جو ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے شائع کیا جارہا ہے ۔
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ایف سی کالج کے صدر شعبہ اردو تھے لیکن انہوں نے شہرت بطورنڈر اور بہادر کالم نگارپائی
وہ مجھ جیسے چھوٹوں سے محبت اور جنگ بھی کرتے تو بڑوں سے کرتے۔ " />

ہور اک دیوا بال نی مائے

ڈاکٹرمحمد اجمل نیازی کا یہ مضمون، اپنی عظیم ماں کے حوالے سے میری کتاب "ماں " میں شامل ہے۔
جو ان کی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے شائع کیا جارہا ہے ۔
ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ایف سی کالج کے صدر شعبہ اردو تھے لیکن انہوں نے شہرت بطورنڈر اور بہادر کالم نگارپائی
وہ مجھ جیسے چھوٹوں سے محبت اور جنگ بھی کرتے تو بڑوں سے کرتے۔

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب کو دنیا سے رخصت ہوئے بھی چند سال گزر چکے ہیں لیکن ان سے ملاقاتوں اور رفاقتوں کی خوشبو اب بھی مجھے معطر کرہی ہے ۔وہ باتوں ہی باتوں لطیفے بلکہ مسکراہٹوں کی شگوفے بکھر دیتے تھے ۔ان کا شعبہ تعلیم سے تھا لیکن ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچانے کا ذریعہ ان کے وہ کالم بنیں ہیں جو ’’بے نیازیاں‘‘ کے عنوان سے پہلے روزنامہ دن بعد پاکستان کے سب سے بڑے نظریاتی اخبار "نوائے وقت" میں روزانہ شائع ہوتے رہے ۔ ڈاکٹر صاحب بہت نڈر‘ بے باک اور جرأت مندانسان تھے۔وہ ڈرتے ورتے نہیں تھے ۔ ان کی شخصیت کا ہمیشہ یہ خاصہ رہا کہ وہ لڑائی ہمیشہ اپنے سے بڑے سے لیتے ہیں جبکہ ہم جیسے چھوٹوں پر وہ ہمیشہ دست شفقت رکھتے ہیں۔ ان کے دست مبارک سے لکھا ہوا یہ مضمون میری کتاب "ماں"میں شامل ہے ۔ ان کی ہر تحریر کی طرح یہ تحریر بھی بہت منفرد ہے جو ان کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہے ۔آپ بھی ڈاکٹر صاحب کی خوبصورت یادوں کو تازہ کرتی ہوئی تحریر کو پڑھیں اور ان کے ایصال ثواب کے لیے خلوص دل سے دعابھی کریں۔

"میں جب گھر سے نکلتا ہوں تو میری ماں کچھ منہ ہی منہ میں پڑھ کر ’’چھو‘‘ کرتی ہے ،جسے آسان زبان میں دم کرنا کہتے ہیں شاید ’’چھو منتر‘‘ یہی تھا کہ ناممکن کام بھی ہو جاتے تھے ۔ماں میری گاڑی کو بھی دم کرتی تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اب مجھے کچھ نہیں ہو گا، کوئی میرا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا ۔ماں کی دعا ایسا دائرہ ہے جسے کوئی دشمن پھلانگ نہیں سکتا ۔ہمارے شہروں میں رکشوں وغیرہ کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ’’ماں کی دعا جنت کی ہوا‘‘ نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ غریب کی ماں‘ زیادہ ماں ہوتی ہے۔ بچہ غریب اور امیر نہیں ہوتا مگر وہ بڑا بھی تو ہوتا ہے ۔کہا گیا کہ بچے اچھے ہوتے ہیں مگر ان میں ایک خرابی ہے کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں۔ امیر آدمی کو ماں کی کیا ضرورت ہوتی ہے اور غریب کے سہارے کیلئے ایسی ہی غیر مادی چیزیں زیادہ کارآمد ہوتی ہیں۔ اپنا غم غلط کرنے کیلئے امیر آدمی شراب پی لیتا ہے‘ تفریح اور عیاشی کر لیتا ہے‘ غریب آدمی ایسے میں صرف آنسو بہاتا اور ماں کو یاد کرتا ہے اور اس سے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ سوز و گداز کسی فقیر آدمی کے پاس ہو گا کسی حقیر آدمی کے پاس نہیں ہوتا اور مجھے معاف رکھیں تو کہوں کہ امیر کبیر آدمی زیادہ تر حقیر آدمی ہی ہوتے ہیں۔ میں نے کہیں لکھا تھا کہ صرف وہ دولت مند کسی قدر عزت مند ہوتا ہے جو دردمند ہو اور یہ کم کم ہوتا ہے۔ صوفی شاعر حضرت شاہ حسین ؒ کا یہ مشہور مصرع کسی امیر آدمی کی زبان پر نہیں آسکتا۔ شاہ حسین خود بھی تو ایک فقیر آدمی تھا۔
مائے نیں میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی

