انڈیا مالدیپ سے OUT کا نعرہ دینے والے مالدیپ صدر انڈیا میں IN


انڈیا آوٹ‘ کا نعرہ دینے والے مالدیپ کے صدر محمد معیزو پانچ دن کے سرکاری دورہ انڈیا پر پہنچ رہے ہیں۔ اس دوران وہ معاشی بحران کا شکار جزیرہ نما ملک مالدیپ کے قرضوں کی ادائیگی کے لیے ممکنہ طور پر انڈیا سے بیل آوٹ حاصل کرنے کی ممکنہ کوشش کریں گے۔

اہنے صدارتی محل میں اقتدار لینے سے پہلے دلی کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے وعدے اور ’انڈیا آؤٹ‘ کی پالیسی پر گذشتہ سال صدر بننے والے معیزو اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار انڈیا میں IN ہورہے یعنی سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔

جب سے مالدیپ صدر کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد مہری اور کشیدہ ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دورے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالدیپ اپنے بڑے پڑوسی کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

مالدیپ کے زرمبادلہ کے ذخائر ستمبر میں تقریباً 440 ملین امریکی ڈالر تھے جو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہوتے۔
انٹرنیشنل ایجنسی موڈی نے پچھلے مہینے بھی کہا تھا کہ ’پہلے سے ہی اس ملک کو خطرات لاحق تھے لیکن اب وہ مزید بڑھ رہے ہیں. اگر اس پر ابھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا تو مستقبل میں مالدیپ کو کافی مُشکلات آجائینگی.

اگر انڈیا مالدیپ کو بیل آؤٹ دیتا ہے تو مالدیپ کے غیر ملکی ذخائر کو کافی تقویت مل سکتی ہے۔

جبکہ مالدیپ صدر نےانڈیا کا دورہ کرنے سے پہلے ترکی اور چین جانے کا انتخاب کیا۔ جنوری کے آخر میں ان کے چین کے دورے کو دہلی کے لیے ایک اعلیٰ سطحی سفارتی تحقیر کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ مالدیپ کے سابق رہنماؤں نے منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے دہلی کا ہی رخ کیا تھا۔

جب کہ تجزیہ کار یہی کہتے ہیں ’صدر معیزو کا دورہ کئی معنوں میں بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔ ان میں سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ دورہ اس بات کا احساس ہے کہ مالدیپ کا انڈیا پر کتنا انحصار ہے۔‘

مالدیپ تقریباً 1,200 جزائر پر مشتمل ہے اور بحر ہند کے وسط میں واقع ہے۔ مالدیپ کی آبادی انڈیا کی 1.4 ارب آبادی کے مقابلے میں صرف 520,000 ہے۔ ایک چھوٹے اور جزیرے والے ملک کے طور پر مالدیپ اپنی خوراک، بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور صحت کی دیکھ بھال کے لیے اپنے بڑے پڑوسی انڈیا پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

انڈیا اور مالدیپ نے سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس دورے کے دوران مالدیپ کے لیے مالیاتی پیکج ایجنڈے میں شامل ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اعلی سطحی گفتگو کا حصہ ہوگا۔

جبکہ مالدیپ کے صدر ’معیزو کے دورے کی اہم ترجیحات میں گرانٹ ان ایڈ اور قرضوں کی ادائیگیوں کی تنظیم نو کی صورت میں مالی مدد کو محفوظ بنانا ہے۔ اگرچہ ’معیزو مالدیپ کے مرکزی بینک کی طرف سے 400 ملین ڈالر کی کرنسی کے تبادلے کا معاہدہ بھی چاہتے ہیں۔‘

مالدیپ کی مالیاتی صورتحال پر مزید تشویش بڑھتی جارہی ہے کہ’(غیر ملکی) ذخائر 2025 میں تقریباً 600 ملین ڈالر اور 2026 میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائيگیوں کے حساب سے نمایاں طور پر کم ہیں۔‘
جبکہ مالدیپ کا عوامی قرض تقریباً 8 ارب ڈالر ہے، جس میں تقریباً 1.4 ارب ڈالر چین اور انڈیا کے واجب الادا ہیں۔

مالدیپ کے صدر ’معیزو کے متعدد مواقع پر یہ کہنے کے باوجود کہ چین نے قرضوں کی ادائیگی کو پانچ سال کے لیے موخر کرنے کے لیے گرین سگنل دیا لیکن بیجنگ کی جانب سے مالی امداد آنے والی نہیں۔‘

