قر آن کا ترجمہ (مترجم: عبد الحسیب خان)

قر آن کا ترجمہ (مترجم: عبد الحسیب خان)
٭
ڈاکٹر رئیس صمدانی
پروفیسر ایمریٹس، منہاج یونیورسٹی، لاہو
صدر مجلس ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صدیقی صاحب، مترجمِ قرآن عبد الحسیب خان صاحب، محبان بھوپال فورم کی چیرئپرسن محترمہ شگفتہ فرحت صاحبہ، ناظم تقریب اویس ادیب انصاری صاحب اور وی ٹرسٹ کے ذمہ داران
السلام علیکم!
آج اس متبرک تقریب میں شرکت ہم سب کے لیے باعث برکت و رحمت ہے۔ ادبی نشستوں کا اہتمام تو روز کا معمول ہے۔ آج کی اِس نشست میں جو کتاب ہمارے پیش نظر ہے وہ عام کتب کے مقابلے میں منفرد، متبرک اور پاکیزہ بھی ہے۔ یہ ہے قرآن مجید فرقان حمید کا اردو ترجمہ جو عبدا لحسیب صاحب نے کیا ہے۔
حاضرین مجلس!
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے یہ راہ ِہدایت ہے۔قرآن کا کتاب الیٰ ہونا تمام تر شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ذٰالِکَ الکتٰبُ لَاریبَ فیہ”یہ اللہ کی کتاب ہے ”نہیں کوئی شک اِس کے کتاب الیٰ ہونے میں“۔ پھر اس نے اسے نازل فرمایا اور اس نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا“۔
اللہ کایہ کلام نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ پر 23 برس میں نازل ہوا۔ قرآن کا پڑھنا، یاد کرنا، دوسروں کو اس کی تعلیم دینا باعث برکت، باعث ثواب اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے ”آپ ﷺ نے فرمایا :
”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن پڑھا اور اس کو پڑھایا“۔
مسلم شریف کی حدیث ہے، فرمایا نبی ﷺ نے:
’’قرآن پڑھو اس لیے کہ قرآن قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں
کے لیے سفارشی بن کر آئے گا“۔
قرآن مجید کوپڑھنے کے علاوہ پڑھانے کی کئی صورتیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ گھروں میں بچوں کو گھر کی بزرگ خواتین بچوں کو قرآن مجید پڑھاتی ہیں، حفاظ اور قاری صاحبان گھروں میں قرآن پڑھانے جاتے ہیں، مساجد میں بچوں کو قرآن پڑھایا جاتا ہے، ہمارے دینی مدارس میں اور بعض اسکولوں میں بھی طلبہ کوقرآن پڑھانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ ہمارے علماء، خطیب مساجد میں قرآن کی تعلیم دیا کرتے ہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ قرآن مجید فرقان حمید کے تراجم، تفاسیر، اَحکامِ قرآن اور تعلیماتِ قرآن طرز کی کتابیں بھی قرآن مجید کی تعلیم عام کرنے کا سبب ہوا کرتی ہیں۔
تلاوت قرآن کریم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی آخری الزماں حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
”جو شخص اللہ کی کتاب قرآن کریم سے ایک حرف بھی پڑھتا ہے تو اسے اس کے بدلے میں ایک
نیکی کا ثواب ملتا ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر قرار پاتی ہے“۔
ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ میں یہ حدیث خلیفہ سوم حضرت عثمانؓ سے منقول ہے۔
”فرمایا حضرت محمد ﷺ نے ”تم میں سے بہتر وہ شخص ہے
جو قرآن شریف کو سیکھے اور سکھائے“۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ؎
دنیا کی کتابوں میں قرآن چمکتا ہے
قرآن میں اللہ کا فرمان چمکتا ہے
عادت بنا لے جو تلا وت کی
اللہ کی نظروں میں وہ انسان چمکتا ہے
پیش نظر قرآن مجید فرقان حمید کا اردو ترجمہ جناب عبد الحسیب خان صاحب کی کاوش ہے۔قابل مبارک باد ہیں کہ انہوں نے قرآن مجید کااردو ترجمہ کر کے اپنا نام قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے والوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔قرآن کے حوالے سے یہ ان کی تیسری کاوش ہے اس سے قبل ان کی دو کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ان میں
