قلعہ سوبھا سنگھ کی آواز

 

تحریر :عبدالخالق چودھری
پنجاب کے ضلع نارووال کا قصبہ قلعہ سوبھا سنگھ تاریخی اہمیت کا حامل ہے جس کو تاریخ مخزن پنجاب بطبع 1877 کے مطابق تقریبا سو سال قبل سردار بھاگ سنگھ آہلو والیہ نے یہاں آکر موضع بلوچ پور سے زمین خرید کر مٹی کا کچا قلعہ بنوایا اور اس بستی کا نام اپنے بیٹے سوبھا سنگھ کے نام پر قلعہ سوبھا سنگھ رکھا قلعہ کے چار دروازے تھے جن کے نام امرتسری دروازہ ۔ اکبری دروازہ ۔ پسروری دروازہ ۔ اور جموں دروازہ تھا یہ دروازے شام کو بند ہو جاتے تھے اور پھر کوئی قلعہ کے اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا قلعہ سوبھا سنگھ نارووال سے 21 کلومیٹر پسرور سے گیارہ کلومیٹر سیالکوٹ سے چالیس کلومیٹر لاہور سے ایک سو ستائیس کلومیٹر جبکہ نالہ ڈیک سے چار کلومیٹر اور سطح سمندر سے 830 فٹ بلندی پر واقع ہے قصبہ کے مشرقی جانب ایک نالہ بہتا ہے جو نکاسی آب کا کام دیتا ہے قیام پاکستان سے قبل یہاں سکینڈ پولیس اسٹیشن ڈاکخانہ بورڈنگ اسکول ڈسپنسری اور تھرڈ کلاس میونسپل کمیٹی تھی یہ میونسپل کمیٹی 1867 میں قائم کی گئی تھی جبکہ قلعہ میں 1857 میں پرائمری سکول قائم کیا گیا ہے جو اب تک موجود ہے قلعہ سوبھا سنگھ میں تاریخی مندر گرجا گھر اس بات کی نشاہدہی کرتے ہیں کہ یہ قصبہ کبھی ہندوں اور سکھوں کا گڑھ ہوتا تھا جبکہ 1893.94 میں اس کی آمدنی 3600 کا پر سکوں کے برابر تھی تب عمارت کچی پکی تھی جبکہ 275 دکانیں 1135 گھر جبکہ آبادی 4520 افراد پر مشتمل تھی اور یہ ایک بڑا اور معروف کاروباری قصبہ تھا پہلے پہل یہاں کھتری مہاجن و بیوپاری آباد ہوئے پھر کشمیری بھی کثرت سے یہاں آکر آباد ہو گئے جو شالبافی کا کام کرتے تھے ٹھٹیار کانسی اور پیتل کے برتن بناتے تھے یہاں کا پشمینہ اور ظروف کانسی اور پیتل کے برتن بہت مشہور تھے جو بیرون شہروں میں فروخت ہوتے تھے اور قلعہ سوبھا سنگھ ایک معروف کاروباری قصبہ تھا یہاں دور دراز کے علاقوں سے خریداری کے لیے لوگ آتے تھے جبکہ شہر کے باہر معمرہ راجو مل بہلوال پنڈت انوکھا اور سردار موہن سنگھ کے باغات تھے 1912 میں قلعہ سوبھا سنگھ میں ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا جبکہ 10 دسمبر 1915 کو قلعہ سوبھا سنگھ میں ریل گاڑی آئی قصبہ میں 97فیصد مسلم 2.50 فیصد عیسائی جبکہ0,50 فیصد ہندو قادیانی وغیرہ آباد ہیں اور قلعہ سوبھا سنگھ بہت بڑا تجارتی مرکز تھا قیام پاکستان کے بعد قلعہ سوبھا سنگھ نے نمایاں ترقی کی اور حبیب بینک۔ یونائٹیڈ بینک۔ نیشنل بینک۔ پنجاب بینک۔ گورنمنٹ ہائی سکول فار بوائز گرلز گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول فار گرلز نجی تعلیمی ادارے نجی کالجز ۔ماڈل پولیس اسٹیشن۔ ٹیلی فون ایکسچینج رورل ہیلتھ سنٹر (ہسپتال) نجی کلینکس ہسپتال۔شفاخانہ حیوانات ۔