گئے دنوں کی بات ہے کہ جب ہم جماعت دہم میں زیر تعلیم تھے۔
ہر جماعت کا اک ذمہ دار (مانیٹر) ہوا کرتا تھا اور اب بھی یقینا ایسا ہی
ہوگا، تو ہماری کا بھی مانیٹر تھا۔ استاد محترم کے کلاس سے چلے جانے کے بعد
طلبہ کے شور شرابے کو روکنے کیلئے کلاس کا مانیٹر فوری طور پر کلاس میں
کھڑا ہوجاتا تھا اور سب ہی کو کم آواز میں باتیں کرنے کا کہتا تھا، کلاس
میں سب بچے ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں، کچھ طالبعلم اس بات پر عمل کرتے تھے
اور کچھ عمل کرنے کے بجائے مزید شور مچاتے تھے، اس وقت یہ بھی معاملہ ہوا
کرتا تھا کہ کسی کلاس میں اگر شور ہورہا ہے تو اس کلاس کے مانیٹر کو سزا دی
جاتی تھی اور یہ سزا کلاس کو قابو میں نہ رکھنے پر دی جاتی تھی۔ اب اس
صورتحال سے بچنے کیلئے کلاس کا مانیٹر بلیک بورڈ پر ان بچوں کے نام لکھا
کرتا تھا جو شور کرتے تھے اور استاد کے آنے پر ان بچوں کی شکایت کرتا اور
کہتا کہ یہ بچے کلاس میں شور کر رہے تھے، وہ استاد پھر ان بچو ں کو سزا
دیتا۔۔۔
شہر قائد کراچی میں ہم مقیم تھے اور پاک بحریہ کے اک اسکول میں زیرتعلیم
تھے، ان دنوں شہر قائد میں لسانی فسادات کا آغاز ہوگیاتھا۔ ایک قوم پرست
جماعت اپنی قوم پرستی کا پرچار کرتے ہوئی اپنے لوگوں کو ایک جھنڈ ے تلے جمع
کر رہی تھی اور دیگر قوموں کے خلاف نامناسب رویہ ہی نہیں عملی اقدامات کر
رہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہر قائد میں ایک جانب ایک قوم کے اور
دوسری جانب دو قوموں کے لوگ ایک صف میں کھڑے ہونا شروع ہوئے اور ان کے
درمیان بات، باتیں، مذاکرات، لڑائی اور جھگڑے شروع ہوئے جس کے منفی اثرات
رونما ہوئے اور صورتحال ابتری کی جانب بڑھنے لگی۔ حالات کشیدہ سے کشیدہ تر
ہوتے گئے اور بات کرفیو تک آن پہنچی۔
کئی کئی دنوں تک علاقوں میں کرفیو رہنے لگا اور اس کی وجہ سے حالات سنورنے
کے بجائے اور بھی بگڑنے لگے، بہرحال وقت گذرنے کے ساتھ معاملات سدھرنے لگے
اور پھر ایسا وقت آیا کہ حالات خاصے بہتر ہوگئے۔
انہی دنوں میں، جب ہم جماعت دہم میں تھے تو اک پیریڈ ختم ہوا اور دوسرے
استاد کو آنا تھا تاہم ان کے آنے میں کچھ دیر ہوئی جس کی وجہ سے کلاس میں
شور شروع ہوا اور پھر مانیٹر نے نام لکھنا شروع کر دیئے۔ جس کا بھی نام
لکھتے وہ خاموش ہوجاتا اور پھر شور نہیں کرتا تاہم وقت گذرنے کے ساتھ استاد
محترم جب نہیں آئے اور کلاس بھی قابو میں آگئی تو مانیٹر نے بورڈ پر لکھے
گئے سب نام مٹاتے ہوئے سب سے کہا کہ امید ہے اب ٓپ لوگ شور نہیں کریں گے۔
سب ہی نے حامی بھری اور کلاس میں کچھ سکون ہوا۔ اس دوران مانیٹر نے بورڈ پر
ایک قوم کا نام لکھا اور طلبہ کی جانب دیکھا، اب جس قوم کا نام لکھا تھا اس
قوم کے بچوں نے اپنا ہاتھ اٹھایا پھر دوسری قوم کا نام لکھا اور اس وقت اس
قوم کے بچوں نے بھی ہاتھ اٹھایا، دوقوموں کے ہم نام لکھ چکے تھے کہ اچانک
