*1- جھوٹ بولنا* ۔
بچوں کے ساتھ جھوٹ بولنا ہمارے ہاں اتنا عام ہے کہ اسکو جھوٹ سمجھا ہی
نہیں جاتا۔ اسکی اگر ساری مثالیں لکھنے بیٹھوں تو آرٹیکل اسی میں ختم ہو
جائے گا لیکن بات سمجھانے کے لئے کچھ کا تذکرہ ضروری ہے۔
*- بچوں کو سلانے کے لئے اصولاً* ہمیں چاہیے کہ اسکے ساتھ بیٹھ/لیٹ کر اس
پر معوذتین اور آیتہ الکرسی پڑھیں اور اسکو بتائیں کہ اب آپ آرام سے سو
جائیں، فرشتے ساری رات آپکی حفاظت کریں گے، لیکن ہوتا کچھ یوں ہے کہ ڈرانے
دھمکانے والے کام شروع ہو جاتے ہیں کہ مائی جھلی آ جائے گی، بِلّا آ جائے
گا۔ ایک تو جھوٹ بولا، پھر بچے کو ڈرا کے سلایا، تیسرا اسکے دل میں ایک
بےنام سا خوف ڈال دیا کہ اب جب وہ کسی بہت بوڑھی عورت کو یا بلی کو دیکھتا
ہے تو پریشان ہو کر چھپنے لگ جاتا ہے۔
*- بازار جانا ہو یا کسی بھی* ایسی جگہ کہ بچہ ساتھ نہیں جا رہا، اسکو یہ
کہہ کر جانا کہ "ٹیکا' لگوانے جا رہے ہیں، یا ڈاکٹر کے پاس جا رہے ہیں۔
جھوٹ کے ساتھ دوسرا بڑا نقصان یہ ہوا کہ ڈاکٹر کا سخت خوف بچے کے دل میں
بیٹھ جاتا ہے۔
*- اپنے پاس بلانے کے لئے مٹھی* بند کر کے چھوٹے بچوں کو کہنا کہ یہ دیکھو
میرے پاس ٹافی ہے۔ یا یہ کہ میرے پاس آؤ، پھر میں آپ کو فلاں چیز دلواؤں گا،
جو کبھی دلوائی نہیں جاتی۔
- *چھوٹے بچے جب کھانے سے* انکاری ہوں، انکو انکی پسند کی چیز مثلاً چپس
وغیرہ دکھا کر منہ کھلوانا لیکن چپس کی بجائے کھانا منہ میں ڈالنا۔ یعنی
کچھ اور دکھا کر دھوکے سے کچھ اور کھلانا۔۔ پاکستان میں ہم کسی کے ہاں
مہمان گئے۔ کوک دیکھ کر تین سالہ احمد نے بھی فرمائش کی۔ گلاس میں تھوڑی سی
کوک اور باقی پانی ملا کر جب میں احمد کو پکڑانے لگی تو میزبان حیران لہجے
میں پوچھنے لگیں کہ آپ نے اسکے سامنے پانی ملا دیا؟ ہم تو چھپ کر ملا کر
دیتے ہیں۔
- *بچوں کے ہاتھ سے چیز چھین کر جلدی سے کہیں چھپا دینا* اور کہنا کہ چڑیا
لے گئی۔ بچہ اگر آپ کے سمجھانے کے باوجود چیز نہیں واپس کر رہا اور آپکو
زبردستی اسکے ہاتھ سے لینی بھی پڑے تو بتا دیں کہ بیٹا، یہ ٹوٹ جائے
گی/آپکو چوٹ لگ جائے گی اسلیے ماما آپکو یہ نہیں دے سکتیں۔ بات ختم! جھوٹ
کی ضرورت ہی کیا ہے؟!
