موجودہ دور میں نوجوان علماء کرام اور جدید فضلاء کی ذمہ داریاں

مولانا قاری محمدحنیف جالندھری وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری ،جامعہ خیر المدارس ملتان اور جامعہ الخیر لاہور کے رئیس اور اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں ۔اللہ رب العزت نے مولانا کو گونا گوں اوصاف وکمالات سے نوازا ہے ۔بیک وقت تعلیم وتدریس ،دعوت وتبلیغ ،اہتمام وانصرام ،تحریر وتقریر کے شعبوں میں گرانقدر خدمات سرانجام دے ہیں ۔گزشتہ تین دہائیوں سے مدارس دینیہ کے دفاع اور بقا کی جدوجہد میں مصروفِ عمل ہیں ۔ہر فورم اور محاذ پر اہل حق کی ترجمانی اور نمائندگی کا فریضہ کمال خوبی سے نبھا تے ہیں ۔گزشتہ دنوں مولانا محمد حنیف جالندھری ہماری خصوصی دعوت پر جامع مسجد محمدی شہزادٹاؤن اسلام آباد تشریف لائے اور علماءکے خصوصی ایک سالہ کورس کی افتتاحی تقریب کے موقع پر نوجوان علماءکرام اورجدید فضلاءسے جو گفتگو فرمائی وہ بلاشبہ آب ِزر سے لکھنے کے قابل ہے ۔افادہ عام کے لیے مولانا محمد حنیف جالندھری کے خطاب کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

”خطبہ مسنونہ کے بعد....میں برادر مکرم مولانا عبدالقدوس محمدی کو اس اہم اور مفید ترین کورس کے آغاز پر مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں اور ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے آپ سے ملاقات اور گفتگو کا موقع دیا ۔بغیر کسی تمہید کی آج کی مجلس میں مجھے آپ حضرات کے سامنے چند معروضات پیش کرنی ہیں ۔