اک بزرگ استاد محترم سید محفوظ الحسن صاحب کلاس میں داخل ہوئے اور سب طلبہ
کھڑے ہوگئے،مانیٹر بھی بورڈ صاف کئے بغیر اپنی نشست پر چلے گئے۔ استاد
محترم نے کلاس میں حاضری لی اور پھربورڈ پر کچھ لکھنے کیلئے کھڑے ہوئے،
بورڈ پر لکھے گئے دو قوموں کے نام دیکھ کر وہ ٹٹرگئے اور دو قدم بڑھ کر ان
لکھے ناموں کو غور سے پڑھ کر کلاس کی جانب مڑے اور پوچھا کہ یہ کس نے لکھا
ہے؟
سب بچے خاموش رہے، جس پر انہوں نے قدرے بلند آواز میں اپنا سوال دہرایا، اس
سوال کے بعد بھی سب خاموش رہے اور کچھ بچوں نے تو اپنے سر وں کو جھکا لیا،
سر سید محفوظ الحسن صاحب نے پوری کلاس پر اک نظر ڈالی اور کہا کہ مجھے
بتائیں یہ کس نے لکھا ہے؟؟؟
اب متعدد طلبہ نے کلاس مانیٹر کی جانب دیکھا اور پھر سر جھکا لئے، اب استاد
محترم نے کہا کہ دیکھیں آج میں نہیں پڑھاؤں گا جب تک آپ مجھے یہ نہیں
بتائیں گے کہ یہ کس نے لکھا ہے؟ اک طائرانہ نظر کلاس پر ڈالی اور پھر اپنا
رجسٹراٹھاتے ہوئے کہا، ٹھیک ہے آ پ نہ بتائیں، میں بھی نہیں پڑھاؤں گا۔ ان
کے اس جملے پر کلاس مانیٹر اٹھااور کہا سر، یہ الفاظ میں نے لکھے ہیں۔ سر
نے سنا اور مانیٹر کے قریب آئے، یہ آپ نے لکھا ہے؟ آپ نے، آپ تو اس کلاس کے
مانیٹر ہونے کے ساتھ اک اچھے طالبعلم بھی ہو پھر یہ کیوں لکھا ہے؟
یہ کہا اور پھر کلاس کو چھوڑ کر اسٹاف روم چلے گئے۔۔۔ کلاس کے سب ہی ہم
جماعت مانیٹر کو دیکھ رہے تھے، انہیں خود بھی سمجھ نہیں آرہاتھا کہ یہ سب
کیا ہوگیا؟ آج تلک اس نوعیت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا پھر آج یہ سب کیسے
اور کیوں ہوگیا؟ استاد محترم کے کلاس چھوڑ کر جانے کا عمل سب طالبعلموں
کیلئے حیران کن کے ساتھ دکھ کا باعث بنا رہا اور سب ہی کچھ کہے بغیر سر
جھکائے بیٹھے رہے، اس لمحے کلاس مانیٹر، سب طلبہ کے سامنے آئے اور کہا کہ
یہ جو بھی ہوا ہے، غلط ہوا ہے اور سر محفوظ الحسن صاحب ہمارے بہت ہی شفیق
استاد محترم ہونے کے ساتھ وطن عزیز کی آزادی میں بھی حصہ لے چکے ہیں لہذا
اک ایسے استاد کے سامنے اس کے کسی طالبعلم کا قوم پرستی کی جانب بڑھنا یا
لکھنا قطعی نامناسب ہے۔ سر محفوظ الحسن کے پاس جا رہاہوں اور آپ نے کلاس
میں کسی بھی طرح کا شور نہیں کرنا ہے، سب خاموش رہیں اور خاموشی ہی رکھیں۔
اساتذہ کرام کے اسٹاف روم کے دروازے پر کھڑے ہوکر دیکھا تو دو ہی استاد اس
وقت موجودتھے اک سر محفوظ الحسن صاحب اور دوسرے سید مستجاب صاحب، دروازے پر
کھڑے ہوکر اندر جانے کی اجازت طلب کی جس پر سر محفوظ تو خاموش، گم سم ہی
بیٹھے رہے تاہم سر مستجاب نے اجازت دی، سرمحفوظ کے سامنے جا کر مانیٹر نے
سلام کرنے کے بعد کہا کہ سر مجھ سے غلطی ہوگئی ہے، سر نے کوئی جواب نہیں
دیا اور گردن جھکائے بیٹھے رہے، مانیٹر نے دوبارہ اپنے الفاظ دہرائے اور سر
نے اس پر بھی کچھ نہیں کہا، سر میں معافی چاہتا ہوں اور آئندہ ایسا نہیں
