زلزلے کے چھ سال اور سیلاب کی تباہ کاریاں

انسانی معاشرہ ایک دوسرے سے مِل کر بنتا ہے اور کوئی فرد اکیلے مکمل نہیں ہوتا اُسے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر دوسرے انسانوں کی مدد لینا پڑتی ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ یہیں سے جنم لیتا ہے۔ خوشی کے دنوں میں تو خیر لوگ ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہی ہیں، اصل امتحان مشکلات و مصائب میں ہوتا ہے کہ کون کِس کے کتنے دُکھ بانٹا ہے۔

08اکتوبر 2005ءکا زلزلہ اور 2011-2010 کے سیلاب بھی یہی پیغام لیے ہوئے ہیں ان سانحات کے رونما ہوتے ہی لوگ مصیبت زدہ افراد کی امداد کو نکل پڑے۔ جو کام اکیلی حکومت کے بَس میں نہ تھا وہ افراد ، نجی اداروں اور تنظیموں نے کردکھایا اور بڑی حد تک متاثرین کے دُکھ درد بانٹ لیے تاہم زلزلے کے چھ سال اور 2011-2010 کے سیلاب کے باعث ابھی تک لوگوں کے زخم تازہ ہیں جو دنےا سے چلے گئے انکی یادیں باقی ہیں اور جو زخمی ہوئے وہ ابھی تک حالات کے رحم وکرم پر ہیں۔

زلزلے کے بعد آزاد کشمیر اور موجودہ خیبر پختونخواہ کے زلزلہ زد ہ علاقوں کا سروے کرنے کے بعد یہ بات اچھی طرح کُھل کر سامنے آئی تھی کہ زلزلے نے انسانی خدمت کے جذبات کو فزوں تر کر دکھایا اور اِس سے عالمی قریے کا حقیقی تصور اُبھر کر سامنے آگیا جہاں ہر فرد دوسرے کے دُکھ کا شریک بنتا ہے۔ ہم عموماً دوسرے مُلکوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ وہ اپنے خصوصی اہداف کی تکمیل کے درپے رہتے ہیں، لیکن یہاں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ زلزلے کے فوراً بعد کئی مقامات پر بیرونی دُنیا سے ٹیمیں پہنچیں تو انہوں نے زخمیوں کو منوں نہیں بلکہ ٹنوں وزنی ملبے کے نیچے سے نکالا۔ یہ غیر ملکی ٹیمیں ہی تھیں، جنہوں نے ہزاروں لاشیں نکالیں اور اُن کی تجہیز و تکفین کا اہتمام کیا۔اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے ۔

اندرونِ ملک تنظیموں اور افراد نے بھی مقدور بھر یہی کام کیا اور یوں حکومت کا کام کسی حد تک آسان ہو گیا۔ افراد کے ضمن میں تو یہ کالم کسی بھی فرد کے ذکر کا متحمل نہیں ہو سکتا، اِس لیے کہ زلزلے اور سیلاب کے بعد پاکستان کی پوری آبادی ہی کسی نہ کسی انداز میں متحرک ہو گئی اور صورتحال یہ بنی کہ لوگوں نے اپنا سب کچھ پیش کر دیاتھا۔ کئی مقامات پر دیکھا گیا کہ عورتوں نے اپنے سارے زیور، ملبوسات اور بچوں نے اپنے جیب خرچ تک نچھاور کر دیئے۔ کئی مقامات پر ساڑھیا ں اور نکٹائیاں جمع ہوجانے کا سبب یہی تھا کہ لوگوں کے سامنے جو بھی آرہا تھا وہ متاثرین کے لیے پیش کر رہے تھے۔ کئی جگہوں پر ایسا ہوا کہ گھروں میں کام کرنے والی عورتوں نے اپنی معمولی سی تنخواہ بھی نذر کر دی اور خود فاقوںپر اکتفا کر لیا۔ اس طرح کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں موجود ہیں اور ان کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔ اِسی صورتحال کو دیکھ کر امریکہ کے ایک تھنک ٹینک کو برملا یہ تسلیم کرنا پڑاتھا کہ امریکی سب سے زیادہ خیرات دینے کا دعویٰ کرتے تھے ، لیکن پاکستانیوں نے جو کردکھایا ، وہ امریکیوں سے آگے بڑھ گئے ۔ امریکی تھنک ٹینک کے مطابق جذبے میں پاکستانی پہلے نمبر پر لیکن آبادی اور فی کس آمدنی کے اعتبار سے پوری دُنیا میں خیر و فلاح کا کام کرنے والے چھٹے ملک کے شہری ٹھہرے ہیں۔ (بحوالہ ڈان ریویو ۔ یکم تا 7دسمبر 2005ئ)

