یہ ضروری نہیں کہ فرشتے ہی زمین پر اترکر اچھے کام
کرینگے۔ آج بھی دنیا میں ایسے نیک سیرت اور فرشتہ صفت انسان موجود ہیں جن
کے بے داغ کردار ، قول و فعل اور شخصیاتی خوبیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا
ہے کہ وہ اگر فرشتے نہیں تو فرشتوں جیسے ضرور ہیں ۔سب سے پہلے میں جس فرشتے
کی بات کررہاہوں ان کا نام "مجیب الرحمن شامی" ہے ۔ان سے میرا تعارف 1999ء
میں اس وقت ہوا جب مجھے صحافتی دنیا میں کوئی نہیں جانتا تھا۔اس وقت یکے
بعد دیگرے میری تین شائع ہوئیں جن میں کوسوو کا المیہ ، کارگل کے ہیروز اور
کارگل سے واپسی کیوں ؟ شامل تھیں۔ ان کتابوں نے ادبی اور صحافتی حلقوں میں
تہلکہ مچا دیا ۔ایک صبح پاکستان ٹیلی ویژن کرنٹ آفیئر کے ہیڈ افتخار مجاز
کی کال مجھے موصول ہوئی ۔وہ بتا رہے تھے کہ کل رات وہ میری کتاب "کارگل کے
ہیروز" پڑھ رہے تھے ۔کتاب اتنی دلچسپ تھی کہ پڑھتے پڑھتے رات کے دو بج گئے
۔ اس لمحے اچانک کمرے میں مجھے تیز خوشبو کا احساس ہوا۔میں نے اٹھ کر دیکھا
تو گھر کے سبھی افراد سو رہے تھے۔ یقینا وہ کسی شہید کی روح کا گزر میرے
کمرے سے ہوا ہوگا۔افتخار مجاز نے مجھے کہا کہ میں ابھی تک اس خوشبو کے حصار
سے نہیں نکل سکا ۔پھر ایک دوست جمیل بٹ کے تعاون سے ابتدائی تین کتابوں کی
اکٹھی تقریب رونمائی کا فیصلہ ہو ا تو میں" کارگل کے ہیروز" کتاب لے کر
مجیب الرحمن شامی صاحب کے دفتر پہنچا ۔ شامی صاحب نے نہ صرف اپنی رضامندی
کا اظہار کیا بلکہ تقریب رونمائی کے دوران ایک زور دار تقریر کر ڈالی ۔ یاد
رہے کہ اس وقت جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان کی حیثیت سے ہمارے کندھوں پر
سوار تھے ۔شامی صاحب جیسے نڈر صحافی کی تقریر سن کر پورا ہال سکتے میں آگیا
۔اس لمحے صوبائی وزیر ڈاکٹر خالد رانجھا ، ڈاکٹر شفیق جالندھری ،ڈاکٹر نصراﷲ
رانا سمیت ادب و صحافت کے کتنے ہی شاہکار لوگ ہال میں موجود تھے ۔سب نے
شامی صاحب کی تقریر کو سراہتے ہوئے خوب داد دی ۔شامی صاحب سے یہ میری پہلی
ملاقات تھی ۔اس کے بعد میری سوانح عمر ی "لمحوں کا سفر "کی تقریب رونمائی
میں مجیب الرحمن شامی صاحب نے مجھ ناچیز کی سوانح عمر ی کو تاریخ میں ہمیشہ
زندہ رہنے والی کتاب قرار دے کر میرا حوصلہ بڑھایا۔ ان کے بعد سابق چیف
جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ صاحب نے بھی کتاب کو خوب سراہا ۔جب تقریب اختتام
پذیر ہوئی تو شامی صاحب نے مجھے اپنے قریب بلایا اور حکم دیا کہ آپ کی یہ
کتاب بہت دلچسپ ہے، اس کتاب کا مسودہ لاکر مجھے دے دیں ۔ پروف ریڈنگ میں
خود کروں گا ۔ اس لمحے میرے دل سے شامی صاحب کے لیے بے حد دعائیں نکل رہی
تھیں۔کیونکہ شامی صاحب جس مقام اور مرتبے پر فائز ہیں ان کی زبان اور قلم
سے نکالا ہوا ہر ایک لفظ اہمیت رکھتا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب میں اپنی
سوانح عمری کا مسودہ شامی صاحب کے سپرد کیا تو انہوں نے ایک باکس فائل میں
مسودہ رکھ کر اپنے میز پر سجا لیا بلکہ پروف ریڈنگ بھی شروع کردی ۔بلاشبہ
یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا ۔اس کے بعد ماں ، پاکستان کے سربراہان مملکت،
افواج پاکستان تاریخ کے آئینے میں ، شہادتوں کا سفر، شہدائے وطن، وطن کے
پاسبان ، قومی ہیروز حصہ اول و دوم سمیت جتنی بھی کتابوں کی تقریب رونمائی
کا اہتمام ہوا ۔شامی صاحب بطورمہمان خصوصی شریک ہوتے رہے اور میرا حوصلہ