آپ حضرات علماءہیں اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مختلف اوقات میں صحابہ کرام حاضر ہوتے اور سوالات پوچھا کرتے تھے۔ مثال کے طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال متعد د مرتبہ ہو ا کہ” یا رسول اللہ !کون سا عمل افضل ہے ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کے جواب میں کسی سے فرمایا جہاد افضل ہے ،کسی سے فرمایاوالدین کی خدمت جہاد ہے ،کسی کو انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا ،کسی کو غصہ نہ کرنے کی تلقین فرمائی الغرض سوال ایک ہی تھالیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حضرات کو مختلف جوابات مرحمت فرمائے ۔اس اختلاف کے بارے میں حضرات محدثین کرام کی آراءمختلف ہیں ۔بعض حضرات کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ مختلف جوابات سوال پوچھنے والوں کے حالات اور مزاج کی وجہ سے تھے ،مثلا ً آپ کو جس شخص کے بارے میں یہ معلوم تھا کہ یہ غصے کا تیز ہے اسے غصہ نہ کرنے کی ترغیب دی ،جس کے بارے میں والدین کی خدمت اور اطاعت میں کوتاہی کا خدشہ تھا اس کے لیے والدین کی خدمت کو جہا د قرار دیا،جس کے مزاج میں بخل پایا اسے انفاق فی سبیل اللہ کا درس دیا ۔جبکہ بعض حضرات کاکہنا ہے کہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف جوابات حالات اور مواقع کے اختلاف کی بنا پر تھے مثلاجب جہاد کا موقع درپیش تھا اس وقت جہا د کو افضل عمل قرار دیا ،جب فقراءکا تعاون کروانا مقصود تھا اس وقت انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دے دیا ،جب والدین کی خدمت میں کوتاہی محسوس کی تو والدین کی خدمت کو جہادبتلایا، اگردیکھا کہ کسی کی بیٹی جوان ہے اور شادی میں تاخیر کی جارہی ہے تواسے عزت سے رخصت کرنے کا حکم دیا،رمضان المبار ک کا موقع ہوا تو روزے کے فضائل بیان فرمائے اور اگر حج کا معاملہ آیا تو فریضہ حج کی ادائیگی کی تلقین فرمائی ۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شریعت کے بہت سے احکام کی بنیادحالات پر ہوتی ہے اور حالات کی بنیاد پر احکام تبدیل ہو جاتے ہیں۔اس لیے آ ج کے دور کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ علماءکرام کو آج کے دور میں اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا کرنے کے لیے آج کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے ،موجودہ دور کے چیلنجز کا ادراک کرنا لازم ہے اور یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت تہذیبی،فکری،عملی ،علمی اورتبلیغی میدان کے تقاضے کیا ہیں ؟ آج کے دور میں علم ِکلام کا کون سا مسئلہ موجود ہے ، موجودہ حالات کا ادراک اورفہم آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے اور پھر اس کے نتیجے میں علمی اور فکری سطح پر خود کو مسلح کرنا آج کے دور کا سب سے بڑا تقاضا ہے ، اپنے مسائل کے تدارک کے لیے پہلے ان کا ادراک ضروری ہے ،علاج کے لیے مرض کی تشخیص لازم ہے ،آج یونان کا فلسفہ اور فکر نہیں جس وقت یونانی فلسفہ کا عروج تھا اس وقت امام غزالی نے میدان میں آکر پہلے اس کو پڑھا اور سمجھا اور پھر اس کا رد کیا۔ آج ہمیں پہلے تو یہ سمجھنا ہو گا کہ ہمارا واسطہ آج کس کلچر،تہذیب اور کس قسم کے فکر و فلسفہ سے ہے اور اس کے مقابلے کے لیے اسلامی فکر وفلسفہ اور تہذیب وکلچر کیا ہے ؟اور ہم قرآن وسنت کی روشنی میں موجودہ دور کے فکر وفلسفہ کا توڑ کیسے کر سکتے ہیں ؟ آپ حضرات اللہ کے فضل وکرم سے درسِ نظامی پڑھ چکے اب آپ کو یہ سیکھنا ہے کہ ان علوم کا ابلاغ کیسے ہو ؟ ان کے استعمال کے لیے کون سی زبان استعمال کی جائے اور دنیا سے اپنا موقف منوانے کے لیے کن دلائل کی بنیا د پر بات کی جائے؟ یہ کورس آپ کی اس حوالے سے تربیت کی ایک کوشش ہے ۔اس لیے آج یہ لازم ہے کہ ایک عالم کی نظرزمانے کے موجودہ حالات پر بھی ہو اور اس کا رشتہ صفہ کی درسگاہ سے بھی جڑا ہو اہو ۔اسے قرآن وسنت اور دینی علوم پر بھی دستر س حاصل ہو اور اس کا ہاتھ قوم کی نبض اور زمانے کی رفتار پر بھی ہو ۔جس عالم کا رشتہ اپنے اصل اور ماضی سے کمزور ہو وہ بھی نامکمل ہے اور جو موجودہ حالات سے واقف نہ ہو وہ بھی ادھورا ہے ۔ اسی لیے بعض حضرات نے ایسے مفتی حضرات کو فتویٰ دینے سے منع کیا ہے جو اپنے زمانے کے حالات کو نہ جانتا ہو اور وہ مشہور مقولہ تو آپ سب نے سن رکھاہو گا کہ ” جو اپنے زمانے کے حالات کو نہ جانتا ہو وہ جاہل ہے “اس لیے موجودہ دور کے تقاضوں کو سمجھنا ،موجود ہ دور کے چینلنجز سے آگاہی حاصل کر کے ان سے نمٹنے کی تیاری اور اہتمام کرنا آج کے دور کی اہم ترین ذمہ داری ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہر میدان کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں اور ہر میدان کا کوئی خاص قسم کا اسلحہ ہوتا ہے جس کے بغیر چارہ کار نہیں ۔ علم وفکر کے میدان کی ضرورت اور اسلحہ دلیل، استدلال،منطق اور برہان ہے ۔آج کے اہل باطل اور کفار طاقت ، اسلحہ،ڈرون حملوں اور دھمکی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ وہ آج پاکستان کو اوردیگر مسلمان ملکوں کو دھمکیاں دیتے ہیں، ان کے وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت کو استعمال کرتے ہیں اور طاقت کے بل بوتے پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن یاد رکھیں جو فتح طاقت کی بنیا د پر حاصل کی جائے وہ عارضی ہوتی ہے اور دائمی فتح دلیل اور استدلال کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے ۔طاقت کے نشے میں بدمست لوگ ایک نا ایک دن ضرور شکست کھاتے ہیں جبکہ دلیل اور علم کامیاب ہوتے ہیں ۔جنگ نہ کسی مسئلے کا حل ہے اور نہ اس کے ذریعے فتح حاصل کی جا سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم نے مدارس کے دفاع اور بقا ءکی جنگ دلیل اور منطق کی بنیا د پر لڑی ہے ۔مدارس کے دفاع کی جدوجہد میں ہم نے اسلحہ نہیں اٹھایا ،طلباءکو سڑکوں پر نہیں لائے ، جلوس نہیں نکالے بلکہ ہم نے دلیل اور سچائی کی بنیاد پر جنگ لڑی اور اللہ نے ہمیں اپنے فضل وکرم سے فتح دی ۔