نادرا دفتر۔ریونیودفتر۔ بلدیہ دفتر ۔واٹر سپلائی۔ سلاٹر ہاس۔ سبزی منڈی۔ اناج کی منڈیاں۔ دینی مدارس اور مذہبی عبادت گاہوں کی سہولیات فراہم ہو چکی ہیں 8 مارچ 1991 کو قصبہ کے باشندوں کی خواہش پر گورنر پنجاب نے قلعہ سوبھا سنگھ کا نام تبدیل کر کے احمد آباد رکھ دیا اور یکم جولائی 1991 کو ضلع نارووال بننے پر احمد آباد کو نارووال میں شامل کر دیا گیا جبکہ پہلے ضلع سیالکوٹ میں شامل تھاقلعہ احمد آباد سے لاہور راولپنڈی کراچی اور دیگر شہروں کو جانے کے لئے ٹرانسپورٹ آسانی سے مل جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قلعہ سوبھا سنگھ گردونواح کے علاقوں میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور بڑی تعداد میں گردونواح کے علاقوں سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ خریداری اور آمد و رفت کے لیے قصبہ کا رخ کرتے ہیں اور بہت سے دور دراز کے علاقوں سے آکر لوگ یہاں کاروبار بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے قصبہ میں اس وقت دکانوں کی تعداد لگ بھگ ایک ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے بہترین کاروباری سرگرمیوں کی وجہ سے قصبہ میں دکان کرایہ پر حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے اور کرایہ بھی لاکھوں روپے پگڑی کے ساتھ پون لاکھ تک پہنچ چکا تھا جبکہ آبادی میں بھی دن بدن بہت زیادہ اضافہ ہوتا رہا ہے پھر کیا ہوا کہ اچھے بھلے ترقی کرتے ہوئے معروف کاروباری تاریخی اہمیت کے حامل قصبے کو اندرونی و بیرونی سیاست دانوں کی نظر لگ گئی اور دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا ہوا قصبہ قصہ پارینہ بن گیا کاروباری سرگرمیاں رک گئیں دکانیں خالی ہو گئیں لوگ دکانوں کا کرایہ ادا نہ کرسکنیکی وجہ سے دکانیں خالی کر کیبھاگ گئے خریداروں کو قصبے سے ڈر لگنے لگا آمد و رفت کے لیے عوام الناس متبادل راستوں سے دیگر شہروں میں جانے پر مجبور ہو گئے کیونکہ تاریخی قصبہ میں داخل ہونے کے لیے دو سڑکیں تاریخی اہمیت رکھتی ہیں امرتسری دروازہ سے نکلنے والی سڑک جس پر ریلوے اسٹیشن گورنمنٹ ہائی سکول بلدیہ ریونیو دفاتر شفاخانہ حیوانات تاریخی قصبہ نونار سنکھترہ ٹپیالہ منیگڑی کنجروڑ گردوارہ کرتار پور شکرگڑھ اور دیگر سینکڑوں دیہات واقع ہیں جبکہ دوسری اہم سڑک جو کہ لاری اڈا چوک سے گورنمنٹ ہسپتال پولیس اسٹیشن تاریخی قصبہ لالہ دھم تھل ظفروال اور دیگر سینکڑوں دیہاتوں کو جاتی ہے عرصہ دراز سے ٹوٹ پھوٹ کر گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہیں بلکہ گندے نالوں جوہڑوں کا منظر پیش کر رہی ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی ٹریفک کا گزرنا ناممکن ہو چکا ہے اور بھینسیں اور جانور اس پانی میں بیٹھے رہتے ہیں اور آئے روز بہت سے لوگ جو