امیروں کے پاس وصل کے کئی طریقے ہوتے ہیں، غریبوں کو تو صرف وصال ہوتا ہے اور اسے آسان زبان میں مرنا کہتے ہیں تو ماں کیلئے لکھتے ہوئے میرے دل میں یہ کیفیت ہے کہ میں امیر ہوتا تو اپنی ماں پر کیسے لکھتا۔ اب تو دکھ درد بھی درد وچھوڑے بھی اتنے ہو گئے ہیں بلکہ اتنی قسم کے ہو گئے ہیں کہ ماں کی یاد بھی بھول گئی۔ غریبی خوش نصیبی نہیں تھی تو بدنصیبی بھی نہیں تھی۔ بچے خوش تھے ہر ایک کی ماں خوش تھی ہم کئی کئی میل گھر سے جا کے گدھیوں پر پانی بھر کے لاتے تھے۔ چھوٹی سی نہر میں نہاتے تھے۔ کھیتوں میں جا کر بیر کھاتے تھے۔ اس پھل جیسا کوئی پھل نہ تھا۔ درختوں پر چڑھتے‘ ریت پر ننگے پاؤں چلتے‘ ایسی گدگدی ہوتی کہ پھر کبھی نہیں ہوئی۔ گاؤں بہت یاد آتا ہے اور گاؤں میں ماں بھی بہت یاد آتی ہے ،تب ہر بڑی عورت ماں کی طرح تھی اور اس کی آنکھوں میں پیار اور اعتبار چمکتا تھا۔ ہم جہاں بھی ہوتے ہمارے گھر والوں کو کوئی فکر نہ ہوتی تھی۔ سب گھر اپنے گھر تھے۔ گاؤں میں کسی بچے کے گم ہونے کا تصور بھی نہ تھا۔ رات کو تاروں کی روشنی اور مٹی کے دیئے کی روشنی ایک ہو جاتی۔ ایک میٹھا میٹھا سا ماحول تھا۔ جو اب گاؤں میں بھی نہیں ملتا۔ میں ماں کو ہمیشہ اماں کہتا اور آج کل کے دور میں یہ خطاب متروک ہو چکا ہے اب تو ’’ممی‘‘ ہی ہر گھر میں ہے اور ممی حنوط شدہ لاش کو کہتے ہیں۔ ممی کا صرف ایک ہی کافیہ ہے وہ ڈمی ہے۔

