مشرق و مغرب کے مسائل، ان کی وجہ اور اس کا حل

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

مشرق میں سائنس، فلسفہ، اور عقل کو اہمیت دینے کے بجائے جذبات اور احساسات کو فوقیت دینے کے نتیجے میں کئی معاشرتی، علمی، اور فکری نقصانات سامنے آئے ہیں۔ یہ رجحان علم اور ترقی کے مختلف شعبوں میں پیچھے رہ جانے کا باعث بنا، اور معاشرتی و علمی زوال کی وجوہات میں شامل ہے۔

نقصانات:
1۔ علمی ترقی میں رکاوٹ:
جذبات اور احساسات پر مبنی سوچ کا زیادہ انحصار، عقل و منطق اور سائنسی تحقیق کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے علمی و فکری مکالمے میں دلیل و برہان کی بجائے روایات، احساسات، اور غیر سائنسی تصورات کو فروغ ملتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مشرقی معاشرے سائنسی ترقی اور فکری ارتقاء میں مغرب سے پیچھے رہ گئے۔

2۔ سائنسی سوچ کی کمی:
مشرقی معاشروں میں جذبات پر مبنی تعلیم و تربیت نے سائنسی طریقہ کار، تجربہ، اور تحقیق کو پسِ پشت ڈال دیا، جس کی وجہ سے سائنسی سوچ کو اپنانے میں مشکلات پیش آئیں۔ سائنسی طریقہ کار میں تحقیق، تنقید، اور دلیل کو مرکزی حیثیت دی جاتی ہے، مگر مشرقی معاشروں میں غیر سائنسی عقائد اور جذباتی اپروچ غالب رہی، جو علمی ترقی کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بنی۔

3۔ معاشرتی پس ماندگی:
جب معاشرتیں احساسات اور جذبات کی بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں، تو ان میں عدل و انصاف کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ جذبات پر مبنی فیصلے اکثر غیر متوازن اور وقتی ہوتے ہیں، جس سے سماجی ڈھانچے میں استحکام کی کمی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں قانونی اور سیاسی نظاموں میں منطقی اصولوں کی جگہ ذاتی مفادات اور جذباتی سوچ نے لے لی، جس سے معاشرتی عدم استحکام اور ناانصافی بڑھی۔

4۔ فکری جمود:
جذباتی سوچ کی غلبے کے باعث فکری ترقی اور فلسفیانہ مباحثے جمود کا شکار ہو گئے۔ عقل و فلسفہ کے ذریعے سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان مختلف نقطہ نظر اور خیالات پر غور کرے اور سوالات پوچھے، مگر جذباتی ماحول میں سوالات کو دبایا جاتا ہے اور روایتی خیالات کو چیلنج کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فکری جمود اور تخلیقی سوچ میں کمی واقع ہوئی۔

5۔ تقدیر پرستی اور وہمی و افسانوی خیالات کا فروغ:
جذبات اور احساسات پر مبنی سوچ اکثر وہمی و افسانوی اور غیر منطقی خیالات کو فروغ دیتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرتوں میں تقدیر پرستی اور غیر سائنسی عقائد نے جگہ بنا لی۔ اس سے انسان اپنی ذمہ داریوں اور عقل کے استعمال سے دور ہوتا گیا، اور عملی مسائل کے حل کے لیے علمی طریقہ کار اپنانے کی بجائے غیبی مدد کا انتظار کرنے لگا۔

تدارک:
1۔ عقل اور علم کی بحالی:
معاشرتی و علمی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ عقل و منطق کو دوبارہ مرکزی حیثیت دی جائے۔ تعلیم کے نظام میں سائنسی سوچ، تحقیق، اور تنقیدی اپروچ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ لوگ دلیل و برہان کی اہمیت کو سمجھیں اور عملی مسائل کا منطقی حل تلاش کرنے کی عادت اپنائیں۔

