پاکستان میں شدت پسندوں کے
حملوں،لوڈ شیڈنگ کے عذاب، ڈینگی کے خوں آشام حملے،پے در پے ہونیوالے حادثات
نے جہاں آہوں اور سسکیوں کو جنم دیا ہے۔ وہاں لوگوں نے غم و مصائب سے صوفی
ازم اور موسیقی کی چادر میں پناہ لی ہے۔ ملک کی اشرافیہ اب جگہ جگہ ایسی
نجی محفلیں منعود کرتی ہے۔ جس میں موسیقی میں راہ نجات ڈھونڈی جاتی ہے۔
امراءجاتی کے آس پاس پھیلے ہوئے فارم ہاﺅس میں یہ محفلیں تواتر سے ہوتی ہیں۔
موسیقی سے شغف کی یہ ایک غیرمعمولی رسم ہے، جس کا محرک موسیقی ہے۔یہ رسم
نوجوان لیکن دولت مند پاکستانیوں نے چلائی ہے، جو دہشت گردی، انتہاپسندی
اور سیاسی بحران کے نرغے میں لپٹے اپنے ملک پاکستان کو مثبت راہ پر ڈالنا
چاہتے ہیں۔ ان دنوں پاکستانی موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی ایک میوزک البم نے
بھی میوزک پسند کرنے والوں کو دیوانہ بنا رکھا ہے۔ اپنی مقبولیت کے لحاظ سے
یہ امریکہ اور برطانیہ میں پہلے نمبر پر جبکہ یورپ میں دس مقبول ترین
البموں میں شامل ہے۔ اس البم میں جاز موسیقی کا مشہور ٹریک "ٹیک فائیو" بھی
شامل ہے جسے اگرچہ اب تک انتیس مرتبہ ریکارڈ کیا جا چکا ہے لیکن پاکستانی
موسیقاروں نے پہلی مرتبہ اس ٹریک کو مشرقی آلات موسیقی سے تیار کرکے با لکل
ایک نئی چیز تخلیق کی ہے۔
پاکستانی لوک فنکار ریشماں، الن فقیر، پٹھانے خان،الغوزہ نواز مصری خان
جمالی ایسے فنکار ہیں جنہوں نے لوک موسیقی کے ذریعہ لوگوں کو غم و اندو سے
نجات دلائی، ان کی آوازیں ہماری لوک موسیقی کا خزانہ ہیں۔نصرت فتح علی اور
راحت فتح علی خان نے اس میں نیا رچاﺅ پیدا کیا ہے۔ سچل فوک البم کو بنانے
میں موسیقی سے والہانہ لگاؤ رکھنے والی ایک متمول کاروباری شخصیت عزت مجید
نے اساسی کردار ادا کیا ہے۔ یہ البم ساٹھ پاکستانی فنکاروں کی مدد سے تیار
ہوا ہے۔ لاہور میں سچل اسٹوڈیو بھی صوفی شاعر سچل سرمست کی یاد دلاتا ہے۔
اس کے ڈائریکٹرآپریشن مشتاق صوفی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں
غالبا پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ نصرت فتح علی خان کے بعد موسیقی کے کسی
پاکستانی گروپ کو عالمی سطح پر اتنی پذیرائی ملی ہے اور یہ سب کچھ کسی
سرکاری مدد کے بغیر ہوا ہے۔ان کے مطابق انفرادی کوششیں اپنی جگہ لیکن مو
سیقی کی سرپرستی کیے بغیر اسے فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ ان کے بقول جن
حکومتوں کو صحت اور تعلیم پر بھی مناسب رقوم خرچ کرنےکی توفیق نہیں ہوتی ان
سے آرٹ اور موسیقی کے فروغ کے لیے اقدامات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
دیکھا جائے تو پاکستان میں فلمی صنعت اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ رہا
ہے، ایک زمانے میں پاکستان میں سالانہ سو سے زیادہ فلمیں بنا کرتی تھیں
لیکن پاکستانی فلم انڈسٹری کے زوال کی وجہ سے فلمی موسیقی بھی تقریبا ختم
ہو کر رہ گئی۔ موسیقاروں نے اس راہ پر چلنا ہی چھوڑ دیا۔ سچل اسٹوڈیو نے
ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان موسیقاروں کو اکٹھا کیا تھا ۔ اب سچل جاز کی کامیابی سے