میری ماں میرے پاس ہے اور بہت ہے۔ زندہ اور زندہ تر۔ وہ مجھے اب بظاہر کچھ نہیں دے سکتی، صرف دعائیں دیتی ہے اور یہ متاع بے بہا اس زمانے کے نصیب میں کم بلکہ بہت کم رہ گئی ہے۔ میری ماں میرے دوستوں (خواتین و حضرات) کیلئے جس والہانہ پن اور مخلصانہ وابستگی کا اظہار کرتی ہے وہ مجھ پر رشک کرتے ہیں۔ مگر میں انہیں کیا بتاؤں کہ میں اب بھی اپنی ماں سے ڈرتا بہت ہوں۔ وہ ذرا سخت مزاج ہے۔ پھر بھی میری ساری عقیدتیں اس کے سراپے اور بڑھاپے کے آس پاس رقص کرتی رہتی ہیں اسے غصے میں دیکھ کر مجھے اپنا سوہنا ابا بہت یاد آتا ہے۔ اس میں ماں کے بہت سے اوصاف بھرے ہوئے تھے۔ درد و گداز کی سرشاریاں اسے ہمیشہ بے قرار رکھتی تھیں۔ وہ اتنا سوہنا تھا کہ میں اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ وہ گلاب کے پھولوں کی طرح ہنستا اور سانولے بادلوں کی طرح روتا تھا۔ یہ نہیں ہوا کہ باپ نہیں تو ماں نے ان کی کمی پوری کر دی۔ کرمچی ابا (کریم داد خان) کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ البتہ اس نے مامتا کی کمی کم کرنے کی خواہش ضرور رکھی تھی۔ وہ مجھے ماں کی طرح یاد آتا ہے۔ اماں جن دنوں میرے پاس آکے رہتی تھیں تو گھر بھرا بھرا رہتا ہے۔ اس ایک آدمی کے نہ ہونے سے ایک ویرانی سی ہو جاتی ہے جو میرے گھر کی دیواروں پر سوئی ہوئی حیرانی میں گھلتی چلی جاتی ہے۔ مجھے اس کی طرف سے کبھی کسی خاص گرمجوشی کا احساس نہیں ہوا۔ میں نے مامتا کے بڑے بڑے مناظر دیکھے ہیں اس کے باوجود دنیا میں کوئی بھی اماں سے بڑھ کر میرا غمگسار نہیں۔ اماں میں ’’پدرانہ‘‘ شفقت زیادہ ہے۔ جس میں رعب دبدبا فطری طور پر ہوتا ہے۔ اس کے اندر رشتے کی اتھارٹی بڑھ چڑھ کر محسوس ہوتی ہے۔

میری زندگی میں نہ بھلائے جانے والا کردار میری ماں کی ماں کا ہے۔ اماں کی اماں۔ نانی اماں۔ مجھے اپنی ماں کے سارے اظہار اس کی شخصیت میں ملے تھے۔ میں نے پہلی بار یہ محاورا سنا کہ میں تیرا وہ حشر کروں گا کہ تجھے نانی یاد آجائے گی اور میں نے ہمیشہ چاہا کہ کاش میرا حشر ایسا ہی ہوتا رہے اور کسی نہ کسی طرح مجھے اس حشر کا سامنا رہا بھی ہے۔ مجھے نانی بھولتی ہی نہیں۔ کہ میرے اندر ایک حشر برپا ہے۔ کبھی کبھی نانی کے ہاتھوں بکری کا خالص دودھ ملتا تھا۔ اور اس کا ذائقہ ابھی تک میرے لہو میں لرزتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ وہی میری ماں تھی۔ اب اس کی لمبی جدائی میری عمر سے آگے نکل گئی ہے۔ میں کہہ دینا چاہتا ہوں کہ مجھے نانی اماں سے عشق تھا۔ اسے بھی میرے ساتھ کچھ نہ کچھ تو تھا۔ کہ اس نے مجھے اپنے قریب رہنے کی اجازت دی۔

وہ بہت سوہنی تھی۔ میں نے خیر اور خوشبو کی خوبصورتی سے بنی ہوئی عورت نہیں دیکھی ،جسے نانی سے مثال دے سکوں۔ وہ بے مثال تھی۔ مٹی کے دیئے کی روشنی میرے بچپن کی یادیں۔ یہی سانولی روشنی نانی کے چہرے پر چمکتی تھی۔ زندگی میں کچھ بہت سوہنی عورتیں میری زندگی میں آئیں وہ مجھے اچھی لگیں کہ ان کے روح بدن میں نانی کے وجود سے بچھڑی ہوئی خوشبو آتی تھی۔ میں اس پرانی کہانی جیسی خوشبو سے مہکتا رہتا تھا۔ میرا بچپن اور کچی جوانی نانی کے آنگن میں رقص کرتے گزری۔ سانولے رنگ کی نانی اماں میں ایسی ملاحت‘ صباحت اور راحت ہی راحت تھی کہ میں اس پیار کی ہلکی سی جھلک دیکھنے کیلئے ہمیشہ بے تاب رہتا ہوں۔ میری بے تابیوں کی تب و تاب اس کی ذات سے آزاد رہتی ہے۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ سانولا رنگ ہی محبوب کا رنگ ہے، اسی لئے اسے سانول کہتے ہیں ۔ساون کا موسم بھی سانولا ہوتا ہے ،جیسے نانی اماں کو کسی نے سرمے میں گوندھ کر بنایا تھا۔ وہ حسن ہی حسن تھی اور عشق ہی عشق۔ اس کی پارسائی کی بھی گاؤں کی عورتیں قسمیں کھایا کرتی تھیں۔ وہ پاکیزہ دل و دماغ کی عورت تھی۔ بے داغ اور بیدار زندگی کے سارے فکروں اور سارے چکروں سے آزاد تھی۔ وہ مجسم آرزو تھی مگر جیسے اسے کوئی آرزو ہی نہیں۔ اس نے کچھ بننے اور کچھ کر دکھانے کی کبھی کوشش نہیں کی‘ خواہش بھی نہیں کی۔