2۔ سائنسی تعلیم اور ریسرچ پر زور:
مشرقی معاشروں میں سائنسی تحقیق اور ریسرچ کے لیے بہتر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں اور تعلیمی اداروں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق اور اختراع کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ نوجوان نسل سائنسی سوچ کو اپنائے اور عالمی سطح پر ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکے۔

3۔ تعلیمی نصاب میں اصلاحات:
جذبات پر مبنی تعلیم کے بجائے تعلیمی نظام میں عقل و منطق اور سائنسی اصولوں پر مبنی نصاب متعارف کرایا جانا چاہیے۔ فلسفے، سائنس، اور منطق کی تعلیم کو عام کیا جائے تاکہ طلبہ میں تنقیدی سوچ اور فکری گہرائی پیدا ہو۔ اس سے معاشرت میں جذباتی سوچ کی بجائے علمی بنیادوں پر فیصلے کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گی۔

4۔ فکری آزادی اور مکالمے کو فروغ:
مختلف نظریات اور خیالات پر کھلے دل سے بحث و مباحثے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ مشرقی معاشروں میں فکری جمود کو توڑنے کے لیے ضروری ہے کہ سوالات پوچھنے، نئے خیالات کو آزمانے، اور مختلف نقطہ نظر کو سمجھنے کی ثقافت کو فروغ دیا جائے۔

5۔ جذبات اور عقل کے توازن کی تعلیم:
جذبات کو بالکل نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں، مگر عقل و جذبات کا ایک متوازن رشتہ قائم کرنا ضروری ہے۔ جذبات کو صحیح سمت میں استعمال کرنے اور ان کے ساتھ عقل و منطق کا استعمال کرنے سے فرد اور معاشرت دونوں میں استحکام اور ترقی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اسلام بھی عقل و جذبات میں توازن کا درس دیتا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں بار بار غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔

نتیجہ:
مشرق میں جذبات اور احساسات کو عقل و منطق پر فوقیت دینے کے باعث معاشرتی اور علمی سطح پر زوال کا سامنا رہا ہے۔ اس کا تدارک عقل، علم، اور سائنسی اصولوں کی بحالی کے ذریعے ممکن ہے۔ تعلیم، تحقیق، اور فکری آزادی کے ذریعے جذباتی فیصلوں کے بجائے علمی و منطقی بنیادوں پر مبنی معاشرتی نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے، جس سے مشرقی معاشرے عالمی سطح پر ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں۔

مغربی معاشروں میں مسائل اور ان کا حل:
مغربی معاشروں میں مادیت (Materialism) کے فروغ نے کئی سنگین سماجی اور نفسیاتی مسائل کو جنم دیا ہے، جیسے ڈپریشن، تنہائی، اور خودکشی۔ مادیت انسان کو زیادہ سے زیادہ دولت، مادی آسائشوں، اور جسمانی خوشیوں کے حصول پر مرکوز کرتی ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اپنے باطنی سکون اور روحانی تسکین سے محروم ہو جاتا ہے۔ اس ماحول میں، افراد اکثر اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں، لیکن اندرونی طور پر خالی محسوس کرتے ہیں، کیونکہ مادیت انسان کی روحانی اور جذباتی ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

مادیت اور سماجی مسائل:
مادیت کی دوڑ میں انسان اپنی فطری اور روحانی قدروں سے دور ہو جاتا ہے۔ جب انسان کی توجہ مادی اشیاء اور دنیاوی آسائشوں پر مرکوز ہوتی ہے، تو وہ اپنی روحانی خوشیوں اور قلبی سکون کو نظرانداز کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں، زندگی میں مقصد کی کمی اور وجودی بحران پیدا ہوتا ہے، جو ڈپریشن، تنہائی، اور احساسِ بے معنی پن کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مغربی معاشروں میں خودکشی کی شرح میں اضافہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مادی کامیابی کے باوجود افراد خود کو اندر سے خالی محسوس کرتے ہیں۔