آپ کو بھی کل اسی قسم کی صورتحال سے واسطہ پڑے گا بلکہ آپ کے مستقبل میں حالات مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے ۔ اس لیے آپ جب اس قسم کے کورسز میں شریک ہوں گے تو اس سے انشااللہ آپ کا علم مضبوط ہوگا،آپ کو اپنی بات کہنے کا سلیقہ آئے گا ،آپ کو عالمی زبانوں پرعبور حاصل ہو گا ،آپ کو موجودہ حالات کی سنگینی کا ادراک ہو گا اور اس کے نتیجے میں اپنی ذمہ داریوں کا احساس پید اہوگا ۔اور پھر آپ دلیل کی بنیا د پر دنیا سے اپنا موقف منوا سکیں گے ۔کیونکہ اسلام طاقت کی زبان میں بات نہیں کرتا بلکہ دلیل کی بنیاد پر بات کرتا ہے،جنگ کے میدان میں بھی پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی ہے ،پھر جزیہ دے کر بطور ذمی اسلامی ریاست کی رٹ قبول کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے اور آخر میں اسلحے اور تلوار کی نوبت آتی ہے ۔نبی اکرم ﷺ نے اپنی چالیس سالہ زندگی کو بطور دلیل پیش کیاجبکہ مشرکین مکہ نے ظلم وتشدد کی زبان میں بات کی ۔فرعون اورنمردود نے طاقت کی زبان میں بات کی۔فرعون نے کہا لا صلبنکم فی جذوع النخل جبکہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ نے دلیل کی بنیا د پر بات کی ۔اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ نے دلیل کی بنیاد پر فرعون سے مکالمہ کیا ۔اس کے جواب میں نمرود نے اپنی طاقت اور اختیارات کا بے جا استعمال کرتے ہوئے بے گناہ کو پھانسی دے دی اور سزائے موت پانے والے کو رہا کر دیا ۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جب اگلی دلیل دی کہ ”میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اگر تمہیں رب ہونا کا دعویٰ ہے تو سورج مغرب سے نکال کر دکھاؤ“اس دلیل کے مقابلے میں نمرود شکست کھا گیا اورہکا بکا رہ گیا ۔اس لیے یہ یاد رکھیں کہ انبیا ءکرام کا راستہ دلیل اور استدلال کا راستہ ہے اور فرعونوں ،نمرودوں ،بادشاہوں اور حکمرانوں کا انداز ہمیشہ یہ رہاکہ وہ طاقت ،دھمکی اور اسلحے کی زبان میں بات کرتے ہیں اس لیے آپ نے انبیا ءکرام والا راستہ اپنانا ہے ۔