میرے خیال میں میرے گاؤں میں وہ پہلی عورت تھی جس کے ساتھ میرے نانا نے اعلانیہ محبت کی اور اس سے شادی کی۔ نانی کی محبت نانا کے ساتھ شادی کے بعد شروع ہوئی تھی۔ گاؤں میں اوروں نے بھی محبت کی تھی مگر کسی کو خبر نہ ہوئی۔ نانا پٹھان تھا اور نانی اعوان تھی۔ دونوں غریب و غیور قوم کے فردتھے۔ نانی ایک دن نانے کی ماں (دادی بخت بھری) کے پاس آگئی اور نانا نے اس کے ساتھ نکاح پڑھوالیا۔ نانی میں دو کردار جمع ہو گئے۔ محبوبہ اور منکوحہ۔ ہمارے ہاں بالعموم کوئی کتنی ہی محبوبہ کیوں نہ ہو منکوحہ ہونے کے بعد بلا بن جاتی ہے۔ اس زمانے میں بیوی ہونے کا تصور نہیں تھا، آج کل بیویوں کو صرف اپنے حقوق یاد ہیں اور محبت سے بڑا حق کوئی نہیں ہے۔ البتہ بابا مظفر خان شادی کے بعد کچھ اور ہو گئے تھے مگر نانی نہ بدلی۔ گھر میں کوئی حسن سلوک بظاہر نانی کے ساتھ نہ ہوا تھا مگر نانی کے لبوں پر کبھی حرف شکایت نہ آئی۔ اسے فطرت نے دل کے ساتھ سرگوشی کرتے ہوئے بتا دیا کہ محبت فاتح عالم۔ جیت ہمیشہ نانی کی رہی۔ اور ہار کبھی نانا نے نہ مانی۔ عورت عظیم تو ہو سکتی ہے مگر بیوی کا عظیم ہونا ایک واقعہ ہے۔ جب نانی مر گئی تو ہمیں معلوم ہوا کہ عورت بیوی ہو تو بھی ماں ہوتی ہے۔ بچی میں بھی مامتا ہوتی ہے۔ مادر ملت اور مدرٹریسا ایسی عورتیں ہیں جو ماں نہیں بنیں مگر ماں کہلائیں۔ ماں تو سب کی ماں ہوتی ہے۔ ماواں ٹھنڈیاں چھاواں۔ یہ ہمارے دیہاتی کلچر کی آواز ہے، ایسی ’’بولیوں‘‘ میں پرانے زمانے کا رہن سہن بولتا ہے تو چھاؤں سب کیلئے ہوتی ہیں وہاں جا کے کوئی بھی بیٹھ سکتا ہے۔ دشمن کا بیٹا بھی۔ وہ بھی بیٹا ہے۔