ان فنکاروں کو پاکستانی موسیقی کے پرانے دور کی بحالی کی امید پیدا ہونے
لگی ہے۔ پاکستان کو ایک جانب دہشت گردی کی کارروائیوں کا سامنا ہے۔ تو
دوسری جانب ملک کا ثقافتی دارالحکومت لاہور موسیقی اور ثقافتی سرگرمی کا
مرکز بنا ہوا ہے۔ رائے ونڈ روڈ پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اسٹیٹ کے
قریب فارم ہاؤسز میں متعدد لوگ ہر ہفتے کی رات رقص و موسیقی کے ساتھ بسر
کرتے ہیں۔بہت سے لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اور ان کا کہنا ہے: ”یہ ہے
پاکستان، میرا پاکستان، بدلتا ہوا پاکستان، اب اور دھماکے نہیں، دہشت گردی
کی اور کارروائیاں نہیں، ہمارا معاشرہ بدل رہا ہے۔ہندوستان میں بھی موسیقی
اور فن کے حوالے سے لوگ سوال کرتے ہیں۔ غزل گائیکی کے مستقبل کے بارے میں
مشہور گلوگار جگجیت سنگھ فکر مند ہیں، ”ان دنوں بہت کم غزل گلوکار بچے ہیں
کیونکہ انہیں کوئی پلیٹ فارم نہیں مل رہا ہے۔ نئی نسل سیکھنا چاہتی ہے،
لیکن اب یہ مقبول نہیں رہی، تو نوجوان اس کی تربیت بھی حاصل نہیں کر رہے،
ایسی صورت حال میں آپ نئی نسل کو غزل گاتے اور سنتے ہوئے کس طرح دیکھ سکتے
ہیں۔غزل گائیکی کے بادشاہ جگجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ بھارت میں غزل گانے
والے ختم ہو رہے ہیں اور نئی نسل چاہتے ہوئے بھی غزل گانے سے قاصر ہے۔ ان
کے مطابق ری مکس کے زمانے میں کلاسیکی گائیکی دم توڑ رہی ہے۔ غزل گائیک
جگجیت سنگھ ممبئی کے لیلاوتی اسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکس میں مبتلا
ہیں۔ انھیں لائف سپورٹ سسٹم پر رکھا گیا ہے۔ڈاکٹر ان کی نگہداشت کر رہے
ہیں۔ گذشتہ جمعہ کو ان کے دماغ کی نس پھٹ جانے کی وجہ سے انھیں اسپتال میں
داخل کرایا گیا تھا جہاں دوبار ان کے دماغ کی سرجری کی گئی ہے۔ اس روز وہ
پاکستانی غزل سنگر غلام علی کے ساتھ ایک پروگرام پیش کرنے والے تھے، لیکن
اچانک ان کا بلڈ پریشر اتنا بڑھ گیا کہ دماغ کی نس پھٹ گئی اور انھیں فوراً
اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔اب تک ان کی غزلوں کے 40سے زائد البم منظرِ عام
پر آچکے ہیں۔ انھیں بھارت سرکار کی جانب سے سال 2003ء میں ’پدم بھوشن‘ کا
ایوارڈ دیا گیا تھا۔ انھیں ’شہنشاہِ غزل‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ بالی
وڈ کی بیشمار فلموں میں انھوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔
پاکستا ن میں ضیا الحق کا دور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والوں پر بھاری پڑا
تھا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے عزت مجید بھی پنجاب یونیورسٹی میں
ایڈمنسٹریٹو سائنسزکے استاد رہے ہیں۔ ضیاالحق دور میں انہیں ملک چھوڑنا
پڑا، کچھ عرصہ سعودی عرب میں رہے پھر لندن جا بسے، مالیاتی امور میں مہارت
رکھنے والے عزت مجیدآج کل لندن میں اپنا کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ وہ
پاکستان کے ماضی کے معروف فلم ساز اور ہدایت کار میاں مجید کے صاحبزادے
ہیں۔ عزت مجید نے عمدہ موسیقی کی تخلیق کے لیے غیر تجارتی بنیادوں پر لاہور
