چین کے تازہ ترین خلائی مشن کی زمین پر واپسی کے تین ماہ
بعد چھانگ عہ 6 مشن کے ذریعے واپس لائے گئے نمونوں نے چاند کے دور دراز حصے
کے بارے میں نئے راز وں کا انکشاف کیا ہے۔حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق
میں چھانگ عہ 6 اور اس سے قبل کے چھانگ عہ 5 مشن کے ذریعے حاصل کیے گئے
چاند کے نمونوں میں اہم فرق سامنے آیا تھا۔چھانگ عہ 5 چاند کے نمونوں کے
مقابلے میں ، چھانگ عہ 6 نمونے معدنی ساخت میں فرق کی وجہ سے رنگ میں قدرے
ہلکے دکھائی دیتے ہیں۔ مزید برآں، ان کی کم کثافت زیادہ مسام دار اور ڈھیلی
ساخت کی نشاندہی کرتی ہے۔
رواں سال جون میں چین نے 53 دن کے سفر کے بعد چھانگ عہ 6مشن مکمل کیا تھا۔
اس نے چاند کے دور دراز حصے سے نمونے واپس لانے والے اولین مشن کے طور پر
تاریخ رقم کی، جس میں 1935.3 گرام قیمتی چاند کے نمونے واپس لائے
گئے۔ماہرین کے خیال میں چھانگ عہ 6 مشن انسانیت کی قمری تحقیق کی تاریخ میں
ایک اہم سنگ میل کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہ چاند کے ارتقا ء کی زیادہ
جامع تفہیم میں کردار ادا کرے گا۔
چاند کے ساتھ ایک خاص رغبت یا کشش کی جڑیں صدیوں سے چینی ثقافت میں موجود
ہیں، جس کا ثبوت چھانگ عہ نامی ایک خاتون کی دیومالائی کہانی ہے جس نے چاند
کا سفر کیا اور اس پر رہائش اختیار کی۔چین کا قمری تحقیق کا منصوبہ ، جس کا
نام اسی لیجنڈ کے نام پر رکھا گیا ہے ، باضابطہ طور پر 2004 میں شروع کیا
گیا تھا۔مدار، لینڈنگ اور نمونے کی واپسی کے تین مراحل پر مشتمل منصوبے کے
بعد، ملک نے 2007 میں اپنا پہلا قمری مشن ، چھانگ عہ 1 لانچ کیا تھا۔ اس
مشن نے چاند کی سطح کا ایک جامع نقشہ فراہم کیا، جس میں پہلے سے نظر نہ آنے
والی تفصیلات سامنے آئیں۔
چھانگ عہ 2 قمری آربیٹر کو 2010 میں لانچ کیا گیا تھا، جس میں صرف 100
کلومیٹر کی اونچائی سے چاند کی نقشہ بندی کی گئی تھی، جس میں سات میٹر کی
غیر معمولی ریزولوشن کے ساتھ ایک تصویر کھینچی گئی۔ سنہ 2013 میں چھانگ عہ
3 نے چاند کی سطح پر کامیاب سافٹ لینڈنگ کی تھی۔ اس کے ساتھ ہی چین کے پہلے
قمری روور نے چاند کی سطح پر اپنا نشان چھوڑا اور چاند پر اب تک سب سے
زیادہ کام کرنے والے روور کا ریکارڈ قائم کیا۔ سنہ 2018 میں لانچ کیے جانے
والے چھانگ عہ 4 نے سنہ 2019 میں چاند کے دور افتادہ حصے میں اترنے والے
پہلے مشن کے طور پر تاریخ رقم کی تھی، اس کے بعد سنہ 2020 میں کامیاب چھانگ
عہ 5 مشن شروع کیا گیا تھا، جو 1731 گرام چاند کے نمونوں کے ساتھ واپس آیا
، یہ چار دہائیوں میں چاند کے نمونے لینے والا پہلا مشن تھا۔
چین کا چاند کی کھوج کا منصوبہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ چھانگ عہ 6 کی
کامیابی کے ساتھ ہی ملک چاند کی تلاش کے چوتھے مرحلے کو آگے بڑھا رہا
ہے۔چین 2026 کے آس پاس ماحولیاتی اور وسائل کی تلاش کے لئے چھانگ عہ 7 کو
چاند کے جنوبی قطب پر بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے اور 2028 کے آس پاس چھانگ
عہ 8 پروب لانچ کیا جائے گا ، جس سے بین الاقوامی قمری تحقیقی اسٹیشن (آئی
ایل آر ایس) کی تعمیر کی راہ ہموار ہوگی۔
یہ اسٹیشن ایک سائنسی تجرباتی سہولت ہوگی جس میں چاند کی سطح کی بنیاد،
مدار اسٹیشن اور زمین پر مبنی اجزاء ہوں گے۔ اس کی تعمیر دو مرحلوں میں
متوقع ہے: ایک بنیادی ماڈل جو 2035 تک چاند کے جنوبی قطب کے علاقے میں
تعمیر کیا جائے گا اور ایک توسیعی ماڈل جو تقریباً 2050 تک تعمیر کیا جائے
گا۔اس پرجوش منصوبے نے بین الاقوامی سطح پر نمایاں دلچسپی حاصل کی ہے ، جس
میں 10 سے زیادہ ممالک اور 40 سے زیادہ اداروں نے تعاون کے لئے دستخط کیے
ہیں۔
چین نے واضح کیا ہے کہ وہ تمام ممالک کے ساتھ بین الاقوامی تعاون کا خیر
مقدم کرتا ہے۔ چاہے وہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک ہوں، ابھرتے ہوئے برکس ممالک
ہوں یا پھر مغربی اور یورپی یونین کے ممالک، چین سب کے ساتھ ہم ہمہ جہت
تعاون کرنا چاہتا ہے۔چین کے ایرو اسپیس اور قمری تحقیق کے پروگرام ، پوری
دنیا کے لئے کھلے ہیں۔
|