بڑھاتے رہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر میرے والد بھی زندہ ہوتے وہ بھی میرے
لیے اتنا کچھ نہ کرسکتے جتنا کچھ شامی صاحب نے میری ہر سطح پر پذیرائی کرکے
کیا ۔ ایک ماہ پہلے کی بات ہے کہ میں اپنے بیٹے شاہد کے ہمراہ ملاقات کے
لیے شامی صاحب کے دردولت پر حاضر ہوا۔ملاقات کے دوران انہوں نے محسوس کیا
کہ قوت سماعت کمزور ہونے کی بنا پر مجھے ان بات سمجھ نہیں رہی۔ انہوں نے
اسی وقت موبائل پر حمید لطیف ہسپتال کے ای این ٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد
راشدضیا ء صاحب سے بات کی اور انہیں کہا کہ اسلم لودھی ہمارے کالم نگار ہیں
یہ قوت سماعت میں کمی کا شکار ہیں ،ان کے علاج کے لیے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ
کریں۔ جب ہم دونوں باپ بیٹا پروفیسر ڈاکٹرمحمد راشد ضیاء کے پاس پہنچے تو
انہوں نے میرے کانوں کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد ایک نسخہ لکھ دیا اورکہا
کہ دو ہفتے کے بعد آپ آڈیو میڈس سنٹر جاکر آلات لگوا لیں ۔جب ہم دونوں
متعلقہ آڈیو سنٹر پہنچے تو وہاں پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ آلے کی قیمت
60ہزار روپے ہے ۔جبکہ ہم دونوں باپ بیٹا خالی جیب تھے ۔میرے بیٹے نے
پروفیسرڈاکٹر محمد راشد ضیاء صاحب سے موبائل پر بات کی تو انہوں نے آڈیو
سنٹر کے چیف ایگزیکٹو سرفراز احمد سے کچھ کہاجس کے بعد سرفراز صاحب پچاس
فیصد رعایت دینے پر آمادہ ہوگئے ۔گویااب بات تیس ہزار تک آ پہنچی ۔ گھر
واپس آکر میں نے مجیب الرحمن شامی صاحب صورت حال سے آگا ہ کیا تو انہوں نے
اسی وقت فرمایا آدھے پیسے میں دے دیتا ہوں ،آدھے پیسوں کا آپ انتظام کرلیں
۔بلاشبہ یہ ان کی ذرہ نوازی تھی ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ میں بنک آف پنجاب
میں بطور بنک میڈیا کوارڈی نیٹر کی حیثیت سے بیس سال ملازمت کرکے 2014ء میں
ریٹائر ہوا ہوں۔ یوں تو بنک آف پنجاب ،حکومت پنجاب کا بنک کہلاتا ہے لیکن
جب پنشن دینے کی باری آتی ہے تو صاف کہہ دیا جاتا ہے کہ ریٹائر ملازمین کو
پنشن دینا ہماری پالیسی میں شامل نہیں ۔ اس لیے نہایت کسمپرسی ،بڑھاپے کی
حالت میں وارد ہونے والی پے درپے بیماریوں کا میں ان دنوں شکار ہوں ۔ زندگی
کو جاری رکھنے کے لیے ہزاروں روپے کی ادویات استعمال کرنی پڑتی ہیں۔جو
ہسپتالوں کے چکر لگتے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ کانوں کے
آلات خریدنے کے لیے میری جیب خالی تھی ۔شامی صاحب کا اگر گرانقدر تعاون
حاصل نہ ہوتا تو شاید ہم آلے بغیر خریدے ہی گھر واپس آجاتے ۔اس حوالے سے
میں پروفیسر ڈاکٹر محمد راشد ضیاء ، آڈیو سنٹر کے چیف ایگزیکٹو سرفراز احمد
اور بہت ہی تعاون کرنے والی بیٹی مریم جس نے میری قوت سماعت کے مطابق آلات
کو سانچے میں ڈھالا ۔یقینا وہ بھی میرے لیے لائق تحسین ہیں ۔اگریہ کہا جائے
تو غلط نہ ہو گا کہ اگر مجیب الرحمن شامی صاحب کی سرپرستی اور گرانقدر
تعاون مجھے حاصل نہ ہوتا تو میرے لیے زندگی اتنی ہی مشکل رہتی، جتنی اس سے
پہلے تھی ۔ اب جب میں کانوں پر آلات لگاتا ہوں تو مجھے اپنے روبرو بیٹھے
ہوئے شخص کی صاف آواز سنائی دیتی ہے ۔اس لیے میں بلاشبہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ
مجیب الرحمن شامی میرے لیے انسان کے روپ میں فرشتہ ثابت ہوئے ہیں ۔
|