ضلع کرم خیبر پختونخواہ کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے،
جو افغانستان کے پکتیا اور ننگرہار صوبوں سے متصل ہے۔ یہاں کی کُل آبادی
تقریباً ۸ لاکھ ہے۔ سابقہ قبائلی علاقوں میں صرف کُرم اور اورکزئی دو ایسے
ایسے قبائلی اضلاع ہیں جہاں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع اکھٹے آباد ہیں۔ یہاں
کی زیادہ تر آبادی اہلسنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ پاراچنار میں، جو
یہاں کا ضلعی دارلخلافہ ہے، اہل تشیع اکثریت میں آباد ہیں۔ ضلع کُرم میں
واقع پاراچنار پاکستان کا وہ واحد حصہ ہے جو افغانستان کے دارلحکومت کابل
کے سب سے قریب ہے، کابل سے قربت کی وجہ سے اس علاقے کی اہمیت اور بڑھ جاتی
ہے، اور انہی سرحدوں راستوں پر دونوں ممالک کے درمیان تجارتی امدورفت ھوتی
رہتی ہے۔ یہ علاقہ اکثر فرقہ وارانہ جھڑپوں کا شکار رہی ہے، جو آج کل ایک
بار پھر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کُرم میں حالیہ فسادات کا مسئلہ آخر ہے کیا؟
یہاں سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ اس جنگ کو شیعہ نسل کشی سے منسوب کرتے ہیں
جو حقائق کے بلکل منافی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ یہاں پر حالیہ فسادات کی
بنیادی وجہ زمینی تنازعہ ہے جو پچھلے کئی سالوں سے سرد جنگ کی شکل میں جاری
تھا لیکن یہ تنازعہ اُس وقت شدت اختیار کرگیا جب پاراچنار کے مضافات میں
واقع گاؤں بوشرہ کے قریب مالی حيل قبائل نے رواں ماہ 25 تاریخ کو متنازعہ
زمین پر تعمیراتی کام شروع کیا تو بوشرہ کے لوگوں نے اُن کو تعمیراتی کاموں
سے روکنا چاہا جس سے دونوں فریقوں کے درمیان جنگ چھیڑ گئی جو بعد میں فرقہ
وارانہ جنگ کی شکل اختیار کر گئی۔ 2007 کی فرقہ وارانہ جنگ کے بعد اس ضلع
میں شیعہ اور سنیوں میں ایک دوسرے کیلئے نفرتیں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہاں
دو فردوں کے درمیان معمولی تنازعہ بھی بڑی آسانی سے فرقہ وارانہ تشدد میں
بدل سکتا ہے۔ زمینی تنازعہ سے شروع ہونے والا یہ جنگ اب پورے ضلع میں پھیل
چکا ہے۔ جس سے دونوں مکتبہ فکر کے لوگوں کو یکساں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
آخر یہ فسادات حل کیوں نہیں ہوتے؟
ایسا نہیں ہے کہ ان فسادات کو حل کرنے کیلئے قبائلی عمائدین نے امن کی فضاء
قائم رکھنے کیلئے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کیں ہیں۔ ضلع میں امن برقرار
رکھنے کیلیے قبائیلی عمائدین نے بہت سے جرگے بھی کیں ہیں جو بدقسمتی سے
سارے بیسود رہے ہیں۔ ان جرگوں اور معاہدوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ان
معاہدوں پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ ان معاہدوں پر عملدرآمد کرانا حکومت کی
زمہ داری ہے کہ وہ امن و امان کو برقرار رکھنے کیلئے ان معاہدوں پر
عملدرآمد کرائیں لیکن یہاں بدقسمتی سے پختونخواہ حکومت ایسا کرنے میں ناکام
رہی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہاں کے لوگ حکومتی مرضی کے بغیر سڑک پر
بریکر تک نہیں لگا سکتے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہاں کے لوگ اتنی
بھاری اسلحہ سے لیس ہوکر ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ھوجائیں؟ کیا وہاں کی
انتظامیہ بروقت ان فریقوں کو مورچہ زن ہونے سے نہیں روک سکتے تھے ؟کیا وہاں
کی انتظامیہ اتنی کمزور ہو کر رہ گئی ہے کہ وہ دو گروپوں کے درمیان جنگ
بندی بھی نہیں کرسکتی ؟ جب مجھ سمیت ضلع کُرم کے ہر فرد کو یہی ڈر لاحق تھا
کہ اگر زمینی تنازعہ کا یہ مسئلہ وقت پر نہ سلجھایا گیا تو یہ پہلے کی طرح
فرقہ وارانہ تشدد میں بدل جائیگا، تو کیا حکومت کو ان حدشات کا اندازہ نہیں
تھا ؟
جی نہیں ایسا بلکل بھی نہیں ہے نہ تو حکومت اتنی کمزور ہے کہ وہ اس جنگ کو
بند کرا دے اور نہ اُن کے ساتھ طاقت کی کوئی کمی ہے کہ وہ اس جنگ کو طاقت
کے ذریعے رکوا سکے۔ حکومت اور انتظامیہ کے اس روئیے اور خاموشی پر لوگوں کے
ذہنوں میں ان پر شکوک وشبہات پیدا ہورہے ہیں جس کے نتائج آنے والے وقت میں
خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ حکومتِ وقت کی طرف سے اگر اس مسلے پر کوئی توجہ
نہیں دی گئی تو فرقہ واریت کے یہ خطرناک شعلے پہلے سے معاشی اور سیکیورٹی
مسائل کے شکار ملک میں پھیل جائینگے جو مزید تباہی کا باعث بنیگے۔
|