جنگلے چوری ، کیمروں کی ری لوکیشن ، سابقہ تنخواہیںاور بند آنکھوں والے افسران



پشاور کے لالہ ایوب ہاکی سٹیڈیم میں میڈیا لاونج کے اوپر بنائے گئے شائقین کے بیٹھنے کی جگہ سے جنگلے غائب ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا جس کی اطلاع بمعہ تصاویر کی انہی صفحات کے ذریعے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو کردی گئیجس پر خواب خرگوش میں ڈوبی ہوئی انتظامیہ بیدار تو ہوگئی لیکن ان کی بیداری بھی کام نہ آئی اور کیمروں کی انسٹالیشن کے بعد بھی اب انتظامیہ کو پتہ چلا ہے کہ کیمرے جہاں پر لگائے گئے ہیں وہاں سے چوری کے ان واقعات کا پتہ لگانا مشکل ہے.اسی وجہ سے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ نے کم و بیش تین ماہ قبل لگائے جانیوالے کیمروں کی دوبارہ ری لوکیشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے بعد کیمرے مختلف جگہوں پر لگائے جائیں گے.یہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کا فیصلہ ہے جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انتظامیہ کرپشن و چوری کے خاتمے کیلئے کتنی کوشاں ہے.کیونکہ قبل ازیں بھی انتظامیہ کے کہنے پر کیمرے لگائے گئے تھے اب ان کیمروں کی دوبارہی ری لوکیشن اور مزید کیمروں پر پر کتنے اخراجات آئیں گے یہ الگ سوال ہے .

کچھ عرصہ قبل تک یہی کہا جاتارہا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں چوری کی واقعات کی روک تھام سمیت دیگر معاملات کیلئے کیمرے لگائے جائیں ، کیمرے لگنے کے بعد چوری سمیت کھیلوں کے مختلف گراﺅنڈز میں کھیلوں کا سامان توڑنے کے واقعات ہوئے تو یہ کہا گیا کہ سٹوریج کی کمی ہے اس لئے ہم زیادہ دنوں تک ڈیٹا جمع نہیں کرسکتے جس کیلئے الگ پیمنٹ ہوئی اور ایک مرتبہ پھر کیمروں کی انسٹالیشن کا عمل شروع کیا گیا ، جبکہ اب کی بار ایک مہینے کی سٹوریج کی بات کی گئی لیکن ساتھ میں یہ کہا گیا کہ کیمروں کی غلط انسٹالیشن کی وجہ سے چور کا پکڑنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے.حالانکہ اصل حقیقت یہی ہے کہ جنگلوں کی اس چوری میں اندر کے لوگ ہی ملوث ہیں جنہیں پتہ ہے کہ کس طریقے سے یہ سامان نکالنا ہے اسی طرح کس وقت نکالنا ہے لیکن اگر انتظامیہ اس پر ہاتھ بھی ڈالتی ہے تو پھر انہیں پتہ ہے کہ اس میں آہستہ آہستہ سب کے نام سامنے آجائیں گے اس لئے اس معاملے پرخاموشی بہتر ہے.

خیر یہ تو ایک خبر ہے لیکن اصل خبر یہ ہے کہ ہاکی کے ایک کھلاڑی جو کہ پشاورہاکی کی طرف سے کھیلتے ہیں انہوں نے ہماری اٹھائے جانیوالے چوری کی خبر کو یہ کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی کہ "آپ فارغ ہو" اس لئے یہ خبریں چلاتے ہوں ، یعنی ان کی نظر میں چوری کی کوئی اہمیت نہیں ، حالانکہ وہ خود اسی گراﺅنڈز میں کھیلتے ہیں اور انہیں اس گراﺅنڈز سے اتنی محبت ہے کہ انہیں اس میں جنگلوں کی چوری پر افسوس کرنے کے بجائے اس کی خبر لانے والے پر اعتراض ہے.ایک اور صاحب نے بھی اس پر اعتراض کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کھلاڑیوں کے مسائل پر توجہ دی جائے ، سوئمنگ سے وابستہ یہی صاحب ہر وقت شکایت کرتے ہیں کہ عادل خان سوئمنگ پول کا پانی گندہ ہے لیکن وہ خود اسی گندے پانی میں سوئمنگ کرتے ہیں اس وقت انہیں گندگی نظر نہیں آتی.اسے منافقت کہیے ، یا کچھ اور لیکن ہر کوئی اپنی ڈفلی بجا رہا ہے انہیں اس سے کوئی غرض نہیںکہ عوامی ٹیکسوں کا پیسہ جہاں کرپشن کرکے غیر معیاری چیزیں بنا کر ضائع کیا جاتا ہے وہیں پر سپورٹس کے شعبے میں اور خصوصا خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں چوری کی اس طرح کی وارداتیں کرکے پیٹ بھرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں حالانکہ جن کے پیٹ اللہ تعالی نے نہیں بھرے ان کی پیٹ دنیا کی کوئی طاقت پر نہیں کرسکتی.