میں موسیقی کا ایک "پرپز بلڈ" اسٹوڈیو بھی بنا رکھا ہے۔ سچل اسٹوڈیو کی
تیاری میں انہیں ایک جرمن شہری اور برطانیہ کے معروف ساؤنڈ انجینئرکرسٹوف
براخر کی رہنمائی بھی میسر رہی ہے۔ عزت مجید کا کہنا ہے کہ وہ مالی
اورتکنیکی وسائل استعمال کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کی موسیقی کو عالمی میعار
کے مطابق تیار کر رہے ہیں۔ وہ کلاسیکی، نیم کلاسیکی، فوک اور جاز سمیت
موسیقی کے کئی شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ جاز کا ایک
مزید اور بر صغیر کی جدید نظموں کے حوالے سے ایک خصوصی البم پیش کرنے کا
ارادہ رکھتے ہیں۔عزت مجید کہتے ہیں کہ انہیں خوشی ہے کہ سچل جاز کی مقبولیت
سے نہ صرف پاکستانی موسیقی کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی ہے بلکہ اس سے
پاکستانی موسیقاروں کی بھی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ بغیرکسی حکومتی تعاون سے
موسیقی کی خدمت کرنے والے عزت مجید کو دکھ ہے کہ ان کے موسیقی کے، جس البم
کی دنیا بھر میں دھوم مچی ہوئی ہے، ان کے اپنے وطن پاکستان میں لوگ اس بارے
میں زیادہ نہیں جانتے۔ ان کے بقول، ”پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرنے والی
ان کی اس شاندار کامیابی پر ابھی تک کسی حکمران شخصیت نے انھیں نہیں سراہا۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سیلاب کی امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے
لئے عزت مجید کو دعوت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابھی مجھ سے کسی نے اس سلسلے
میں بھی رابطہ نہیں کیا۔“ عزت کہتے ہیں کہ ان کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کی
ذاتی کوششوں سے اجڑے ہوئے پاکستانی فنکاروں کو دنیا میں عزت اور شہرت مل
رہی ہے۔دوسری جانب لندن کی منسٹری آف ساؤنڈ پاکستان میں موسیقی کے
پروگراموں کا اہتمام کر رہی ہے۔ اس منسٹری کی جانب سے اینٹوں کے بھٹے پر
حال ہی میں منعقدہ ایک پروگرام کے ڈی جے فیصل بِگ کا کہنا ہے کہ یہاں ایسا
لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں نہیں، بلکہ کہیں اور ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کم
از کم یہ وہ پاکستان تو نہیں لگتا، جسے آپ ذرائع ابلاغ کے ذریعے جانتے
ہیں۔اس کے منتظمین نے لندن کے معروف نائٹ کلب کو ایک رات کے پروگرام کے لیے
ایک ڈی جے بھیجنے پر قائل کیا ہے۔ یہ پروگرام پاکستان میں سیاسی موضوعات پر
اظہارِ خیال اور ذہنی دباؤ سے چھٹکارے کی وجہ بن رہا ہے۔ اپنے کزن عمیر کے
ساتھ اس پروگرام میں شریک زوبیہ کہتی ہیں: ”آپ دیکھیں گے، ایک دِن آئے گا،
جب پورا پاکستان بدلے گا، ہم اپنے معاشرے کو بدلیں گے، ہم انقلاب لائیں گے
اور ہم انتہاپسندی سے چھٹکارا پائیں گے۔
پاکستانی گلو گار راحت فتح علی خان موسیقی کے حوالے سے بھات پاکستان بلکہ
ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ راحت اور شریا گوشال کے نئے گانے " تیری میری ،
میری تیری پریم کہانی۔۔۔"نے بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی دھوم مچائی
