چین کے صدر شی جن پھنگ نے ملک میں سائنس ٹیک دوست رویوں
اور اختراعات کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ملک
کو سائنس و ٹیکنالوجی میں خودانحصاری کی جانب لے جایا جائے۔اس سلسلے کی
تازہ کڑی ستمبر میں بے دو۔3 نیوی گیشن سیٹلائٹ سسٹم (بی ڈی ایس-3) کے آخری
دو سیٹلائٹس کی لانچ سے چین کے آزادانہ طور پر تیار کردہ سسٹم کی تکمیل کی
علامت ہے، جس کے لیے صدر شی جن پھنگ نے مسلسل حمایت کی ہے۔شی جن پھنگ نے
ہمیشہ بی ڈی ایس-3 پروگرام کی ترقی کو نمایاں اہمیت دی ہے۔انہوں نے سیٹلائٹ
لانچ سائٹ کا دورہ کیا، بی ڈی ایس -3 پروگرام میں سائنسدانوں اور تکنیکی
ماہرین کی دیکھ بھال اور حوصلہ افزائی کی، پروگرام کے آغاز کا باضابطہ
اعلان کیا اور اپنے نئے سال کے پیغامات میں اسے چین کی کامیابیوں کی ایک
نمایاں خصوصیت کے طور پر بیان کیا ہے۔
شی جن پھنگ نے چین کی اقتصادی اور سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ مشترکہ مستقبل
کی حامل انسانی برادری کی تعمیر میں نیا اور زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنے کے
لئے بے دو نظام کے وسیع پیمانے پر اطلاق پر زور دیا ہے۔اس ضمن میں اہم
اداروں کی ملک گیر کوششوں اور وسائل کو مرکوز کرنے کے نئے نظام کے تحت ،
سائنس ٹیک کارکنوں نے متعدد تکنیکی رکاوٹوں کو عبور کیا ہے اورکامیابی کے
ساتھ بے دو کو صنعتی ایپلی کیشنز اور روزمرہ کی زندگی ، دونوں میں ضم کیا
ہے۔آج ،بے دو بڑے پیمانے پر صارفین کی مصنوعات جیسے اسمارٹ فونز اور وئیر
ایبل آلات کے لئے ایک معیاری انتخاب بن گیا ہے۔ 2024 کی پہلی ششماہی میں ،
چین کے 139 ملین یونٹس میں سے 98 فیصد سے زائد نے بے دو پوزیشننگ سسٹم کی
حمایت کی ہے۔
بے دو کی ترقی سائنس اور ٹیکنالوجی میں اختراع کی بنیاد پر جدید کاری کی
مہم کی عکاسی کرتی ہے ، اور یہ ظاہر کرتی ہے کہ چینی رہنما معیشت کو مضبوط
بنانے اور اعلیٰ معیار کی ترقی کو آسان بنانے کے لئے سائنس ٹیک جدت طرازی
اور اس کے ثمرات کو کس طرح اہمیت دیتے ہیں۔ملک کے سائنس ٹیک کارکنوں کے
ساتھ تبادلہ خیال میں شی جن پھنگ نے کہا کہ چینی جدیدکاری کو سائنس ٹیک
جدیدکاری کے ذریعہ مدد ملنی چاہئے ، اور اعلیٰ معیار کی ترقی کا حصول سائنس
ٹیک جدت طرازی کے ذریعہ پروان چڑھنے والی نئی محرک قوتوں پر منحصر ہے۔
ان کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے ہیں کہ ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی
آرگنائزیشن (ڈبلیو آئی پی او) کے مطابق چین دنیا کی جدید ترین معیشتوں کی
درجہ بندی میں 11 ویں نمبر پر پہنچ گیا ہے، جو گزشتہ دہائی کے دوران
انتہائی تیزرفتار ترقی کی علامت ہے۔ڈبلیو آئی پی او کے گلوبل انوویشن
انڈیکس 2024 نے تصدیق کی کہ چین دنیا کے سرفہرست 100 سائنس ٹیک انوویشن
کلسٹرز میں سے 26 کا گھر بھی ہے ، جو مسلسل دو سالوں تک عالمی رہنما کے طور
پر اپنی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہے۔