طاقت سے یاد آیا چند روز قبل سابق ڈی جی سپورٹس کے دور میں برطرف کئے جانیوالے دیگر اہلکاروں میں سے کچھ اہلکار گذشتہ روز تعینات ہوگئے یہ بیشتر ڈیلی ویجز ہیں جنہوں نے اس دوران ڈیوٹی بھی انجام دی لیکن انہیںگذشتہ کئی ماہ سے "اوبہ شی " کے نام پر لائن میں رکھا گیا ، بتیس ہزار روپے تنخواہ پر رکھے جانیوالے ان ملازمین کی سابقہ تنخواہوں کا کیا ہوگا اس بار ے میں خاموشی ہے البتہ انہیں کہا جارہا ہے کہ جولائی سے ان کی تنخواہیں شروع ہو جائینگی اور بقایا جات پر انہیں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہیں ، یہاں پر سوال یہ بنتا ہے کہ آخر ڈیلی ویج ملازمین کی آنیوالی تنخواہیں کہاں پر گئیں اور انہیں لے جانیوالے کونسے طاقتور لوگ ہیں جن کے بارے میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ بھی خاموش ہیں اور ملازمین کو ان کی خون پسینے کی کمائی بھی نہیںدی جارہی . لیکن اس تمام عمل میں یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ " پیا وہی جسے پیا من چاہے " یعنی جسے انتظامیہ چاہے وہی سب کچھ ہے .باقی خیرخیریت ہے.کیونکہ پوچھنے والا کوئی نہیں.

پوچھنے کا معاملہ صرف یہی نہیں بلکہ کوئی یہ بھی نہیں پوچھ رہا کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت ضم اضلاع کے کوچز کس طرح پاکستان سپورٹس بورڈ کے ایک پرائیویٹ جیم میں تعینات ہیں ، جنہیں تنخواہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبرپختونخواہ دیتی ہیں لیکن ان کا بیشتر دورانیہ ڈیوٹی کا پی ایس بی پشاور کے پرائیویٹ جیم میں گزرتا ہے جہاں پر آنیوالے کھلاڑیوں سے ادائیگی کرنے پر تربیت پر توجہ دی جاتی ہیں سوال یہ ہے کہ سرکاری خزانے سے تنخواہیں لینے والے ملازمین کس طرح دوران ڈیوٹی ایک پرائیویٹ جیم میں ڈیوٹی کرتے ہیںان کی ڈیوٹیوں کا سلسلہ کچھ عرصہ سے جاری ہے لیکن نہ تو سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی انتظامیہ کو پتہ چل رہا ہے اور نہ ہی کوئی ان سے یہ پوچھ رہا ہے کہ کونسے قانون کے تحت کام ہورہا ہے یا پھر ان سے کوئی یہ پوچھے کہ یہ لوگ اپنے سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے جیم میں کیوں کام نہیں کرتے .اور اب تک انہوں نے کتنے کھلاڑی اپنے شعبے میں پیدا کئے ہیں .مشیر کھیل خیبر پختونخواہ کو تو کھیلوں کے بارے میں اتنا پتہ نہیں ، ڈی جی سپورٹس بھی صرف کرکٹ کی حدتک محدودہیں کیونکہ کرکٹررہ چکے ہیں لیکن انتظامی امور سمیت خوشامد اور خوشامد کے ماہر بہت سارے افسران کو اس بارے میں علم ہے وہ کیوں اس معاملے پر خاموش ہیں کہیں انہیں اس بات کا خطرہ تو نہیں کہ اگرانہوں نے اعتراض کردیا تو پھر یہ سوال بھی اٹھایا جائیگا کہ افسرا ن کے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین سمیت کلاس فور سے براہ کوچز بننے والے ملازمین بھی سامنے لائے جائیں تو پھر وہ بھی پھنس جائیں گے.
#kikxnow #digitalcreator #sportsnews #mojo #mojosports #kpk #Kp #coaching #swimming
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 618 Articles with 472785 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More