- *جھوٹ بولنے سے بچے کو روکنے کے لئے ہم خود جھوٹ بول دیتے ہیں کہ زبان
کالی ہو* جائے گی۔ ہم چھوٹے سے بچے کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ سچ بولنا اللہ
تعالی کو بہت پسند ہے۔ آپ سچ بول دیں، میں آپکو کچھ نہیں کہوں گی۔ جھوٹ
بولنے کے پیچھے بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ ڈانٹ پڑ جائے گی۔ تو پکا اصول بنا
لیں کہ سچ بولنے پر بچے کو ڈانٹنا نہیں ہے۔ نرمی سے سمجھا ضرور دیں اور
ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ آپ نے سچ بولا ہے اسلئے میں آپ کو کچھ نہیں کہوں
گی/گا۔
*اسکے علاوہ جھوٹی سزائیں اور جھوٹے انعامات!! رونا بند کر دو* تو پورا ڈبہ
چاکلیٹ کا دلواؤں گی، یا آپ کو وہ کار یا گڑیا دلواؤں گی جو اس دن مارکیٹ
میں دیکھی تھی۔۔۔۔ اور سزائیں ایسی جو ممکن ہی نہ ہوں جیسے آئیندہ آپکو
کبھی ساتھ نہیں لے کر جائیں گے، سارا دن کمرے میں بند رکھوں گی۔۔۔۔ آپ خود
اپنے آپ کو دیکھئے کہ جس سزا یا انعام کا وعدہ آپ بچے سے کرتے ہیں، کیا وہ
پورا بھی کیا جاتا ہے یا "جوشِ خطابت" میں منہ سے نکل جاتا ہے؟
*2- غلط ناموں سے پکارنا* ۔
چھوٹے بچوں کو لاڈ سے 'گندہ بچہ' کہنا ہمارے یہاں بہت عام ہے۔ ہم بچوں کو
لاڈ سے کیوں نہ 'میرا پیارا بیٹا، میرا اچھا بیٹا' کہہ لیں۔ اس سے بھی بڑھ
کر بچوں کے لئے شیطان کا لفظ استعمال کرنا۔ شیطان تو مردود ہے، اللہ کی
رحمت سے دور، تو یہ نہ کہیں کہ بچہ شیطانیاں کر رہا ہے، بہت شیطان ہے۔ اسکی
بجائے شرارتی کہہ لیجیے۔
جب بچے ذرا بڑے ہو جاتے ہیں تب بھی نام رکھنے کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اور بچوں کی موجودگی میں ہی ہر ایک کے سامنے ان ناموں اور خوبیوں/خامیوں کا
تذکرہ کیا جاتا ہے۔ والدین کی رائے، اچھی ہو یا بری *، بچے جب بار بار سنتے
ہیں* *تو کہیں نہ کہیں اسی رائے کے مطابق ڈھل جاتے ہیں۔ ریسرچ* *سے پتہ
چلتا ہے کہ جو بات ہم اپنے ذہن میں ڈال لیتے ہیں، ہم* *اسی کے مطابق عمل کر
رہے ہوتے* ہیں۔ 'بالکل احمق ہو، کبھی کوئی کام صحیح کر ہی نہیں سکتے'، 'بہن
کو دیکھو کتنی تیز ہو، تم اتنے سست ہو کہ کام کہنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔
اردو پڑھنا میرے بیٹے کو بالکل نہیں پسند، بیٹی ہماری بالکل 'مائی منڈا'
ہے، چھوٹا بیٹا کسی سے ملنا بات کرنا پسند نہیں کرتا'۔۔۔۔ یہ سب باتیں جب
بچوں کے سامنے دہرائی جاتی رہتی ہیں، تو پہلے انکی طبیعت میں جو صرف ایک
رجحان تھا، اب ایک پکی عادت بن کر سامنے آ جاتا ہے۔ کوشش کریں کہ بچے کی
خوبیوں کو ہی ہائی لائیٹ کریں۔
*3 - موازنہ کرنا*
ہر بچہ منفرد ہے۔ اسکا اپنا مزاج، اپنے رجحانات، اپنی پسند ناپسند، کام
سیکھنے/کرنے کی اپنی رفتار ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک بچہ سوشل جبکہ دوسرا
خاموش طبع ہو، ایک صفائی پسند اور آرگنائزڈ جبکہ دوسرا من موجی سا ہو، ایک
کو میتھ پسند ہو اور دوسرے کی جان جاتی ہو، ایک ڈرائنگ کا شوقین ہو جبکہ
دوسرے کو سیدھی لائن لگانا بھی مشکل لگے۔ ایسے میں ہر بچے کو اسکی منفرد
صلاحیتوں کے ساتھ قبول کریں۔ بار بار موازنہ کر کے بہن بھائی کے درمیان
مقابلے اور حسد کی فضا نہ بنائیں۔خ
|