شی جن پھنگ نے تکنیکی جدت طرازی میں کاروباری اداروں کی بنیادی حیثیت کو
بڑھا کر تکنیکی اور صنعتی جدت طرازی کے گہرے انضمام پر بھی زور دیا ہے۔اس
ضمن میں نئی توانائی گاڑیوں کی ترقی ایک عمدہ مثال ہے. 2014 میں ، ایک اہم
چینی کار ساز کمپنی ایس اے آئی سی موٹر کے معائنہ دورے کے دوران ، شی جن
پھنگ نے مختلف ضروریات کو پورا کرنے والی مصنوعات کی تحقیق اور ترقی پر زور
دیا اور چین کی آٹوموٹو صنعت کو بڑھانے میں نئی توانائی گاڑیوں کی اہمیت پر
روشنی ڈالی۔اگلی دہائی میں ، شی جن پھنگ برقی کاروں کے بہت بڑے مداح بن گئے
۔انہوں نے آٹوموٹو کمپنیوں کا دورہ کیا ، لیبارٹریوں کا دورہ کیا ، اور نئے
گھریلو تیار کردہ ماڈلز کو آزمانے میں بہت دلچسپی ظاہر کی۔ انہوں نے کار
سازوں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ مصنوعات کے معیار پر توجہ دیں اور مارکیٹ
میں مسابقت پیدا کریں۔آج ، نئی توانائی گاڑیاں چین کی ٹیکنالوجی پر مبنی
صنعت کی ایک نمایاں خصوصیت بن گئی ہیں۔نئی توانائی گاڑیاں جنوب مشرقی
ایشیائی، جنوبی امریکہ اور یورپی مارکیٹوں میں بھی مقبولیت حاصل کر رہی
ہیں. 2024 کے پہلے آٹھ ماہ میں ، چین نے 8 لاکھ 18 ہزار نئی توانائی گاڑیاں
برآمد کیں ، جو سال بہ سال 12.6 فیصد کا اضافہ ہے۔
نئی توانائی کی صنعتوں کے ذریعے اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ،
شی جن پھںگ گرین ڈویلپمنٹ پر مبنی صنعتوں کے کردار پر بھی بہت زور دیتے ہیں
اور سبز ٹیکنالوجیوں کے اشتراک کو فروغ دینے کی حمایت کرتے ہیں ، کیونکہ
انسانیت اور فطرت کے مابین ہم آہنگ بقائے باہمی چین کی جدیدکاری کی کلیدی
خصوصیات میں سے ایک ہے۔انہوں نے بارہا صنعتی ڈھانچے اور توانائی مکس کو
دوبارہ ایڈجسٹ کرنے ، قابل تجدید توانائی کو بھرپور طریقے سے ترقی دینے ،
اور ہوا سے بجلی اور فوٹووولٹک اڈوں کی منصوبہ بندی اور ترقی میں تیز تر
پیش رفت کے لئے چین کے عزم کا بارہا اظہار کیا ہے۔گزشتہ دہائی کے دوران،
چین کی قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت کی سالانہ تنصیب عالمی
مجموعی صلاحیت کا 40 فیصد سے زیادہ رہی ہے.
قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجیز کی ترقی میں چین کی تیز رفتار پیش رفت
اور وسیع پیمانے پر ایپلی کیشنز نے ہوا سے بجلی کی لاگت میں 60 فیصد سے
زیادہ کمی اور عالمی سطح پر فوٹو وولٹک بجلی کی لاگت میں 80 فیصد سے زیادہ
کمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس پیش رفت نے کاربن کے اخراج کو کم کرنے
اور سبز معیشت کی طرف منتقلی کی عالمی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔آج
، چین کی قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی مسلسل نت نئی اختراعات کی بدولت
بدستور کامیابیاں سمیٹ رہی ہے ، جس سے نہ صرف چین بلکہ عالمی سطح پر بھی
ماحول دوست ترقی اور موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی سنگین چیلنج سے نمٹنے میں
مدد مل رہی ہے۔
|