٭ قرآن کا دعوتی اسلوب: ہدایت، نصیحت، تذکیر۔
٭ ایمان اور بندگی۔
٭ قرآن کا ترجمہ
مجھے اویس احمد ادیب انصاری صاحب جن کے توسط سے کتاب ”قرآن کا دعوتی اسلوب“ کا مطالعہ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس میں قرآن مجید کے منتخب مضامین کے مفہوم کو سہل زبان میں خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ قرآن کریم کے عربی سے دیگر زبانوں میں تراجم کی روایت قدیم ہے۔ اردو زبان جتنی قدیم ہے اردو میں قرآن مجید کے تراجم کی روایت بھی اتنی ہی پرانی ہے۔ایک تازہ لسانی جائزے کے مطابق اس وقت دنیا میں 6ہزار سے زیادہ زبانوں کے بولنے والے موجود ہیں۔ آبادی کے اعتبار سے چین سرِ فہرست ہے اور چین کی آفیشل زبان مڈنارن Madnarinہے، دوسرے نمبر پر انگریزی ہے۔ اس لیے کہ اس زبان نے عالمی سطح کی زبان کا درجہ حاصل کرلیاہے، تیسری زبان اردو اس صورت میں ہے کہ اگر بھارت کے مسلمانوں کوبھی اس میں شامل کر لیا جائے بصورت دیگر بنگالی کا نمبر پانچ اور اردو چھٹے نمبر پر ہے۔اگر صرف پاکستان میں اردو بولی جانے والی زبان کا شمار کریں تو اس کا نمبرکہیں آخر میں ہے۔
قرآن مجید کے اردو زبان میں تراجم کا آغاز تو بہت پہلے ہوچکا تھا قاری مصطفیٰ راسخ نے محمد افضل خان شیخ شاہ پوری کے حوالے سے لکھا ہے کہ اردو میں پہلا باقاعدہ مکمل معروف و معتبرترجمہ رفیع الدین دہلوی نے کیا جو شاہ ولی اللہ کے تیسرے فرزند ِ ارجمند تھے۔یہ ترجمہ اٹھارویں صدی کے اوآخر کا پہلا مکمل اردو ترجمہ بتایا جاتا ہے۔ اس ترجمہ کا انداز یہ بتایا گیا ہے کہ مترجم عربی سے اردو ترجمہ بولتے جاتے اور ان کے شاگرد لکھتے جاتے۔ لفظی ترجمہ ہونے کے باوجود اس ترجمہ کو قرآ ن کی روح اور اس کے مزاج کے عین مطابق کہا گیا ہے۔قرآن کا دوسرا اردوترجمہ 1790ء میں منظر عام پر آیا۔یہ ترجمہ لفظی نہیں بلکہ روزمرہ اور محاورے لیے ہوئے ایک وضا حتی انداز رکھتا ہے۔ اس ترجمہ کو اردو ہندی لغت کا ایک بڑا خزانہ تصور کیا جاتا ہے۔
حسیب خان صاحب کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں، آپ مختلف حیثیتوں سے جانے جاتے ہیں۔ ان میں تجارتی، سماجی،سیاسی، معاشرتی، علمی، ادبی اورمصنف و مؤلف کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کی معتبر اور باعزت پہچان رکھتے ہیں۔ حسیب صاحبا کا تعلق بھوپال سے ہے۔محسن ِپاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان جو خود
بھی بھوپالی ہی تھے نے بھوپال کو جنت مقام قرار دیا ہے۔ ہندوستان کی سرزمین بھوپال بے شمار خوبیوں کی حامل رہی ہے۔ اس سرزمین نے بے پنا خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل اشخاص کو جنم دیا۔ جن میں سے ایک ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور جناب عبد الحسیب خان صاحب بھی ہیں۔حسیب صاحب ہمہ جہت صفات شخصیت ہیں۔ منکسر المجاز اور سادگی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔ نرم گو،دھیما لہجہ، سیاق و سباق کے ساتھ گفتگو کا اندازانہیں دیگر میں ممتاز کرتا ہے۔حسیب صاحب دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ قلم و قرطاس سے بھی وابستہ ہیں۔ قرآن مجیدکے حوالے سے وہ مستقل مزاجی سے کام کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد قرآن کریم فرقان حمید میں درج اللہ کا پیغام اردو زبان میں لوگوں تک پہچانا ہے۔ قرآن کے دعوتی اسلوب کے حوالے سے ان کی تحقیق قابل تعریف ہے۔ قرآن مجید کا اردو ترجمہ ان کی کئی سال کی مسلسل محنت،توجہ اور تحقیق کا ثمر ہے۔معروف صحافی آغا مسعود حسین نے درست لکھا کہ ”عبدالحسیب خان صاحب قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے قرآن کریم کے اعلیٰ مقاصد کو آسان زبان میں پیش کر کے لاکھوں لوگوں کی بل واسطہ رہنمائی کی ہے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا ہے کہ اگر مسلمان اپنا کھویاہوا مقام حاص کرنا چاہتے ہیں تو انہیں قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے اور اس میں ان رازوں کی تلاش کرنے کی جستجو کرنی چاہیے جس کو پاکر ہم موجودہ دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں“۔
عبدالحسیب خان صاحب چھ سال سینیٹر رہے اور ایک سیاسی جماعت سے وابستہ بھی۔ ان کی زندگی کے یہ چھ سیاسی سال گواہ ہیں کہ اگر کوئی عوام الناس کی خدمت کے جذبہ سے سیاست میں قدم رکھے تووہ عوام میں سرخ رو ہوسکتا ہے۔ سینیٹر ہونا تو بہت بڑی بات ہے ہمارے ملک میں تو کونسلر بن جانے والے اپنے آپ کو صفحہ اول کا سیاست داں تصور کرنے لگتے ہیں، سب نہیں اکثر۔ یہی نہیں بلکہ سیاست کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیتے ہیں اور فرش سے عرش پر پہنچ جاتے ہیں۔ایسی مثالیں بے شمار ہیں آج سے چند سال قبل ہوائی چپل پہن کر سیاست کرنے والے آج امریکہ، کنیڈا، دبئی اور دیگر مہنگے ترین ملکوں میں عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔حسیب خان صاحب ایک مثالی انسان ہیں جنہوں نے سیاست کی لیکن اسے ذریعہ معاش نہیں بنایا اور خدمت ِ انسانی کو اس وقت بھی اور آج بھی اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں۔سرور باربنکوی کا ایک شعر جو حسیب خان صاحب کے لیے ؎

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے، وہ لوگ
آپ نے دیکھے نہ ہوں شاید مگر ایسے بھی ہیں
قرآن مجید کی سورہ ’الزمر‘ (۹۳)، پارہ ’ومالی‘ (۳۲)، آیت (۳۲)، ترجمہ: قرآن کے بارے میں اللہ کا فرمان ”اللہ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آپس میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی ہوئی آیتوں کی ہے جس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب کا خوف رکھتے ہیں۔ آخر میں ان کے جسم اور دل اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف نرم ہوجاتے ہیں۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت جسے چاہے راہ راست پر لگا
دیتا ہے اور جسے اللہ تعالیٰ ہی راہ بھلا دے اس کا ہادی کوئی نہیں“۔ علامہ اقبال نے قرآ ن پڑھنے کی فضیلت اپنی ایک نظم میں اس طرح بیان کی ؎
لکھنا نہیں آتا تو میری جان پڑھا کر
ہوجائے گی تیری مشکل آسان پڑھا کر
پڑھنے کے لیے اگر تجھے کچھ نہ ملے تو
چہروں پر لکھے درد کے عنواں پڑھا کر
لاریب تیری روح کو تسکین ملے گی
تو قرب کے لمحات میں ’قرآن‘ پڑھا کر
آجائے گا تجھے اقبال‘ تجھے جینے کا قرینہ
سرور کانین ﷺ کے فرمان پڑھا کر
آخر میں اپنی بات نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایاپر ختم کرتا ہوں جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ ”میں تمہارے درمیاں ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ کبھی گھمراہ نہ ہوگے اگر اس پر قائم رہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے“۔ اللہ پاک اس نیک اور بابرکت کام کرنے پرمؤلف کو اجر عظیم سے بَہرمَند فرمائے۔ آمین(27جولائی2024 ء)




Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1436336 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More