ہم اپنے ایک مشاہدے سے واضح کرتے
ہیں۔ گاڑی میں بہت بھیڑ تھی‘ بیٹھنے کو جگہ نہیں تھی‘ کئی مسافر کھڑے تھے‘
ان میں ایک خوبرو آدمی بیش قیمت سوٹ میں ملبوس کھڑا تھا۔ اس نے بیٹھنے کو
جگہ مانگی تو دو تین مسافر خندہ پیشانی سے سکڑ گئے اور اسے اپنے پاس بٹھا
لیا۔
اس کے قریب ہی ایک اور آدمی کھڑا تھا جو کسی فیکٹری کا مستری معلوم ہوتا
تھا‘ چہرے پر مشقت اور مہنگائی کے آثار تھے اور اس کا لباس صرف قمیض اور
پاجامہ تھا۔ اس نے امیرانہ لباس والے خوبرو آدمی کو ایک اشارے سے جگہ حاصل
کرتے دیکھا تو اس نے بھی سامنے والی سیٹ پر بیٹھے مسافروں سے جگہ مانگی۔
مسافروں نے توجہ ہی نہ دی اور وہ کھسیانہ ہوکر کھڑا رہا۔
تھوڑی ہی دیر بعد گاڑی میں یہ انقلاب آیا کہ سیٹ پر بیٹھے مسافر اس مستری
قسم کے غریب سے آدمی کو گھسیٹ گھسیٹ کر سیٹ پر بٹھارہے تھے۔ وہ اس قدر
سکڑگئے تھے کہ خوش پوش آدمی جگہ کی تنگی سے پریشان ہوکر اٹھ کھڑا ہوا کسی
نے اس کی طرف توجہ ہی نہ دی۔ مستری محفل کی جان بنا ہوا تھا۔ اس کے ہونٹوں
پر تبسم تھا۔ وہ دھیمے دھیمے باتیں کررہا تھا اور مسافر قہقہے لگارہے تھے۔
اس کے مقابلے میں خوش شکل اور خوش لباس آدمی سب کو حقارت سے دیکھ رہا تھا۔
یہ شخصیت کا کرشمہ تھا ایک نے اپنی اصل شخصیت کو مصنوعی شخصیت یعنی سوٹ بوٹ
اور چہرے کی اچھی رنگت میں چھپا رکھا تھا اور دوسرے نے چہرے کی زردی اور
غریبانہ لباس میں۔ اصل شخصیت ایسی چیز ہے جسے نہ مخمل میں چھپایا جاسکتا ہے
نہ ٹاٹ میں.... یہ درست ہے کہ چہرہ اور لباس دوسروں پر فوری طور پر ایک اثر
پیدا کرتا ہے لیکن یہ اثر دیر پا نہیں ہوسکتا۔ شخصیت کی اصلیت ازخود سامنے
آجاتی ہے۔ آپ نے کئی آدمیوں کو کسی کے متعلق یہ کہتے سنا ہوگا ”وہ آدمی
بظاہر جاہل اور گنوار ہے لیکن میں اس کی کسی بات کو ٹال نہیں سکتا۔ وہ جو
کچھ کہتا ہے میں مان لیتا ہوں“ یہ دراصل اس آدمی کی شخصیت کی تعریف ہورہی
ہوتی ہے۔
خوبصورتی‘ قیمتی اور جدید لباس‘ تعلیمی ڈگریوں‘ کار اور کوٹھی‘ عہدے اور
رتبے اونچی ذات اور سرکاری خطابات سے شخصیت نہیں بنتی۔ شخصیت کے ساتھ ان کا
تعلق دور پار کا بھی نہیں ہوتا۔ شخصیت ایک اندرونی قوت ہے جسے دوسرے دیکھ
نہیں سکتے بلکہ محسوس کرتے ہیں۔ اگر آپ خوبرو ہیں اور آپ کی اندرونی دنیا
میں نفرت بھری پڑی ہے تو وہ آپ کی خوبروئی کا تمام تر اثر زائل کردے گی۔
شخصیت اور کردار چار عناصر کا مرکب ہوتے ہیں‘ گھر کے اثرات‘ مدرسے کے
اثرات‘ گردوپیش یعنی سوسائٹی کے اثرات کے متعلق انسان کا اپنا ردعمل....
