اولمپک تنازعہ: ایمان، اخلاقیات اور کھیلوں کا میدان
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
اولمپک، عالمی سطح پر کھیلوں کا سب سے بڑا اور معتبر ترین ایونٹ، ہمیشہ سے مختلف ثقافتوں اور مذاہب کا ایک ساتھ ہونے کا ایونٹ رہا ہے۔ حالیہ دہائیوں میں، مسلمان کھلاڑیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو ان کی بڑھتی ہوئی ایتھلیٹک صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی ایک ایسا تنازعہ بھی پیدا ہوا ہے جو کھیل اور مذہب کے درمیان ایک پیچیدہ تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
اولمپک ویلیج، جہاں دنیا بھر سے کھلاڑی جمع ہوتے ہیں، میں کنڈوم کی فراہمی ایک روایتی عمل بن چکی ہے۔ یہ اقدام بنیادی طور پر جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے بچاو کے نام پر کیا جاتا ہے۔ تاہم، یہ عمل بہت سے مسلمان کھلاڑیوں کے مذہبی عقائد کے ساتھ ٹکراو کا باعث بن رہا ہے. اس پر اپنے آغاز سے لیکر تاحال پیرس 2024 اولمپکس تک کسی بھی مسلمان ملک یا کسی بھی مسلمان کھلاڑی یا وفد نے اعتراض نہیں کیا اورمسلسل اس پر خاموشی چھائی ہوئی ہیں. جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ اس معاملے پر خاموش رہنا چاہتے ہیں ۔لیکن کیوں
اسلام میں، شادی سے باہر جنسی تعلقات کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے اولمپک ولیج میں کنڈوم کی فراہمی، بہت سے مسلمانوں کے لیے ایک اخلاقی چیلنج پیش کرتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کھلاڑیوں کو اپنے مذہبی عقائد کو برقرار رکھتے ہوئے عالمی سطح پر مقابلہ کرنا چاہیے یا پھر اولمپک کے ماحول میں ڈھل جانا چاہیے؟ یا انہیں اس بات کو اٹھانا چاہیئےکہ آیا یہ کھیلوں کے فروغ کیلئے ہے یا جنسی تعلقات کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے ۔
یہ تنازعہ اولمپک کمیٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کمیٹی کواب ایک ایسے ماحول کو فروغ دینا ہے جہاں تمام کھلاڑیوں کو برابری کا موقع ملے اور وہ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کھیل سکیں۔ ساتھ ہی، کمیٹی کو کھلاڑیوں کی صحت اور سلامتی کو بھی یقینی بنانا ہے۔
اس تنازعہ کا کوئی آسان حل نہیں ہے۔ تاہم، اس پر کھلے طور پر بات چیت کرنا ضروری ہے۔ کھلاڑیوں، کوچز، مذہبی رہنماوں اور اولمپک کمیٹی کے درمیان ایک مشترکہ پلیٹ فارم بنایا جانا چاہیے تاکہ اس مسئلے پر بات چیت کی جا سکے اور اس کا کوئی حل نکالا جا سکے۔ #olympics #sports #condom #pakistan #muslimsilent #sexorsports |