تیسری بات یہ ہے کہ آج کا ہتھیار دلیل کا ہتھیار ہے ،علم کا ہتھیا ر ہے ،تعلیم کا ہتھیار ہے اور ہمیں اپنے آپ کو اس ہتھیار سے مسلح کرنا ہوگا ۔ کیونکہ آج مکالمہ اور مباحثہ کی جنگ ہے ۔علمی اور فکری محاذوں پر کشمکش ہے ،دلیل اور استدلال کی بنیاد پر مقابلہ ہے ۔اور اس کے لیے علم ضروری ہے یہ علم ہی ہے جو انسان کو مسلح کرتا ہے اور آج کے دور کا ہتھیار یہی ہے ۔دیکھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں گھوڑوں اورتلواروں کے ذریعے جنگیں ہوتی تھیں لیکن آج کی جنگیں طیاروں، میزائلوں اور بھاری اسلحے کی جنگیں ہیں ۔ جنگ عظیم اول میں جو ہتھیار استعمال ہوئے آج وہ استعمال نہیں ہو رہے۔ اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ ہتھیار بھی بدل جاتے ہیں اور جنگوں کا طریقہ کار بھی بدل جاتا ہے اس لیے ہمیں موجودہ دور میں جن جن میدانوں میں اہل باطل سے مقابلہ درپیش ہے ان تمام میدانوں کے لیے تیاری کرنی ہو گی ۔جنگوں کی طرح آج مناظرے ،مجادلے اور مباحثے کا انداز بھی بدل گیا ہے اس لیے لازم ہے کہ آج کے دور کے مسائل بھی سمجھیں اور دلائل بھی ،طرز استدلال بھی جانیں اور آج کے دور کی مروجہ زبانیں بھی سیکھیں تب جا کر اس کشمکش میں آپ کا پلڑہ بھاری ہو سکتا ہے ۔

اور آخری بات یہ ہے کہ امام ابو یوسف سے کسی نے پوچھا کہ آپ آج علم اور فقاہت کے جس مقام پر فائز ہیں اس مقام تک آپ کیسے پہنچے ؟اس سوال کے جواب میں امام ابو یوسف ؒ نے جو جملہ ارشاد فرمایا وہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔آپ نے فرمایا ”افادہ میں بخل نہیں کیا اور استفادہ سے انکار نہیں کیا“اس لیے آپ حضرات بھی یہ مت سوچیں کہ ہم نے سند فراغت حاصل کر لی اب ہمیں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے ؟بلکہ پہلے سے زیادہ محنت کریں اور یہ یاد رکھیں کہ الحکمة ضالة المومن کہ حکمت تو مومن کی گمشدہ متاع ہے جہاں سے ملے وہیں سے لے لو بلکہ اگر حکمت کی کوئی بات دیوار پر لکھی ہوئی ملے تب بھی اسے لے لینا چاہیے ۔

امید ہے کہ انشاللہ یہ کورس آپ کے علم کو چار چاند لگا ئے گا اور آپ کی صلاحیتوں اور آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کرے گا ۔ آپ استفادہ کرتے ہوئے جھجھک اور تکبر کو آڑے نہ آنے دیں اور افادہ میں بخل سے کام نہ لیں کیونکہ استفادہ اور افادہ کے ذریعے علم ترقی کرتا ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ آج کے دور کے چیلنجز کا ادراک کر کے اس کے حوالے سے کردار ادا کرنے کے لیے خود کو تیار کیجیے کیوں کہ آپ کے سامنے میدان بہت وسیع ہے ....آپ پر بہت بھاری ذمہ داریاں آن پڑی ہیں ۔یاد رکھیے ! آپ ہی ہمارا مستقبل ہیں ،آپ ہی ہمارا سرمایہ ہیں اورآپ ہی ہماری امید ہیں ۔اللہ آپ کا حامی وناصر ہو “
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 130123 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.