نانی کے مرنے پر اس کی جدا ئی میں نانا کا جلال ایک عجیب و غریب ملال میں بھیگ گیا تھا۔ اس کے دل میں وہ محبت جاگ پڑی تھی جو شادی سے پہلے نانی کیلئے جاگتی رہتی تھی۔ وہ نانی کو اپنی نوکرانی سمجھتا تھا۔ مگر آج اسے معلوم ہوا کہ اصل میں حکمرانی تو وہی کر رہی تھی۔ اس کے نہ ہونے نے اس کے ہونے کی توقیر بڑھا دی تھی۔ نانی ہونے اور نہ ہونے کے دائرے سے زندگی میں ہی نکل گئی تھی۔ اس کی عدم موجودگی نے اس کی موجودگی کو ثابت کر دیا تھا۔ وہ آسودگی ہی آسودگی تھی۔ نانی ان پڑھ تھی مگر وہ دنیا بھر کی پڑھی لکھی عورتوں سے بڑھ کر تھی۔ وہ جانتی تھی کہ مردانگی کو اپنی دیوانگی سے شکست دی جاسکتی ہے۔ زندگی میں اس نے نانا کو کبھی خفا ہونے کا موقع نہیں دیا اور آج نانا اپنے آپ سے خفا تھا۔ میں نے دیوار کے سائے میں اکیلے اداس شخص سے پوچھا۔ نانا کیا ہوا۔ اس نے بے بسی کی نگاہ مجھ پہ ڈالی اور کہا۔ پتر۔ تیری نانی مر گئی ہے اور میں یتیم ہو گیا ہوں۔ میں دم خود رہ گیا ہوں۔ زوجہ تو زیادہ سے زیادہ زوجہ محترمہ بن سکتی ہے۔ آج زوجہ‘ زوجہ ماجدہ بن گئی تھی۔ دنیا بھر کی بیویوں کیلئے اس کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ وہ شوہروں کیلئے محبت اور مامتا کو رلا ملا دیں تو ازدواجی مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ بیوی بھی کچھ کچھ ماں ہوتی ہے مگر آج کی ماں اپنا یہ کردار کیوں بھولتی جارہی ہے۔ جس شخص سے پوچھیں وہ اپنی ماں کا دیوانہ ہے تو یہ کیا راز ہے۔ اس راز سے صرف ماں ہی واقف ہے۔

میں بھی اپنی بوڑھی ماں کے پاس بیٹھتا ہوں اور اپنے سوہنے ابا کو یاد کرتا ہوں تو مجھے اس میں نانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ نانی کی جھلک ماسی حیاتاں میں بھی ہے۔ ماں اور ماسی میں فرق نہیں ہوتا اور یہ ماسی حیاتاں کی محبت نے ثابت کر دیا۔ میری سوہنی نانی کی کہانی اس کی آنکھوں میں لکھی ہوئی ہے۔ نانہال آج کل میرے لئے علاقہ ممنوعہ ہے مگر ماسی کی محبت میں بڑی کشش ہے۔ میں جب گاؤں جاؤں تو اس سے ضرور ملتا ہوں۔ ماسی پھتاں کی مسکینی میں نانی کی یاد تڑپتی ہے۔

مگر عجب بات ہے کہ نانی کے دونوں بیٹے اپنی بہنوں سے کوئی رشتہ محسوس نہیں کرتے۔ ہماری تہذیب میں تو بہنوں کیلئے بھائی عمر بھر غلاموں کی طرح رہتے ہیں اور یہ مثالیں ہمارے گاؤں میں مشعلوں کی طرح روشن ہیں۔ ہمارے ہاں بہنوں کی شادی قرآن سے تو نہیں ہوتی کہ بہنیں خود ساری جائیداد اپنے بھائیوں کو لکھ کر دے دیتی ہیں۔ کئی کروڑ پتی بھائی اپنی بہنوں کی چند کنال زمین بھی لے لیتے ہیں۔ ماما میں دو دفعہ ماں۔ ماں آتا ہے اس سے اس طرح کے دوہرے کردار کی امید ہوتی ہے اور بڑی بہن تو ماں جیسی ہوتی ہے۔ اس کی دعاؤں کی خوشبو میں بھائی پہلے آتے ہیں۔ میری امبڑی دی جائے۔ اماں جب کبھی اپنے بھائیوں کو یاد کرتی ہے تو وہ زیادہ ماں ہوتی ہے۔ وہ صبح سویرے میرے کمرے میں مجھے دم کرنے آتی ہے تو میں اس کے الجھے ہوئے بالوں کو دیکھتا ہوں میرے اردگرد اندھیرا بڑھ جاتا ہے اور روشنی ماں کے چہرے کو چومتی رہتی ہے۔ روشنی وہاں سے سیدھے میرے دل کی طرف آتی ہے۔ مجھے اپنے سارے دکھ درد یاد آ آ کے بھول جاتے ہیں۔
اوہنے زخم میرے جثے اتے۔ جنے تیرے وال نی مائے
ہن تے کجھ نیں نظری اندا۔ ہور اِک دیوا بال نی مائے

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی 19اکتوبر 2021ء کو ادب و صحافت کے لوگوں کو روتا ہوا چھوڑ کر ایک ایسی دنیا میں جا بسے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ بیشک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب جانے والے ہیں ۔



 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 797 Articles with 730280 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.