ہوئی ہے۔سلمان خان کی سپر ہٹ فلم "باڈی گارڈ " نے جہاں ڈیڑھ ارب روپے کا
ریکارڈ بزنس کرکے تاریخ میں اپنا نام امرکر لیا ہے وہیں فلم کی کامیابی میں
اس گانے کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔کچھ لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔۔راحت فتح علی خان بھی انہی خوش قسمت لوگوں میں
سے ایک ہیں۔ راحت نے 2003ءمیں بھارتی فلموں سے گیتوں کا سفر طے کرنا شروع
کیا تو ایک کے بعد ایک ہٹ گانا گاتے چلے گئے اور آج یہ عالم ہے کہ ایک عام
سا گانا بھی راحت کے سروں اور لے میں ڈھل کر خاص ہوجاتا ہے۔
راحت فتح علی خان کی کامیابی کی فہرست بہت لمبی ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے
فلم" دبنگ " کے لئے ایک گیت گایا تھا جس کے بو ل تھے " تیرے مست مست دو
نین"۔ یہ گیت اس قدر مشہور ہوا کہ اس پر انہیں چار ایوارڈ ملے جن میں آئیفا
ایوارڈ سرفہرست ہے۔اسی سال ان کا ایک اور گانا موسیقی کی دنیا میں ہلچل
مچاگیا اور وہ تھا فلم ویر کا گانا" سریلی انکھیوں والے"ان دونوں گانوں نے
راحت فتح علی کی شہرت کو گھر گھر پہنچادیا۔ آج بھی یہی گانے ان کی پہلی
پہچان بنے ہوئے ہیں۔دوہزار دس میں ہی شاہ رخ خان کی فلم " مائی نیم از خان"
کے لئے راحت نے جو گانا گایا اس کا ٹائیٹل تھا " سجدہ"۔یہ بات بتانا اضافی
ہوگی کہ سجدہ نے بھی راحت کو اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں وہ مقام بخشا جس
کی حسرت تو بے شمار لوگ کرتے ہیں مگر پاتا کوئی کوئی ہی ہے۔سن 2010ءمیں ہی
فلم" عشقیہ "کا گانا "دل تو بچہ ہے جی "گاکر راحت نے ایک اور دھماکا کیا۔
یہ گیت سال کا سب سے زیادہ سنا جانے والا اور کامیاب ترین گیت ٹھہرایا گیا۔
اس گانے پر بھی انہیں بیسٹ پے بیک سنگر کا ایوارڈ ملا۔"میں تینو سمجھاواں
کی۔۔"بھی سن دوہزار دس کا کامیاب گانا تھا۔یہی نہیں بلکہ اسی سال انہوں نے
جن فلموں میں کامیاب گیت گائے ان میں"تو بات پکی، لاہور، بدمعاش کمپنی،
ورثہ، آئی ہیٹ لو اسٹوری، ملیں گے ملیں گے، ونس سپون آ ٹائم، تم جو آئے،
انجانہ انجانی، آکروش، ناک آؤٹ "اور"وی آر فیملی" شامل ہیں۔علاوہ ازیں سن
دوہزار دس اور گیارہ سے پہلے راحت کے جو گانے نہایت مشہور ہوئے ان میں "
لگن لاگی، جیادھڑک دھڑک ، جگ سونا سونا لاگے، او رے پیا، تیری اور، آس پاس
خدا " شامل ہیں۔ مجموعی طور پر راحت فتح علی کے کامیاب اور مشہور گانوں کی
فہرست بہت لمبی ہے۔ ان کامیابیوں کے علاوہ راحت فتح علی خان بیرون ممالک
ایک پروگرام کا معاوضہ ایک لاکھ امریکی ڈالر لینے والے پہلے پاکستانی
گلوکار بھی بن گئے ہیں۔ مقامی اخبارکی ایک رپورٹ کے مطابق بالی ووڈ میں
ریلیز ہونے والی فلموں میں راحت فتح علی خان کے گیتوں کی زبردست کامیابی کے
بعد انہوں نے اپنا معاوضہ بڑھادیا ہے جس کے بعد وہ پہلے پاکستانی گلوکار بن
چکے ہیں جنہیں امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ سمیت دیگر ممالک میں
پرفارم کرنے کے فی شو ایک لاکھ امریکی ڈالر ادا کئے جارہے ہیں جبکہ وہ
پاکستان میں ایک شو میں پرفارم کرنے کا معاوضہ بیس سے پچیس لاکھ روپے وصول