جبکہ مالدیپ صدر نے کسی دوسرے ملک کو مدد کے لیے نہ آتا دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اب مالدیپ صدر معیزو اب کشیدہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے انڈیا کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔

’معیزو کی حکومت کے سینیئر عہدیداروں کی جانب سے لہجے اور منفی بیان بازی کو دوبارہ ترتیب دینے کے بارے میں ہے جس نے انڈین سیاحوں کی آمد کو کافی حد تک متاثر کیا۔‘

گزشتہ ادوار میں انڈیا کا مالدیپ پر ایک طویل عرصے سے خاصا اثر و رسوخ رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سٹریٹیجک مقامات ہیں جن سے بحرِ ہند تک رسائی ممکن ہے لیکن معیزو نے چین کے قریب جا کر اسے تبدیل کرنا چاہا تھا۔

جنوری میں معیزو انتظامیہ نے انڈیا کو مالدیپ میں مقیم تقریباً 80 فوجیوں کو واپس بلانے کا الٹی میٹم دیا۔ دہلی نے کہا کہ وہ وہاں دو ریسکیو اور جاسوسی ہیلی کاپٹر اور ایک ڈورنیئر طیارے کی دیکھ بھال کے لیے تعینات ہیں جو برسوں پہلے انڈیا نے انھیں دیے تھے۔

آخر میں دونوں ممالک نے طیاروں کو چلانے کے لیے فوجیوں کی جگہ انڈیا کے سویلین تکنیکی عملے کو وہاں رکھے جانے پر اتفاق کیا۔

چارج سنبھالنے کے ایک ماہ بعد معیزو کی انتظامیہ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ انڈیا کے ساتھ ہائیڈرو گرافک سروے کے معاہدے کی تجدید نہیں کرے گی جس پر پچھلی حکومت نے مالدیپ کے علاقائی پانیوں میں سمندری تہہ کا نقشہ بنانے کے لیے دستخط کیے تھے۔

پھر ایک تنازع اس وقت شروع ہو گیا جب معیزو کے تین نائب وزرا نے مودی کے بارے میں متنازعہ تبصرے کیے اور انھیں ’مسخرہ، دہشت گرد اور اسرائیل کی کٹھ پتلی‘ قرار دیا۔ ان ریمارکس نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا اور انڈین سوشل میڈیا پر مالدیپ کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔
مالدیپ نے کہا کہ یہ تبصرے ذاتی تھے اور حکومت کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتے اور اس کے بعد تینوں وزرا کو کابینہ سے معطل بھی کر دیا گیا۔

جبکہ انڈین سوشل میڈیا پر سامنے آنے والے ردعمل پر معیزو نے اس وقت کہا کہ ’ہم چھوٹے ہوسکتے ہیں لیکن اس سے آپ کو ہم پر دھونس جمانے کا لائسنس نہیں ملتا۔‘

اس کے باوجود رواں سال نریندر مودی کے تیسری بار وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ان کی حلف برداری کی تقریب میں معیزو کی شرکت کے بعد دو طرفہ تعلقات میں پگھلاؤ آیا۔اگست میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر کے دورہ مالدیپ نے بھی دو طرفہ تعلقات کو دوبارہ شروع کیا۔ جے شنکر نے اپنے دورے کے دوران کہا کہ مالدیپ ہماری ’سب سے پہلے پڑوسی‘ کی پالیسی کے سنگ بنیادوں میں سے ایک ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں اپنے وزیر اعظم نریندر مودی کے الفاظ میں مختصراً یہ کہوں گا کہ انڈیا کے لیے پڑوس میں موجود مالدیپ ایک ترجیح ہے۔‘ انڈیا کے لیے، خطے میں یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے کیونکہ حال ہی میں بنگلہ دیش میں سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی انڈیا نواز حکومت کا خاتمہ ہوا جبکہ انڈیا کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے کے پی شرما اولی ایک بار پھر ملک کے وزیر اعظم بنے۔

معیزو کو احساس ہوا ہے کہ کہ انڈیا کی مخالفت کوئی آپشن نہیں۔ پچھلے سال مالدیپ جانے والے انڈین سیاحوں کی تعداد میں 50,000 کی کمی ہوئی، جس کے نتیجے میں ملک کو تقریباً 150 ملین ڈالر کا نقصان ہوا۔
معیزو کو معلوم ہے کہ اگر مالدیپ کو انڈیا سے مالی مدد نہ ملی تو مالدیپ ’گمشدہ جنت‘ بن سکتا ہے اور اسی لیے ان کا انڈیا کا حالیہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

 
شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.