سول کوارٹر ، ابدالی گراﺅنڈ پربڑھتا ہوا تناﺅ اور دو سال کے مالی ریکارڈ کے غائب ہونے پر خاموشی
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور کے سول کوارٹرمیں واقع ابدالی ہاکی گراﺅنڈ کو ایک مرتبہ پھربند کردیا گیا ہے اوراس حوالے سے ایک اعلامیہ بھی گذشتہ روز گراﺅنڈ پر لگا دیا گیا جس میں غیرمعینہ کی جگہ غیرمتاعنہ لفظ لکھ کر گراﺅنڈ بند کرنے کے کی اطلاع دیدی گئی ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ذرائع کے مطابق گراﺅنڈزکی بندش کے اعلامیہ پر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبرپختونخواہ کانام لکھا گیا ہے تاہم یہ بندش فٹ بال کے کھلاڑیوں کے وہاں پر تعینات اہلکاروں کیساتھ پیش آنیوالے ناخوشگوارواقعے کے بعد اٹھایا گیا جس میں فٹ بال کے کھلاڑیوں اور انتظامیہ کے مابین جھگڑا پیش آیا . صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی خاطر راتوں رات گراﺅنڈزکی بندش کا اعلامیہ جاری کردیا گیا.سول کوارٹر کے علاقے میں زیادہ تر سیکرٹریٹ اور اس سے ملحقہ ڈیپارٹمنٹس سے وابستہ ملازمین رہائش پذیر ہیں اور بیشترملازمین شام کے اوقات میں یہاں پر پریکٹس کرتے ہیںاسی طرح فٹ بال اور ہاکی سمیت والی بال کے کھلاڑی بھی پریکٹس کرتے نظر آتے ہیں .
سول کوارٹر کے ابتدائی دور میں یہاں پر دو گراﺅنڈز تھے جس میں ایک گراﺅنڈ فٹ بال کیلئے مختص تھا جبکہ دوسرا گراﺅنڈ ہاکی کیلئے مختص تھا اے این پی کے دور حکومت میں فٹ بال گراﺅنڈز پرملازمین کے بڑھتے ہوئے رہائشی مسائل کے پیش نظر رہائشی فلیٹس بنا دئیے گئے جو کہ ملازمین کو دئیے گئے جبکہ ایک ہی گراﺅنڈ پر جوکہ ابدالی ہاکی گراﺅنڈ ہے پر اب فٹ بال اور والی بال کے کھلاڑی بھی پریکٹس کیلئے آتے ہیں ، گراسی گراﺅنڈز ہونے کی وجہ سے فٹ بال اور والی بال کے کھلاڑی کو اچھی طرح کھیلتے ہیں لیکن جس کھیل یعنی ہاکی کیلئے یہ گراﺅنڈز بنایا گیا تھا اس پر ٹرف نہ ہونے کی وجہ سے اسی طرح نہیں کھیل سکتے جس طرح سے کھیلناچاہئیے. تاہم ان تین گیمز سے وابستہ گروپوں میں عرصہ دراز سے کشمکش جاری ہے، ہاکی کے کھلاڑی سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا گراﺅنڈز ہے اورکھیلنا صرف ان کا حق ہے ، فٹ بال کے کھلاڑی سمجھتے ہیں کہ ان کا گراﺅنڈز ختم کیا گیا اوراب وہ شاہی باغ نہیں جاسکتے اس لئے یہاں پر کھیلنا ان کا حق ہے جبکہ والی بال والوں کا بھی تقریبا یہی کہنا ہے. اسی باعث سال کے چھ ماہ ان تین کھیلوں کے کھلاڑیوں میں آنکھ مچولی اس بات پر ہوتی ہے کہ ہم زیادہ کھیلے ، یا دوسرے کو کھیلنے نہ دیں جو بعض اوقات جھگڑے کی صورت اختیار کر جاتی ہیں.
دوسری طرف سول کوارٹر میں رہائشی ملازمین جن میں بیشتر سول سیکرٹریٹ کے مختلف عہدوں پر تعینات لوگ ہیں ان کی اپنی ایک سوچ اور اپنے آپ کو بالاتر سمجھنے کی روش ہے ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کمیونٹی گراﺅنڈز ہے اور اس میں چہل قدمی ان کا بنیادی حق ہے جسے کوئی نہیں بند کرسکتا ، خواتین بھی بعض اوقات یہاں پر چہل قدمی کیلئے آتی ہیں اور اس عمل کو جاری رکھنے کیلئے یہاں کے رہائشی اپنے سیکرٹریٹ ملازم ہونے کا فائدہ اٹھا کر کبھی کبھار سیاسی رابطے بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے افسران سے کرواتے ہیں اوراسی بنیاد پر بعض اوقات بھی صورتحال خراب ہو جاتی ہیں.یہاں پرکھیلنے کیلئے آنیوالے افراد سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے ممبرشپ اور ایڈمشن فیس کے نام پر ایک برائے نام فیس جو کہ پانچ سو روپے اور تین سو روپے ہیں متعین کی ہے جو کہ ہر ایک آنیوالے شخص کو ادا کرنے کی ہدایت کی گئی اور یہ سلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے ، جس میں بعض اوقات چہل قدمی کرنے والے اوربعض کھیلوں کے کھلاڑی یہ فیس نہیں دیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے اور اپنے ساتھ زیادتی کے خلاف وہ مشترکہ طور پر آواز اٹھاتے ہیں جس سے بیشتر اوقات لڑائی جھگڑے کی صورتحال پیدا ہوجاتی ہیں اور گذشتہ روز پیش آنیوالا واقعہ بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے.
