جنگلزم ، جرنلزم ، مفادات کا ٹکراﺅ اور ہماری صحافت
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
سوشل میڈیا پر ایک ممبر اسمبلی کی ویڈیو گذشتہ کئی دنوں سے وائرل ہے جس میں موصوف فرماتے ہیں کہ "ملاکنڈ یونیورسٹی کے جنگلزم ڈیپارٹمنٹ" ، موصوف جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کو جنگلزم ڈیپارٹمنٹ کہہ رہے ہیں ، ان کی بات سن کر عجیب سا لگ رہا تھا کہ ایک ممبر صوبائی اسمبلی کا یہ حال ہے گذشتہ روز ایک جگہ پر افتتاح کی تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا ، ہمارے دوست اور اخبار کے مالک کے ہوٹل کا افتتاح تھا ، افتتاح کے دوران ایک صاحب ہاتھ میں مائیک لیکرآئے جس پر ایک مقامی اخبار کا نام لکھا ہو ا تھا .ان صاحب نے افتتاح کے بعد مہمان خصوصی کیساتھ بات چیت کرنا چاہی ، اسے سب کے سامنے کھڑا کیا اور سب لوگوں کے سامنے ان سے سوال کیا کہ آپ کا نام کیا ہے ، آپ کا عہدہ کیا ہے اور اس وقت آپ کی پوزیشن کیا ہے ، مہمان خصوصی تین مرتبہ افغان پارلیمنٹ کے ممبر اسمبلی رہ چکے تھے ، سب لوگوں کے سامنے اس سے پوچھے جانے والے سوال نہ صرف مہمان خصوصی کو پریشان کررہے تھے بلکہ اس کے پیچھے راقم بھی موجو د تھا اوراس مہمان خصوصی سے زیادہ پریشانی تھی کہ آخر یہ کس طرح کا صحافی ہے کہ اس نے پہلے کسی سے معلوم تک نہیں کیا کہ مہمان خصوصی کی حیثیت کیا ہے، نام کیا ہے ، اور اب سب کے سامنے اس طرح کے سوالات کرکے شرمندہ کررہا ہے ، یہ تو شکر ہے کہ مہمان خصوصی برداشت رکھتا تھا اس لئے اس نے آرام سے سب کے جوابات دئیے جس کے بعد اس ہاتھ میں لئے مائیک والے صاحب نے ان سے بات چیت کی. اسی دوران راقم کو ممبر اسمبلی کے جرنلزم کی جنگلزم کہنے کی بات کی بھی سمجھ آگئی.یہ صرف ایک واقعہ ہے جس کا راقم گواہ ہے نجانے کتنے اس طرح کے واقعات ہونگے جس پر مائیک والے صاحب اس طرح کی حرکتیں کرتے ہونگے اور عام لوگ سب صحافیوں کو اس طرح سمجھتے ہونگے ، عجیب سا زمانہ آگیا کہ اب صحافت اور بدتمیزی میں فرق نہیںہی رہا.
پشتوزبان کا ایک محاورہ ہے چہ سہ دانے لوندے او سہ جرندہ خرابہ ، یعنی کچھ گندم کے دانے خراب تھے اور کچھ مشین خراب ، یعنی صحافت کو جنگلزم بنانے میں ہمارے اپنے صحافیوں کا بھی ہاتھ ہے ایک وقت میں عزت و احترام کے اس شعبے کا یہ حال تھا کہ اگر کہیں خبر چھپتی تو کارروائی ہوتی تھی اور لوگ ڈرتے بھی تھے کہ کہیں ہمارے بارے میںخبر نہ چھپے ، کرپشن ، غیرقانونی کام کرنے والے تمام افراد بشمول سرکاری افسران ڈرتے تھے کہ کہیںان کے پرسنل اے سی آر پر کچھ نہ لکھا جائے تاکہ انہیںمستقبل میں کہیںپریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے ، اس شعبے میں آنیوالے ہر ایک شخص کو بڑے عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا یہ الگ بات کہ اس شعبے میں کام کرنے والے افراد کی تنخواہیں کم ہوتی تھی لیکن ان کے تعلقات اورانکی رسائی ایوانوں تک ہوتی تھی ، صحافی اپنے ذاتی کام کے بجائے اجتماعی کاموں کے حل پر توجہ دیتے تھے. خیرایوانوں تک رسائی اب بھی ہے لیکن اب اجتماعی کاموںکے بجائے ذاتی تشہیراورذاتی کاموںپر توجہ دی جاتی ہیں.
