نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشادِ پاک ہے:
"سخاوت منافع بخش ہے۔"
سخی ہونا ہر انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ اللہ پاک نے مال اور اولاد کی
عجیب محبت رکھی ہے دل میں۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اللہ کے دیئے ہوۓ مال کو
اللہ ہی کے بندوں پر خرچ کر کے خوشی ومسرت سے سرشار نظر آتے ہیں۔
یقین جانیۓ سخاوت واقعی ایک فائدہ مند سودا ہے جو ہم کسی اور سے نہیں
درحقیقت اللہ تعالٰی سے کرتے ہیں۔ تو اب آپ خود ذرا غور فرمائیں کہ اللہ
پاک سے کیا گیا سودا کیسے بے سود ہو سکتا ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ
تعالٰی کا اپنے بندوں کو ارشاد ہے کہ "تم دوسروں پر خرچ کرتے رہو، میں تم
پر خرچ کرتا رہوں گا۔"
اسی ضمن میں یہاں سورۃ المزمل کی آیت نمبر 19 کے ایک حصے کا حوالہ دینا
چاہونگی جس کا ترجمہ ہے "اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو اچھا قرض دو اور اپنے لۓ
جو بھلائ آگے بھیجو گے اسے اللہ کے پاس بہتر اور بڑے ثواب کی پاؤ گے۔"
اس آیت کے ترجمے سے ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ اگر ہم سخاوت جیسے وصف کو اختیار
کرتے ہیں تو ہم اللہ کی رضا کے لۓ اس کی مخلوق پر خرچ کرینگے اور ہمارا یہ
عمل گویا اللہ سبحان و تعالٰی کو جیسے قرض دینے کے مترادف ہے۔ اور پھر اگر
آپ مشاہدہ کریں تو آپ خود محسوس کریں گے کہ جب اللہ کریم وہ قرض لوٹاتا ہے
تو وہ ہمارے دیۓ ہوۓ قرض سے بہت ہی بہترین اور اعلٰی ہوتا ہے۔
یہاں ایک اور بہت ہی زبردست فرمانِ الٰہی کو اپنے قارئین کے سامنے پیش کرنا
چاہونگی۔ سورۃ التغابن کی آیت نمبر 16 کے کچھ حصے کا ترجمہ ہے "اگر تم اللہ
کو اچھا قرض دو گے وہ تمہارے لۓ اس کے دونے کر دے گا اور تمہیں بخش دے گا۔"
اس سے بڑھ کر منافع کی بات کیا ہو گی کہ ہم خرچ کم کریں مگر جب ہمیں اسکا
اجر ملے تو دوگنا ملے بلکہ ساتھ ہی extra bonus کے طور پر اللہ تعالٰی کی
طرف سے بخشش کی ضمانت بھی۔
آخر میں ایک نصیحت ہم سب کے لۓ کہ مال و دولت، جائیداد یہ سب اللہ عزوجل کی
ہی عطا کردہ نعمتیں ہیں جن میں غرباء، مساکین اور محتاجوں کا حق مقرر ہے۔
لہذٰا ہم سب کو اپنے دل بڑے کرنے چاہئیں اور سخاوت کو اپنانے کی کوشش کرنی
چاہئیں تاکہ ہم اللہ پاک کی رضا اور خوشی حاصل کرنے میں کسی قدر کامیاب ہو
سکیں اور دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔
|