مذہب کا کردار:
مذہب اس تمام بحران کا ایک مؤثر اور دیرپا حل فراہم کر سکتا ہے، کیونکہ مذہب انسان کی روحانی اور اخلاقی ضروریات کو پورا کرتا ہے، جو مادیت کے دائرے میں ممکن نہیں۔ مذہب کا بنیادی کام انسان کو اس کے حقیقی مقصد سے روشناس کرانا ہے، جس میں روحانی تسکین، اخلاقی قدریں، اور انسانی زندگی کی معنویت شامل ہیں۔ مذہب انسان کو مادیت کی سطحی دوڑ سے نکال کر حقیقی معنوی اور قلبی سکون کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔

1۔ روحانی تسکین کا ذریعہ:
مذہب انسان کو خدا سے جوڑتا ہے اور روحانی سکون عطا کرتا ہے، جو مادیت میں مفقود ہوتا ہے۔ نماز، دعا، ذکر، اور عبادات انسان کے قلب کو سکون فراہم کرتی ہیں اور اسے یہ احساس دلاتی ہیں کہ دنیاوی مادی اشیاء ہی سب کچھ نہیں ہیں بلکہ ایک اعلیٰ اور روحانی مقصد کی طرف زندگی کی رہنمائی ہونی چاہیے۔

2۔ زندگی کا مقصد اور معنویت:
مادیت میں انسان اپنی زندگی کا مقصد دنیاوی کامیابی اور مادی اشیاء کے حصول تک محدود کر دیتا ہے، جبکہ مذہب انسان کو اس سے اوپر اٹھ کر ایک اعلیٰ مقصد دیتا ہے۔ مثلاً، اسلام میں زندگی کا مقصد اللہ کی رضا اور خدمتِ خلق ہے، جو انسان کو ایک وسیع تر کائناتی نظام کا حصہ بنا دیتا ہے، اور یہ احساس انسان کو اندرونی خوشی اور سکون بخشتا ہے۔

3۔ سماجی ربط اور تعلقات کی بحالی:
مذہب انسان کو دوسروں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مغربی معاشروں میں تنہائی کا ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ مادیت نے انسانوں کو انفرادی مفادات کی طرف راغب کیا ہے۔ مذہب اجتماعی زندگی، معاشرتی روابط، اور انسانیت کی خدمت پر زور دیتا ہے، جس سے انسان خود کو دوسروں سے جڑا ہوا محسوس کرتا ہے۔ مثلاً اسلام میں زکوة، صدقہ، اور اخوت کے تصورات انسان کو اپنے معاشرتی دائرے میں فعال اور مفید بناتے ہیں۔

4۔ اخلاقی قدریں:
مادیت کی دوڑ میں اخلاقی قدریں اکثر پسِ پشت ڈال دی جاتی ہیں، جبکہ مذہب انسان کو اخلاقی اصولوں اور انسانی اقدار پر قائم رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ انصاف، دیانت، عاجزی، اور صبر جیسی اسلامی تعلیمات انسان کو ایک متوازن اور پرسکون زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں۔

5۔ نفسیاتی اور ذہنی سکون:
مذہب میں موجود عبادات اور روحانی معمولات جیسے نماز اور ذکر الٰہی، ذہنی اور نفسیاتی سکون کا سبب بنتے ہیں۔ مذہب انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ مصیبتیں اور مشکلات زندگی کا حصہ ہیں اور ان کا سامنا صبر اور اللہ پر بھروسے کے ساتھ کیا جائے۔ یہ یقین کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، انسان کو مشکل حالات میں مضبوط رہنے اور نا امیدی سے بچنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔

6۔ خودکشی کی روک تھام:
مذہب خودکشی کو ایک بڑا گناہ قرار دیتا ہے اور انسان کو اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرتے ہوئے اللہ پر بھروسہ رکھے۔ خودکشی اکثر اس وقت ہوتی ہے جب انسان اپنے وجود کو بے معنی سمجھنے لگتا ہے۔ مذہب انسان کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اس کی زندگی کا ایک اعلیٰ مقصد ہے اور اسے دنیا کی مشکلات کو عارضی سمجھنا چاہیے۔