کمیونٹی ممبران اور کھلاڑیوں کی جانب سے جھگڑوں میں اضافے کی بڑ ی وجہ حالیہ پیش آنیوالا ایک افسوسناک واقعہ ہے جس میں گذشتہ دو سالوں کا ریکارڈ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے پاس نہیں بھیجا گیا ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے زیر انتظام اس گراﺅنڈز سے حاصل ہونیوالی آمدنی کے حوالے سے کم و بیش ایک ماہ قبل مشیر کھیل خیبر پختونخواہ نے انکوائری کی ، تو پتہ چلا کہ صرف چھ ما ہ کا ریکارڈ موجود ہے جبکہ بقایا ریکارڈ کسی کے پاس نہیں کہ کتنی رقم آئی ہیں اور کتنی جمع کروائی گئی ، اس بارے میں صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے معاملے کی تحقیقات کیلئے دورکنی کمیٹی بھی بنائی لیکن یہ کمیٹی بھی کچھ نہیں کرسکی کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ اگر اس واقعے میں جس اہلکار کا نام لیا جارہا ہے جو رقم جمع کرنے کا ذمہ دار ہے اس حوالے سے اگر وہ کوئی رپورٹ کرتے ہیں تو پھر مستقبل میں ان کیلئے مسئلہ بن سکتا ہے اسی باعث انکوائری تو نہیں ہوسکی البتہ یہ گراﺅنڈز نئے اہلکاروں کے ذمے ڈال دیا گیا ، یہاں پر آنیوالے کھلاڑیوں و کمیونٹی ممبران اس بات پر برہم ہے کہ کہ دو سالوں کا ریکارڈ ان کے پاس نہیں اوران سے جو رقم لی گئی وہ کس نے لی اس پر بھی خاموشی ہے ایسے میں اگر وہ اس طرح فیسیں جمع کرتے رہے اور ڈائریکٹریٹ اس پر خاموش رہا تو یہ عمل ان کے ساتھ زیادتی ہے اس لئے وہ اب فیسوں سے انکاری ہیں.
اس تمام صورتحال میں وہاں پر تعینات اہلکاروں نے ڈی جی سپورٹس کے نام سے مراسلہ تو یہاں پر لگا دیا کہ یہ گراﺅنڈز مکمل طور پر اب کچھ عرصہ کیلئے بند ہے لیکن ایک گراﺅنڈز کو کھلاڑیوں کو کس طرح بند کیا جاسکتا ہے کیونکہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا بنیادی کام کھیلوں کا فروغ اور کھلاڑیوں کو سہولیات کی فراہمی ہے - اس تمام صورتحال میں اب ذمہ داری مشیر کھیل اور ڈی جی سپورٹس کی بنتی ہے کہ وہ غیر جانبدارانہ انکوائری کروائے کہ دو سالوں کے فنڈز جمع نہ کرنے میں کون ملوث ہے اور جولوگ اس میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی کرکے ملوث افراد کو برطرف کیا جائے تبھی نہ صرف کھلاڑیوں کا اعتماد بحال ہوگا بلکہ سول کوارٹر ز گراﺅنڈز میں آنیوالے افراد بھی اس بات پر یقین کرلیں گے کہ ان سے حاصل ہونیوالی فیسیں واقعی اسی جگہ جارہی ہیں جہاں پرلگنی چاہئیے اور وہ فیسیں بھی جمع کرینگے ورنہ دوسری صورت میں جھگڑوں کی صورتحال بھی کم ہو جائیگی .ورنہ دوسری صورت میں ہر ماہ پیش آنیوالے جھگڑوں کے واقعات بھی بڑھتے رہیں گے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان تین مختلف کھیلوں سے وابستہ کھلاڑیوں کو ہوگا. #Peshawar #SportsGroundClosure #Hockey #Football #Volleyball #CommunityDispute #GovernmentCorruption #SportsGovernance #KhyberPakhtunkhwa
|