کروں گا، کبھی نہیں کروں گا، بس آپ آج مجھے معاف کردیں۔۔۔یہ سن کر سر نے اک
نظر کلاس کے مانیٹر کی جانب دیکھا اور پھر اک لمبی آہ بھر کر اپنے سر کو
دوبارہ جھکا لیا، مانیٹراس وقت درون دل بجھا جارہا تھا اور قریب تھا کہ اس
کی آنکھوں میں موجود نمی باہر آنے لگ جاتی تاہم اس وقت مانیٹر پہلے جھکا
اور سر کے دائیں گھٹنے پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر دوسرا بھی رکھ کر بیٹھ
گیا اور سر سے کہا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے اور میں آپ سے اس غلطی کی معافی
مانگتا ہوں۔ سر،آپ مجھے ہی نہیں سب کلاس کو بہت عزیز ہیں، سب آپ کا ادب و
احترام کرتے ہیں۔ سر آج تلک ایسا نہیں ہوا کہ کوئی بھی استاد محترم اپنی
کلاس چھوڑ کر آگیا ہو، لیکن آج یہ سب ہوگیا اور میری وجہ سے ہوا، سر مجھے
معاف کردیں، پلیز سر
مجھے معاف کردیں، آپ نے آج مجھے معاف نہیں کیا تو میں تمام عمر اپنے آپ کو
معاف نہیں کروں گا، مانیٹر اسی نوعیت کی گفتگو کرتے کرتے اپنے آنسونہیں روک
پایا اور سر کے گھٹنے پر اپنا سر رکھ کر آبدیدہ ہوگیا۔۔۔
استاد محترم سید محفوظ الحسن نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اپنے شاگرد کے
سر پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ دیکھو، یہ جو بھی کچھ آج کلاس میں ہوا، اچھا
نہیں ہوا لیکن اب ہوگیا اور یہ بھی ااچھا ہی ہوا کہ آپ سمیت پوری کلاس کو
اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ انسانوں سے ہی غلطیاں ہوتی ہیں اور غلطی کا احساس
ہونے کے بعد اس کی معافی طلب کرنا اک قابل تعریف عمل ہے۔ آپ کی کلاس میں
اتنے سارے طالبعلم ہیں اور ان کے مانیٹر آپ ہیں، جس طرح اک اسکول کا پرنسپل
ہوتا ہے، وہی اس اسکول کا اصل ذمہ دار ہوتا ہے اسی طرح سے اک کلاس کا ذمہ
دار کلاس مانیٹر ہوتا ہے۔ مجھے گوکہ آپ سے اسطرح کی توقع ہرگز نہیں تھی اور
ان الفاظ کی جو آپ نے بلیک بورڈ پر لکھے انہیں پڑھ کر میرا دل بہت دکھی
ہوا، چاہتا تو اسی وقت آپ کو سب سے زیادہ اور پوری کلاس کو قدرے کم سزا
دیتا اور پڑھانا شروع کردیتا لیکن یہ میرے ممکن نہیں تھا۔
آپ کلاس کے ہونہار طلبہ میں سے ایک ہواور آپ کی دیگر اساتذہ کرام کے ساتھ
میرے دل میں بہت عزت ہے تاہم آپ کی جانب سے قوم پرستی کی جانب بڑھنا اور وہ
جملے لکھنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگا اور میرا دل بجھ سا گیا۔
استاد محترم نے مانیٹر کے سر پر اک بار پھر ہاتھ پھیرا اور مانیٹر کے چہرے
کو اپنے دونوں ہاتھوں سے اٹھاتے ہوئے کہا کہ دیکھو، یہ ملک کس قدر قربانیوں
کے بعد معرض وجود میں آیا، انیس سو چالیس میں وطن عزیز کیلئے قرارداد پاس
ہوئی اور پھر علی گڑھ کے طلبہ نے مسلسل جدوجہد کرتے ہوئے وطن عزیز کے حصول
کیلئے کوششیں کیں، مسلم رہنماؤں نے مل کر، ان کے ساتھ طلبہ نے،مسلمانوں نے
سب نے ہی مل کر اک طویل جدوجہد کا آغاز کیا اور اسی جہد مسلسل کے نتیجے میں