مغربی معاشروں میں مادیت کے باعث جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، ان کا حل روحانی اور معنوی زندگی کی طرف رجوع کرنے میں ہے۔ مذہب انسان کو نہ صرف مادی دوڑ سے نکال کر ایک روحانی اور اخلاقی زندگی کی طرف بلاتا ہے بلکہ اسے اندرونی سکون، زندگی کی معنویت، اور اجتماعی خوشحالی کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔ مغربی دنیا میں ڈپریشن، تنہائی، اور خودکشی جیسے مسائل کے حل کے لیے مذہب ایک مضبوط اور مؤثر ذریعہ بن سکتا ہے، بشرطیکہ لوگ اپنی مادی خواہشات کے ساتھ ساتھ روحانی ضروریات کو بھی اہمیت دیں۔

مشرق و مغرب کی دو انتہاؤں کے درمیان کی راہ:
مشرق کا عقل کو ترک کرنا اور مغرب کا جذبات اور مذہب کو پس پشت ڈالنا دونوں ہی بڑے فکری اور معاشرتی نقصانات کا باعث بنے ہیں۔ ان دونوں رویوں نے دنیا کے دو اہم خطوں، مشرق اور مغرب، کو متوازن ترقی سے دور کر دیا ہے، اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دونوں معاشرتیں فکری انتہاؤں کا شکار ہوئیں۔ مشرق نے جہاں جذبات اور روایات پر مبنی نظام کو فوقیت دی، وہاں مغرب نے صرف مادی اور سائنسی سوچ کو اپنانے کے نتیجے میں جذبات اور مذہب کو ترک کر دیا، جس کے منفی اثرات دونوں خطوں میں دیکھنے کو ملے۔

مشرق میں عقل و منطق اور سائنسی تحقیق کو نظرانداز کرنے سے علمی و سائنسی ترقی میں رکاوٹ آئی۔ فلسفہ، سائنس، اور جدید فکر کی جگہ جذباتی، روایتی، اور غیر سائنسی عقائد نے لے لی، جس کی وجہ سے مشرق جدید دنیا کی سائنسی ترقی سے پیچھے رہ گیا۔ جب عقل اور تحقیق کو ترک کیا گیا تو غیر سائنسی عقائد اور رسومات کا فروغ ہوا، جس کی وجہ سے لوگوں نے مادی دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے جذباتی اور غیبی مدد پر انحصار کرنا شروع کر دیا۔ یہ رویہ معاشرتی ترقی اور علمی پیش رفت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بنا۔ تقلیدی ذہنیت کے غلبے نے نئی سوچ اور تحقیق کی حوصلہ شکنی کی، جس کے نتیجے میں فکری جمود پیدا ہوا اور تخلیقی سوچ کی کمی رہی۔

مغرب نے سائنس اور مادی ترقی کی خاطر مذہب، روحانیت اور اخلاقی اقدار کو نظرانداز کیا۔ اس کے نتیجے میں روحانی و اخلاقی زوال دیکھنے کو ملا، جہاں لوگ مادی کامیابیوں کے باوجود اندرونی طور پر خالی اور تنہا محسوس کرتے ہیں۔ اس سے ڈپریشن، ذہنی مسائل، اور خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا۔ مغربی معاشرتوں میں مادیت اور مادی ترقی کی خاطر انسانی جذبات اور روحانی ضرورتوں کو نظرانداز کیا گیا، جس سے زندگی کا مقصد صرف دنیاوی کامیابیاں اور مالی مفادات بن گئے، جس نے انسانی تعلقات، خوشی، اور سکون کو متاثر کیا۔ مذہبی اور روحانی اصولوں کو نظرانداز کرنے کے باعث مغربی معاشرتوں میں اخلاقی اقدار کی کمی ہوئی۔ معاشرتی تعلقات کمزور پڑ گئے، اور فردیت پسندی نے سماجی ہم آہنگی کو ختم کر دیا۔