کرتے رہے ہیں۔
موسیقی سے محبت رکھنے والے کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت میں باصلاحیت
گلوکاروں کی کمی نہیں ہے لیکن چمک دھمک کے اس دور میں اصل گلوکار کا آگے
آنا مشکل ہے،اگر چینل والے فطری صلاحیتوں کی واقعی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے
ہیں، تو انہیں شرکاء کو شو ختم ہونے کے بعد بھی تربیت دینا چاہیے۔ موسیقی
ایک وسیع موضوع ہے۔ اس کی اپنی ریاضی اور گرائمر ہے۔ جب تک کسی کو یہ سب
پتہ نہیں ہوتا، وہ ایک اچھا گلوکار نہیں بن سکتا۔ اس باب میں 15ِ بیس سال
تک موسیقی سیکھنے کے بعد ہی کسی کو غزل گائیکی کا فن حاصل ہو سکتا
ہے۔“جگجیت سنگھ اور پاکستانی غزل گلوکار غلام علی گہرے دوست ہیں۔ دونوں
اکثر مل کر پروگرام کرتے ہیں۔ غلام علی کو بھارت میں مقبولیت حاصل ہے۔
دونوں پرانے دن یاد کرتے ہیں ۔پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور میں دہشت
گردی سے اگتا کر ایک تین روزہ بین الاقوامی ادبی اور ثقافتی کانفرنس بھی
منعقد کی گئی تھی۔ جس میں ادب، موسیقی، ڈرامے اور مصوری سے تعلق رکھنے والے
ماہرین کی بڑی تعداد شریک ہوئی تھی۔ اس کانفرینس کا مقصد بھی پاکستان کے
سافٹ امیج کو بلند کرنا تھا۔ اس کانفرنس کی مختلف نشستوں میں اردو شاعری کے
کلاسیکی دریچے، پاکستانی مصوری میں نئی جہتیں، پاکستان میں کلاسیکی موسیقی
کی تاریخ، اردو ناول کے سو سال، پاکستان میں غزل گائیکی کا مستقبل، ڈرامہ
نگاری کا عروج و زوال، اردو افسانے کے سو برس، پاکستان میں لوک موسیقی کی
روایت اور آرٹ کی ترقی میں ریاست کا کردار جیسے اہم اور متنوع موضوعات پر
مقالات پیش ہوئے۔ فنون لطیفہ کے میدان میں غیر معمولی خدمات انجام دینے
والے ماہرین کو ‘الحمرا حاصل عمر ایوارڈ‘ بھی دیے گئے۔ موسیقی کے شعبے میں
یہ ایوارڈ استاد غلام حسن شگن، مصوری میں پرفیسر خالد اقبال، ادب میں معروف
ناول اداس نسلیں کے مصنف عبداللہ حسین اور ڈرامے کے میدان میں اداکار قوی
خان کو دیا گیا تھا۔ پاکستان میں فن کی قدر افزائی بہت نمایاں نہیں ہے،اسی
لئے فنکار حکومت سے التجا کرتے ہیں کہ وہ جس کسی فنکار کو بھی ایوارڈ دینا
چاہتی ہے، اسے اس فنکار کی زندگی میں ہی دے دیا جائے۔ ان کے بقول بعد از
مرگ ستائش کا کسی فنکار کو کیا فائدہ؟ معروف صحافی محمود شام اس بارے میں
اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ ادب موسیقی انسانی زندگی کو خوبصورت بناتا ہے
اور شاعری انسانی دماغ کو تر و تازہ کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ معروف ملٹی
نیشنل کمپنی مارکس اینڈ سپنسر نے ایک شاعر کی ریزیڈنٹ پوئیٹ کے طور پر
تقرری کی ہے۔ یہ شاعر ہر ہفتے کمپنی کے ملازمین کو اپنا کلام سنا کر ان کی
ذہنی اور فکری تازگی کا سبب بنتا ہے، جس سے ملازمین کی ذہنی صلاحیتیں جلا
پاتی ہیں اور ان کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔دیکھنا ہی ہے کہ موسیقی اور صوفی
ازم کی اس دوڑ میں پاکستان کے اس کردار کو مغرب میں سراہا جاتا ہے یا نہیں۔
اور آئیندہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ |