حکمران چور باقی سب فرشتے

یہاں اپنے دامن پرلگے داغ کسی کونظرآرہے ہیں اورنہ ہی کوئی شخص اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے تیارہے۔دنیاترقی کرگئی یانہیں لیکن ہم اتنے ترقی یافتہ ہوگئے ہیں کہ اپنے سارے عیب،جرائم اورگناہ ہم نے دوسروں پرتنقیداورتضحیک کرنے اورانہیں گناہ گارومجرم کہنے کے پردے میں چھپادیئے ہیں۔آپ دورجانے کے بجائے محلے کی دکان،قریبی ریڑھی بان یاسبزی فروش اوردودھ فروش کے پاس چلے جائیں ۔محلے کادکاندار،ریڑھی بان اورسبزی ودودھ فروش دونمبراشیاء،خراب فروٹ سبزی،کیمیکل،پاؤڈراورپانی ملادودھ آپ کوپکڑاتے ہوئے حکمرانوں،لیڈروں،سیاستدانوں اوردوسرے لوگوں کوبرابھلاکہتے اورگالیاں دیتے دکھائی دیں گے۔اصل سے بھی زائد قیمت لیکرآپ کودونمبراشیاء،خراب سبزی وفروٹ اوردودھ کے نام پرزہردینے والے پکے وٹکے مسلمان کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ ہم حرام خورہیں،فراڈی ہیں،بے ایمان ہیں اورجھوٹے ونوسربازہیں بلکہ اس ملک میں ہرچور،بے ایمان اورڈاکودوسروں کی طرف انگلی کرکے کہتاہے کہ میرے سواسارے لوگ خراب ہیں۔کچھ دن پہلے ایک رپورٹ نظروں سے گزری جس میں یہ انکشاف کیاگیاکہ یہاں دودھ کے نام پر زہربیچاجارہاہے۔سومیں کوئی پندرہ بیس فیصدخالص دودھ کہیں بیچاجارہاہوگا،اسی پچاسی فیصددودھ کے نام پرکیمیکل اورپاؤڈرگول کرکے لوگوں کوپلایااورتھمایاجارہاہے۔یہ صرف ایک دودھ کی بات نہیں اس ملک میں تواب ہرچیزدونمبربکنے لگی ہے۔سگریٹ،پتی،مصالحہ جات،صابن،سرف،شیمپو،چاکلیٹ اورکپڑوں وجوتوں سمیت انسانی زندگیاں بچانے والی ادویات تک مارکیٹ میں دونمبراورغیرمعیاری سرعام فروخت ہورہی ہیں۔جس طرح اچھے برے اورایمانداروبے ایمان انسان کاپتہ نہیں چل رہااسی طرح اب مارکیٹ میں دستیاب اشیاء کے جعلی اوراصلی ہونے میں بھی فرق معلوم نہیں ہورہا۔اصلی اورمعیاری چیزبنانے کاہمیں نہیں پتہ لیکن دونمبراورجعلی اشیاء بنانے کے توہم ماہراورماسٹرہیں۔ایسی کونسی چیزہے جس کی ہم نے کاپی مارکیٹ میں نہ لائی ہو۔ہماری مارکیٹیں،دکان،بازاراورگھربارجعلی اشیاء،جھوٹ،فریب اوردھوکے سے بھرے پڑے ہیں۔باہرکی دنیامیں تاجر،سرمایہ دار،صعنتکاراوربیوپاری کاروبارکے ذریعے انسانیت کی خدمت کاعزم،ارادہ اورنیت کرکے گھروں سے نکلتے ہیں اورہم۔؟ہم رات کوخواب میں بھی اپنے مجبور،لاچار،بے بس اوربے وس مسلمان بھائیوں کولوٹنے،کاٹنے اورڈسنے کے طریقے سوچتے ہیں۔ہماراارادہ،مقصداورمشن ہی یہ ہوتاہے کہ گاہگ کوکیسے لوٹااورڈساجائے۔؟ایک غریب،مجبوراورلاچارانسان کودس روپے کی شے پانچ سواورہزارمیں پکڑانایہ توہمارے ہاں عام بلکہ سرعام ہے۔آنے والے گاہک اورسائل کوبڑے سے بڑاٹیکہ لگانے کوہم ترقی اور کامیاب کاروبار سمجھتے ہیں۔ہمارے ہاں سب سے بڑااورکامیاب تاجر،سرمایہ دار،کسان،زمینداراورصعنتکاروہ ہے جس کے ہاتھ سے مارکیٹ،بازاراوردکان آنے والے لوگوں کوسب سے زیادہ نقصان اورتکلیف پہنچے۔ہماراکام اورمقصدصرف پیسے بٹورناہے آگے ہمارے ہاتھوں یاہماری حرص اورلالچ کی وجہ سے کوئی بھوک سے مرے یاغیرمعیاری اشیاء وادویات کھانے سے تڑپے۔ اس سے ہماراکوئی سروکارنہیں۔کچھ دن پہلے ہمارے آبائی گاؤں جوزضلع بٹگرام میں ایک رشتہ دارخاتون زبیرگلالاکی اہلیہ کوباؤلے کتے نے کاٹاجسے فوری طورپرمہنگے انجکشن لگائے گئے اورپھرانجکشن کاکورس بھی مکمل کرایاگیالیکن اس کے باوجودان انجکشن کاکوئی اثرنہیں ہوا۔ماناکہ موت اٹل حقیقت ہے ٹائم پوراہوتویہ پھرانجکشن اورادویات سے بھی نہیں رکتالیکن مریض کولگنے والے انجکشن اوردوائیاں ہی اگر دونمبراورغیرمعیاری ہوں توپھرموت سے کیاگلہ ۔؟مریض یامریضوں کولگنے والے انجکشن اوراسے منوں کے حساب سے دی جانے والی دوائیاں اصلی ہیں یاجعلی اس سوال کاجواب کسی کے پاس نہیں،خودڈاکٹروں کوبھی پتہ نہیں ہوتاکہ کونسی دوائی اصلی ہے اورکونسی جعلی۔اس ملک اورمعاشرے میں دونمبر،جعلی اورغیرمعیاری ادویات اوردیگراشیاء نے انسانیت کوتباہ کرکے رکھ دیاہے۔یہاں غریب لوگ بکری،گائے،بھینس اوردیگرمال مویشی بیچ کراپناعلاج کرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دوائیوں پردوائیاں کھانے اورانجکشن لگانے کے باوجودانہیں کوئی افاقہ نہیں ہوتا۔پہلے پیراسٹامول اورپیناڈول کی ایک گولی کااثربھی کئی دن تک رہتالیکن اب لوگ گولیوں پرگولیاں کھانے اوردوائیاں پھونکنے کے باوجودمعمولی سافرق اوراثرتک محسوس نہیں کرتے۔پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست راشدخان شدیدبیمارہوئے،ڈاکٹرکے پاس گئے تواس نے بیس کلووالاپوراتھیلادوائیوں سے بھرکرتھمادیا۔دوتین دن بعدہم نے پوچھادوائیوں سے کوئی فرق پڑا۔کہنے لگے حرام بااﷲ ذرہ بھی کوئی فرق پڑاہوا۔یہ کسی ایک راشدخان یاکسی ایک گاؤں،دیہات،شہراورصوبے کی بات اورمسئلہ نہیں۔اس وقت کراچی سے سیاچن،چترال سے مکران اورلاہورسے کشمیرتک پوراملک جعل سازوں،فراڈیوں اورنوسربازوں کے نرغے میں ہے۔ادویات کیا۔؟ان ظالموں سے تواس ملک میں عام کھانے پینے کی اشیاء اوردودھ تک محفوظ نہیں۔ہرگلی،چوک اورچوراہے پرصحت کے نام پرموت بانٹی جارہی ہے۔کاروبارسے وابستہ تقریباًپچانوے فیصدلوگ رزق کے نام پرزہربیچ رہے ہیں۔افسوس کامقام یہ ہے کہ ان ظالموں اورچھپے قاتلوں پرہاتھ ڈالنے والاکوئی نہیں،کوالٹی چیک کے نام پراس ملک میں کئی محکمے اوردرجنوں افسران ہیں لیکن کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ قوم کے ان دشمنوں پرہاتھ ڈالیں۔ان مفادپرستوں کی حرص اورلالچ کی وجہ سے پورامعاشرہ تباہ ہورہاہے۔کام سارے یہ خودچوروں،ڈاکوؤں،فراڈیوں اورنوسربازوں والے کرتے ہیں لیکن ان کے ہاں چوراورڈاکوکل بھی حکمران تھے اورآج بھی حکمران ہیں۔ان کی شکلیں دیکھ کرایسالگتاہے کہ ان سے بڑے فرشتے کوئی ہوں ہی نہ۔ وقت آگیاہے کہ ایسے حرام خوروں اوربے ایمانوں پرہاتھ ڈال کرانسانیت کوتباہ ہونے سے بچایاجائے نہیں تواس ملک میں ادویات اورکھانے پینے والی اشیاء کے نام پر زہربیچنے والے یہ درندے توہوں گے لیکن انسان پھرنہیں ملیں گے۔اس لئے انسانیت کوبچانے کے لئے ان درندوں کاقلع قمع کرنافرض ہی نہیں بلکہ اس قوم کا قرض بھی ہے۔
 

Umar Khan Jozovi
About the Author: Umar Khan Jozovi Read More Articles by Umar Khan Jozovi: 223 Articles with 161024 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.