دنیا کو عقل اور جذبات دونوں کے درمیان ایک متوازن راستہ اپنانا ہو گا۔ مشرق کو سائنسی اور فکری ترقی کی طرف واپس آنا ہوگا، اور مغرب کو روحانیت اور جذباتی توازن کو دوبارہ اپنانا ہوگا۔ دونوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انسان صرف مادی یا روحانی نہیں بلکہ ایک متوازن زندگی میں دونوں کی اہمیت ہے۔ مشرق کو عقل و منطق، سائنسی تعلیم اور تحقیق کی بحالی پر زور دینا ہوگا۔ سائنسی طریقہ کار اور تنقیدی سوچ کو تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جانا چاہیے تاکہ نئی نسل جدید سائنس اور فلسفے میں اپنا مقام بنا سکے۔ مذہبی اصولوں اور روحانیت کو عقل کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے تاکہ مذہب محض جذبات اور رسومات تک محدود نہ رہے بلکہ عملی زندگی کے مسائل کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو۔

مغرب کو روحانیت، مذہب، اور اخلاقی اصولوں کو اپنی زندگی میں دوبارہ شامل کرنا ہوگا تاکہ مادیت پرستی کے باعث پیدا ہونے والے خلاء کو بھر سکیں۔ اخلاقی و روحانی تعلیم کو دوبارہ معاشرتی اور تعلیمی ڈھانچوں میں جگہ دی جائے۔ مغربی معاشرتوں کو فردیت پسندی سے باہر نکل کر اجتماعی ذمہ داری اور انسانی تعلقات کی اہمیت پر زور دینا ہوگا تاکہ معاشرتی ہم آہنگی بحال ہو سکے۔

دونوں خطوں کے درمیان علمی و فکری مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ تجربات کا تبادلہ کیا جا سکے اور سیکھا جا سکے کہ ایک دوسرے کی کمزوریوں کو کیسے پورا کیا جا سکتا ہے۔ مشرق کو مغرب سے سائنسی ترقی اور تحقیق کی اہمیت سیکھنی چاہیے، جبکہ مغرب کو مشرق سے روحانیت، جذبات، اور اخلاقی اصولوں کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دونوں خطوں میں تعلیمی نظام کو اس طرح ترتیب دینا چاہیے کہ وہ ایک متوازن شخصیت کی تعمیر کرے۔ سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ جذباتی اور روحانی تربیت بھی دی جائے تاکہ طلباء میں متوازن شخصیت اور بہتر معاشرتی رویوں کا فروغ ہو سکے۔

دنیا کے بڑے مسائل، جیسے ماحولیاتی تبدیلی، غربت، اور جنگ، کا حل ایک متوازن، عقل و جذبات دونوں کو شامل کرنے والی اپروچ سے ممکن ہے۔ اگر دنیا کو حقیقی خوشحالی اور مسرت حاصل کرنی ہے، تو مادی اور روحانی پہلوؤں کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔

مشرق اور مغرب دونوں ہی فکری انتہاؤں کا شکار رہے ہیں۔ مشرق نے عقل و سائنس کو چھوڑا، اور مغرب نے مذہب اور جذبات کو ترک کیا۔ اس سے دونوں معاشرتوں میں زوال اور عدم توازن پیدا ہوا۔ دنیا کے لیے ایک متوازن لائحہ عمل وہی ہو سکتا ہے جو دونوں خطوں کی خوبیوں کو یکجا کرے: مشرق میں سائنسی سوچ اور عقل کی بحالی، اور مغرب میں روحانیت اور جذباتی توازن کی اہمیت۔ یہ متوازن رویہ انسانیت کو ایک نئی راہ دکھا سکتا ہے، جس سے حقیقی خوشحالی اور اندرونی سکون حاصل ہو سکتا ہے، اور دنیا کے بڑے مسائل کو دانشمندی اور شعور کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔

 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 94 Articles with 70768 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.