پاکستان قائم ہوا۔ اس جدوجہد میں ہمارے بزرگوں نے انتھک محنتیں کیں، میرے
والد صاحب تو علی گڑھ یونیورسٹی کے طالبعلم تھے، انہوں نے علی گڑھ سے نکل
کر آزادی کیلئے آواز اٹھائی اور جہد مسلسل ہی کا خدا نے یہ صلہ دیا کہ
برصغیر کے مسلمانوں کو اک الگ ملک پاکستان کی صورت میں ملا اور ہم بھی ہجرت
کرکے شہر قائد میں آبسے، تحریک آزادی کے وقت تو میں چھوٹا تھا لیکن قیام
پاکستان کے وقت باشعور تھا اور وہ سب مناظر میرے آنکھوں کے سامنے ہوتے رہے
جنہیں اب سوچ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔
دیکھو، آپ کلاس کے مانیٹر ہیں اور آج اگر آپ نے بلیک بورڈ اک قوم کا نام
لکھا، اک اور قوم کا نام لکھا اور قوم پرستی کی جانب بڑھے تو یہ پوری کلاس
بھی آپ کے پیچھے چل پڑی گی، ہاں آپ کے پیچھے سب نہیں چلیں گے بلکہ دیگر
قوموں کے لوگ اپنے قوم کے لوگوں میں جائیں گے اور یوں قوم پرستی بڑھے گی جو
غلط ہے۔ قوم اور قومیں ہیں، ضرور ہیں لیکن یہ پہچان کیلئے بنائی گئیں، سب
قوموں نے مل کر ایک پاکستان قائم کیا اور اس پاکستان کے جھنڈے تلے ہم سب
ایک پاکستانی قوم ہیں، اس لئے قوم پرستی کی جانب کلاس مانیٹر کو ہی نہیں
کسی بھی طالبعلم کو اور کسی بھی شہری کو نہیں جانا چاہئے۔ ہم سب مسلمان ہیں
اور پاکستان کا قیام اسلام کیلئے اسلام کے نظام کیلئے ہوا تھا، آپ کو اور
آپ کے تمام کلاس فیلوز کو قوم پرستی کی جانب نہیں جانا ہے، یہ اور اسی طرح
کی دیگر چالیں اندورنی اور بیرونی دشمنوں کی چالیں ہیں جو کہ وہ اس لئے
کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی اپنے ملک سے محبت نہ کریں اور ملک میں اسلامی
نظام کیلئے جہد مسلسل نہ کریں۔
بیٹا، میں نے آپ کو معاف کیا، آپ بھی مجھ سے وعدہ کرو کہ آپ قوم پرستی کی
جانب نہیں جاؤگے اور نہ ہی اپنی پوری کلاس کو قوم پرستی کی جانب جانے دو
گے۔۔۔پاکستان کیلئے، پاکستانیوں کیلئے جہد مسلسل کروگے اور مسائل کو ختم
کرنے کیلئے ہم وطنوں میں خوشیاں لانے کیلئے اطمینان و سکون لانے کیلئے جہد
مسلسل کروگے، جب بھی انسان جہد مسلسل کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے ضرور
کامیاب کرتا ہے۔ اس لئے اب جاؤ اپنی کلاس میں اور سب کو کہو کہ میں کلاس
لینے کیلئے آرہا ہوں اور آج میں سب کا امتحان لوں گا۔ مانیٹر نے اپنے استاد
محترم کے ہاتھوں کو چوما، ان کے گھٹنوں پر اپنے سر کو رکھا اور پھر اٹھا،
سر بھی اٹھے اور مانیٹر کو اپنے سینے سے لگاکر اسے تھپکی دی اور پھر مانیٹر
اپنی کلاس کی جانب چل پڑا۔
یقینا جہد مسلسل کے باعث ہی یہ ملک قائم ہوا اور اسی جہد مسلسل کے باعث
بحیثیت انفرادی و اجتماعی ہم دیکھیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہمیں کیا
کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ مستقل مزاجی کے ساتھ جہد مسلسل رکھیں تو ہی عزائم کی
تکمیل ممکن ہوسکتی ہے۔۔۔
|