پھر دور تبدیل ہوگیا، ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے اپنے اپنے گروپ بن گئے، بلدیات کور کرنے والے صحافیوں سے لیکر کرائم ، کورٹس ، شوبز ، سپورٹس ، جنرل ، ہیلتھ ،ماحولیاتی سمیت ہر طرح کے سپیشلٹی آگئی اورہرگروپ کے اپنے اپنے مخصوص لوگ ہی سامنے آگئے جنہیں اپنے شعبوں کے متعلقہ لوگوں نے اپنے دام میں کرلیا جس کا حال یہ ہوا کہ اب کسی ادارے میں ہونیوالی کرپشن ، غلطی یا ظلم و زیادتی پر خبر ، رپورٹ ، تجزیہ نہیں چھپتا ، بلکہ اب تویہ حال ہے کہ اگر کہیں پراس طرح کی کوئی کوشش بھی کرتاہے تومتعلقہ گروپ کے صحافی انہیں روکنے کی بھرپورکوشش کرتے ہیں ، اور ادارو ں کے غیر سرکاری پی آراوزترجما ن بن کر " سب کچھ اچھا ہے"کی رپورٹ جمع کرواتے ہیں ، اور حقائق ، سچ لکھنے والے روتے ہیںکہ انکا کوئی پوچھنے والا نہیں.وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب سیاسی پارٹیوں نے بھی اپنے صحافی رکھ لئے ہیں جو کسی زمانے میں ترجمان تھے اب یوٹیوبرز بن گئے ہیں ، مخصوص پارٹیوںکا مخصوص سچ بولتے ہیں جن سے اور کچھ ہونہ ہو انہیں ڈالرمل جاتے ہیں.اب تو کمپیوٹرائزبوٹ سسٹم نے سب کچھ آسان کردیا ہے مخصوص بیانیے چل رہے ہیں جس پر یوٹیوبرز کی اچھی خاصی کمائی ہوجاتی ہیں. ، عوامی مسائل کیا ہے ، انہیں کون پوچھے گا اس بارے میں مکمل طور پر خاموشی ہیں.
صحافت کو جنگلزم بنانے میں ہمارے اپنے صحافیوں کا بھی بڑا کردار ہے جنہوں نے جن مفادات کے عوض بہت سارے ایسے لوگ صحافت میں شامل کئے جن کا صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں. یہاں پر ایسے افراد بھی موجود ہیں ، جو اپنے آپ کو سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کہتے ہیں سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کا یہ رجحان پی ٹی آئی کے دور حکوت میں شروع ہواجنہیں سرکاری سرپرستی بھی حاصل رہی اور انہی کی دیکھا دیکھی ایسے لوگ پیراشوٹ کے ذریعے صحافی کہلوانے کے قابل اپنے آپ کو گردانتے ہیں جنہیں لکھنا تو چھوڑیں پڑھنا بھی نہیں آتا ، ہاں انکی زبانی گز بھر کی ہوتی ہیں یا پھر چاپلوسی ، ان کا خاصہ ہوتا ہے اور اسی کے بدولت ہر جگہ پر یہی لوگ ان ہیںایک دورمیں صحافی کی پہچان ان کا کام ، بریکنگ سٹوری ، تحقیقاتی سٹوری یا فیچر رپورٹ ،کالم ہواکرتے تھے جنہیں صحافی بڑے فخر سے شیئربھی کیاکرتے تھے بائی نام سٹوری کااپنا ایک نشہ ہواکرتاتھالیکن اب صحافت کامعیاروٹس ایپ گروپوںمیں چلنے والے کسی ایک کی خبرکو اپنے نام سے شائع کرنے کولوگ تیرمارناسمجھ لیتے ہیںیا پھر کسی سیاسی پارٹی تعلق رکھنے والے شخصیات کیساتھ منظرعام پر آنیوالے تصاویرکو لوگ اپنے لئے اعزاز ، صحافت اورمعیارسمجھتے ہیں حالانکہ بنیادی طور پر یہ لوگ صحافی نہیں ہوتے البتہ پی آر اوز بن کر کام کرتے ہیں .
ان حالات میں صحافیوں اورصحافت پر برا وقت ہی آئیگا اورجو حالات چل رہے ہیںاس سے مزید خراب ہونے کے امکانات ہیں انہیں ٹھیک کرنے کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ صحافت سے وابستہ افراد کی ہے جو بے رحمانہ احتساب اور بے رحمانہ چیک اینڈ بیلنس رکھ کر صحافت سے وابستہ افراد کی نشاندہی کریں تبھی یہ ممکن ہے ورنہ اگلے چند سالوں میں صحافت تو مشکل ہے ہاں صحافت کے نام پر "چمچوں کی بھرمار" ضرور ہوگی جن کی صحافت کسی نے کسی ادارے ، شخصیات کے گرد گھوما ہوا کرے گی ،انہیں عوامی مسائل اور عوام سے کوئی واسطہ نہیں ہوگا #journalism #journalist #favouritism #pakistan #kpk #kp
|