانے میں اپنا مرکزی کردار ادا کرتے ہیں
ہار جیت کھیل کا پہلا اصول ہے آج نہیں تو کل جیت جائیں گے۔۔انسان کی لڑائی انسان سے نہیں صرف ایک انسان ہے اور وہ انسان میں خود ہوں میں نے اکثر لوگ دیکھے ہیں
ہار کے خوف سے اپنا سب کچھ ہار جاتے ہیں اور ان میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنا سب کچھ ہار کر بھی جیت کے جذبے سے مفر نہیں ہوتے اور وہ ہمیشہ کسی بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں فطری مشاہدے انسانوں کے لئے سبق ہوتے ہیں
بہادر اپنے اندر کی برائی کو مار دیتے ہیں جس سے معاشرے شفاف ہو جاتے ہیں اچھے لوگ اچھے معاشرے کے خواب دیکھتے ہی نہیں عملی طور پر ثابت قدم بھی رہتے ہیں شریف زادے شریف ماحول۔میں نمود پاتے ہیں

جنگجو بہادر وہ ہوتا ہے جو اپنی توانائیاں لوگوں کو بچانے میں صرف کرے ۔بہادری اپنے دفاع کے کام آتی ہے لوگوں پر ستم ڈھانے والے بہادر نہیں ہوتے طاقت کے زور پر کوئی حکومت قائم نہیں ہو سکتی فقط آمریت ہوتی ہے حکومت لوگوں کو دلوں پر ہوتی ہے لوگ پریشان ہوں تو ایک دوسرے سے نفرت بڑھتی جاتی ہے جانے کیوں ماضی کی طرح صراحیوں میں زہر گھول دیے گئے ہیں کاغذ قلم دوات کی روشنیاں مانند پڑتی جا رہی ہیں
شکوہ زور پکڑ رہا ہے شکر کم ہوتا جا رہا ہے
سنا تھا بہادر ی مومن کا زیور ہونا چاہیے
چھوٹے سے چھوٹے انسان سے محبت انسانیت کی معراج ہے سب پر ایک دوسرے کی جان بچانا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے۔
بے شک دنیا و آخرت میں اس کا اجر موجود ہے
۔۔۔برے خیالات ہی برائی کی جڑ ہوتے ہیں اپنے اندر اچھے خیالات کو موقع دیں تا کہ سندر خیال آپ کی شخصیت کو نکھا ر نے کے کام آئیں
ہمارے ذہنوں میں مایوسی کی مقدار بلحاظ اوسط مقدار اخلاط اضافی ہوتا جا رہا ہے یہ ایسا نوشی مرض ہے جو مسلسل پھیلتا ہی جا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں مایوسی شیطانی طاقتوں میں سے طاقت ہی نہیں بلکہ ایک ہتھیار ہے اور سائنسی طور پر یہ صدیوں سے بات تسلیم کی جا چکی ہے کہ شیطانی طاقت اذہان مفلوج کر رہی ہیں
اور لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو رہے سائنس ثابت کر چکی ہے انسان اپنی قوت ارادی سے کینسر جیسی بیماری کو ہرا سکتا ہے ۔۔مگر میں حیران کو لوگ مایوسی جیسی بیماری کو کیوں نہیں ہرا سکے
توکل والے بھوکے مرتے نہیں دیکھے ہاں مگر اپنی تدابیر سینا جھپٹی۔لوٹ کھسوٹ۔طاقت ایک مرحلہ بن کے گزر جاتی ہے اور کیے اعمال آخری انسان تک کے زہن میں نقش رہتے ہیں جو کام نقش ہوتے ہیں
آئیے میں اور آپ مل کر وہ نقشہ تلاش کریں جس سے مایوسی کا گلہ دبایا جائے
انسانیت پر ظلم نہیں کرتے لوگوں کو ازیتیں دینا چھوڑ دو لفظ ازیت سے میری تو چیخیں نکل جاتی ہے
نہ جانے آپکے قلم کے حلق سے کیسے اتر جاتی ہے
صدیوں پہلے ہوئے ظلم بھی میری آنکھوں میں آکر ٹھہر جاتے ہیں اور مجھ سے انسانیت کا سوال پوچھتے ہیں قلم سے لئے گئے عہد کو بار بار ٹٹولتے ہیں روز اپنی خطائوں کی ضد میں آکر شرمندہ ہو نے سے بہتر روشنی کی بات روشن کر کے اپنی زمہ داری پوری کی جائے
آخر ایک دن ہم لوگوں سے لڑتے لڑتے تھک جائیں گے لڑائی جیت نہیں خاتمےکا نتیجہ ہے کاغذ قلم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ معاشروں کے چہرے بگاڑ دیتی ہے

کس ازیت کے کنارے ہے بسیرا میرا
وقت شب روز مری سوچ بکھر جاتی ہے
سیف علی عدیل
 

Saif Adeel
About the Author: Saif Adeel Read More Articles by Saif Adeel: 19 Articles with 24116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.