انتہائی مجبوری میں ان سڑکوں پر سفر کے لیے نکلتے ہیں گڑھوں میں گر کر زخمی ہو رہے ہیں کیونکہ اہم ادارے ہسپتال پولیس اسٹیشن بھی ان سڑکوں پر قائم ہیں لیکن عوام ایمرجنسی میں بھی یہاں نہیں جا سکتے اور نہ ہی پولیس بروقت پہنچ سکتی ہے جس کی وجہ سے جہاں مریضوں کو صحت کی سہولیات حاصل کرنا مشکل ہے وہاں ایمرجنسی میں پولیس بھی بروقت نہیں پہنچ سکتی جس کی وجہ سے ایک طرف ہسپتال نہ پہنچنے سے جانی نقصان ہو رہا ہے دوسری طرف جرائم میں بھی اضافہ ہو رہا ہے دوسری اہم وجہ یہاں سوئی گیس کا کنکشن نہ ملنا ہے جبکہ عرصہ دراز سے گلیوں میں بھی سوئی گیس کی وائرنگ کا کام بھی ہو چکا ہے اور سوئی گیس کی فراہمی کا افتتاح بھی کیا جا چکا ہے سیاسی لحاظ سے قلعہ احمد آباد مسلم لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور عرصہ دراز سے مسلم لیگ کے ہی ایم پی اے اور ایم این اے کا یہ حلقہ رہا ہے اس وقت بھی خوش قسمتی سے اسی حلقے کے ایم پی اے چوہدری بلال اکبر خان صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ اور ایم این اے چوہدری احسن اقبال وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ہیں اور سابقہ دور حکومت میں ان سڑکوں کا افتتاح بھی کرچکے ہیں لیکن آج تک ان سڑکوں پر ایک انیٹ نہیں لگائی گئی اور اس قصبے کا کوئی پرسان حال نہیں قصبہ کے باشندے کاروبار بند ہونے سے فاقوں سے مر رہے ہیں عوام کی چیخیں اندرون و بیرون ممالک سے ہو کر آسمان تک پہنچ رہی ہیں صرف منتخب نمائندوں کو سنائی نہیں دیتی اور وہ خواب خرگوش کے مزے لینے میں مصروف ہیں اپنے منتخب نمائندوں سے گزارش ہے کہ اگر سڑکیں نہیں بنا سکتے تو قلعہ احمد آباد کو کشتیاں ہی دے دو کم از کم لوگوں کو آمد و رفت کے لیے کوئی ذریعہ مل سکے اور ہم قلعہ سوبھا سنگھ کا موازنہ وینس شہر سے کر کے ترقی یافتہ شہروں میں شامل ہو سکیں جبکہ مقامی موسمی سیاسی بونے اجڑیاں باغاں دا گالڑ پٹواری کی طرح تاریخی اہمیت کے حامل قصبے قلعہ احمد آباد کو تباہ و برباد ہوتے ہوئے قلعہ کی بنیادوں سے انٹیں اکھاڑکر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر امامت کے لیے کوششیں کر رہے ہیں خدا را مقامی سیاسی سماجی مذہبی شخصیات سے گزارش ہے کہ برادری ازم ذاتی عناد سیاسی چپقلش سے باہر نکل کر سردار بھاگ سنگھ کے بیٹے سوبھا سنگھ کے قلعہ کو بچا لو ورنہ آنے والی نسلیں تمھیں معاف نہیں کریں گی،بشکریہ سی سی پی۔
مائے نی میں کنوں اکھاں اجڑے قلعہ دا حال
بھوکھے مر گئے نے لوکی کوئی پچھ دا نئیں حال
ٹوٹیاں سڑکیں تے چلنا گڈیاں بساں دا محال
روز ہوندے حادثے زخمی ہوندے بڈھے نالے بال
 

Sayam Akram
About the Author: Sayam Akram Read More Articles by Sayam Akram: 63 Articles with 45414 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.