اگر آپ کسی کو دوست نہیں بناسکتے اور لوگ آپ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تو اس
کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی شخصیت غلط اثرات سے متشکل ہوئی ہے۔ یہ اثرات انسان
کے چہرے مہرے پر کم ہوتے ہیں۔ ان کا اظہار کردار اور گفتار سے ہوتا ہے یا
انسان کے سلوک اور برتائو سے۔
شخصیت بدل سکتی ہے
کچھ عرصہ پہلے تک کہا جاتا رہا ہے کہ انسان کی شخصیت جس سانچے میں ڈھل گئی
بس ہمیشہ کیلئے ڈھل گئی۔ اسے بدلا ہی نہیں جاسکتا‘ اب ماہرین نفسیات نے
تجربات کی روشنی میں فیصلہ دیدیا ہے کہ یہ محض مفروضہ ہے اور بے بنیاد۔
شخصیت کو انسان اپنی کوششوں سے بدل سکتا ہے اور منفی اثرات سے آزاد ہوکر
نیا انسان بن سکتا ہے۔
معاشرے کے احوال و کوائف کچھ ایسی غیریقینی اور ناگفتہ بہ صورت اختیار
کرگئے ہیں کہ عام شہری باعزت زندگی بسر کرنے کی جدوجہد میں اپنی اصل شکل و
صورت یعنی شخصیت بگاڑ بیٹھے ہیں۔ ہونٹوں سے مسکراہٹیں اور گھروں سے مسرتیں
غائب ہوگئی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو شکی نگاہوں سے دیکھتے ہیں‘ خلوص اور
دیانتداری ناپید ہوگئی ہے۔
ہمیں انہی حالات میں اپنی ان ڈھکی چھپی خوبیوں کو ابھارنا ہے جو معاشرتی
افراتفری اور قباحتوں کے زہر کو کم کرسکتی ہیں۔ یقین جانیے کہ یہی انفرادی
خوبیاں ایک نہ ایک دن اجتماعی قوت بن کر معاشرے کو سدھار لیں گی اور
نفسانفسی کی کیفیت ختم ہوجائے گی۔
جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ اسی معاشرے میں آپ کو ایسے افراد نظر آئیں گے جو
معاشی بدحالی اور جذباتی خلفشار کا شکار ہونے کے باوجود شگفتہ مزاج ہیں‘
لہٰذا دوسروں کے منظور نظر۔ آپ بھی اپنی شخصیت میں یہ مقناطیسی قوت پیدا
کرسکتے ہیں۔ آپ کو کسی ماہر نفسیات کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ خود ہی ہمت
کیجئے پھر اس کے نتائج دیکھئے۔ آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔
اپنے دوستوں‘ پڑوسیوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والوں میں دوچار ایسے آدمیوں
کو منتخب کرلیں جنہیں ہر کوئی پسند کرتا ہے۔ اس فہرست میں خوشامدیوں کو
شامل نہ کیجئے۔ خوشامدی بے شک منظور نظر ہوتے ہیں مگر یہ ایک قبیح عادت ہے۔
اس عادت سے بچئے ورنہ ایک دو افسروں کو خوش کرتے کرتے آپ اپنے ساتھیوں اور
دوستوں کی نظروں میں قابل نفرت انسان بن جائیں گے۔ ان آدمیوں کو منتخب کریں
جو خوشامد کے بغیر مقبول اور ہردلعزیز ہیں ان کی عادات اور طور طریقوں کا
جائزہ لیجئے اور دیکھئے کہ ان میں وہ کونسے اوصاف ہیں جو دوسروں کا دل موہ
لیتے ہیں۔
آپ کو ان میں یہ اوصاف نظر آئیں گے.... تندرستی‘ شگفتہ مزاجی‘ اخلاقی جرات‘
خوداعتمادی‘ کام اور فرض کی لگن‘ اُنس‘ ہمدردی‘ دوسروں کی ہر بات کو پوری
توجہ سے سننا‘ دوسروں کے ذاتی مسائل اور تفکرات میں دلچسپی لینا‘ تحمل‘
بردباری‘ خوش ذوقی‘ دوسروں پر اپنی رائے نہ ٹھونسنا‘ اپنے ذوق کو دوسروں کے
ذوق پر فوقیت نہ دینا‘ زود پشیمانی سے گریز اور غیبت نہ کرنا‘ یہ تمام
اوصاف احساس کمتری کو ختم کرکے خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں اور یہی آپ کی
بنیادی ضرورت ہے۔
اپنا جائزہ لیجئے: دیانتداری سے دیکھئے کہ آپ میں یہ اوصاف موجود ہیں یا
نہیں؟ جی اوصاف تو یقیناً موجود ہیں لیکن آپ نے انہیں دبا رکھا ہے۔ ان
اوصاف پر آپ نے افسردگی اور شکست کا رنگ چڑھا رکھا ہے جب کوئی پڑوسی آپ کو
اپنی کسی تکلیف کی تفصیلات سنانے لگتا ہے تو آپ کے چہرے پر اکتاہٹ چھاجاتی
ہے یا پھر اس کی بات کاٹ کر آپ اپنی رام کہانی شروع کردیتے ہیں جس کا نتیجہ
یہ ہوتا ہے کہ لوگ آپ کو بیکار اور گُود انسان سمجھ کر آپ کو کوئی اہمیت
نہیں دیتے۔ اس سے آپ کے احساس کمتری کو زیادہ تقویت ملتی ہے۔ |