پاکستانیوں اور کشمیریوں کی ایک بڑی آبادی بیرون ملک مقیم ہے، انہوں نے بھی مصیبت کی گھڑی میں آگے بڑھ کر کام کیا۔ بات ناقابل یقین ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انفرادی حیثیت میں کئی لوگوں نے کروڑوں روپے زلزلہ زدگان میں تقسیم کیے۔ آغاز ایدھی فاﺅنڈیشن سے ، جس کے بانی عبدالستار ایدھی کو خدمت خلق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بلا مبالغہ ایدھی فاﺅنڈیشن کا کام سب کے لیے مثالی رہا۔ تمام علاقوں میں ایدھی کے رضا کاروں نے فوج کی بھی مدد کی۔ کیوبا کے ڈاکٹر اور سٹاف، ترکی ، ایرانی ،سعودی، امریکی ،کویتی، اماراتی، قطری،بحرینی ، لیبیائی اور دیگر مسلم ممالک کی جمعیت ہائے ہلال احمر،انٹر نیشنل ریڈ کراس، ملائیشیاکی مرسی انٹرنیشنل ، اے آرسی، صحت کی عالمی تنظیم، اقوام متحدہ، یونیسف، خوراک کے عالمی ادارہ، آغا خان فاﺅنڈیشن ، سنگی ، کشمیر ایجوکیشن فاﺅنڈیشن، اقبال احمد فاﺅنڈیشن ، عورت فاﺅنڈیشن، شرکت گاہ، عمرفاﺅنڈیشن،فوکس انٹر نیشنل،انٹر لوپ ، کیئر انٹر نیشنل، کینیڈین انٹر نیشنل ڈیولپمنٹ ایجنسی، سٹیزن فاﺅنڈیشن، اناطولین ترقیاتی فاﺅنڈیشن تُرکی،ہیکس سوئٹزرلینڈ، گول،سیودی چلڈرن ، طبیبان بے سرحد، آکسفیم ، آڈرا، آئی او ایم، غربت کے خلاف عالمی لیگ، پیس ونڈ جاپان، نیٹو، SOS، ایکشن ایڈ، کے این ایچ، ٹی ڈی ایچ تھائی لینڈ، اور اِس طرح کی بے شمار تنظیموں نے قابل قدر کارنامے انجام دیئے۔

دیگر رفاہی، سیاسی و مذہبی تنظیموں ،اداروں اور شخصیات میں آیت اللہ علی سیستانی، نجف اشرف عراق ، محمد یاسین ملک مقبو ضہ کشمیر، جماعتِ اسلامی پاکستان، پاکستان مسلم لیگ ، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی، الرشید ٹرسٹ،اسلامک ریلیف، جماعة الدعوة ، المصطفیٰ ویلفر ٹرسٹ، ، الرحمت ٹرسٹ، الاختر ٹرسٹ، حسینی ریلیف، منہاج القرآن، جمعیت اہل حدیث، تمام جامعات، جابر بن حیان ٹرسٹ، اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ ، سرحد رورل سپورٹ پروگرام، دی میسج، جامعہ اہلِ بیت، معصوم ویلفیئر ٹرسٹ، مُسلم ہینڈز ،ڈسٹرکٹ کونسل سکردوو خپلو، ادارہ خدمت انسانی ، آئی کے آئی، مسلم گلوبل ریلیف، انجمن ِ فاضلیہ، الصفہ فاﺅنڈیشن، ینگ بلڈڈسکہ، اسلامک ڈیموکریٹک پارٹی، خاکسار تحریک ، اسلامک ہیلپ، ہیلپنگ ہینڈز، ہیلپر فاﺅنڈیشن(وسطی باغ) الفلاح ٹرسٹ ِامیر بیگم ٹرسٹ،عظیم ماں فاﺅنڈیشن راولپنڈی گلزار صفیہ بیگم میموریل ٹرسٹ، آزاد کشمیر، مقصود ویلفییرفاونڈیشن، عنم فاﺅنڈیشن ، مغل فاﺅنڈیشن لاہور، سہارا ویلفیئرٹرسٹ، تمام اخبارات اخبارات، پریس کلب، خبیب فاﺅنڈیشن، تبلیغی جماعت ، دعوتِ اسلامی، انجمن طلباءاسلام، اسلامی جمعیت طلبہ ،تحریک اسلامی اور دیگر سیاسی ، مذہبی، رفاہی تنظیموں نے قابلِ قدر کام کیا ۔ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں کی خدمات بھی ناقابل فراموش رہیں۔ زلزلہ زدہ علاقوں کے تعلیمی ادارے بُری طرح متاثر ہوئے تھے اس سلسلے میں محی الدین اسلامی یونیورسٹی، نیریاں شریف، آزادکشمیر نے 5000 طلبہ و طالبات کے لیے دس سالہ کفالت پروگرام شروع کیا جبکہ بین الااقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور دیگر تمام جامعات اور تعلیمی اداروں نے بھی خوب کام کیا ۔ سب کے جذبے کو سلام پیش کرنے کے بعد چند اہم اُمور کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے۔

چھ سال کے عرصے میں زلزلہ زدگان کی فوری امداد اور بحالی کا ایک مرحلہ طے کر لیاگیا ۔ اب اُنہیں مستقلاً بحال کرنے کا مرحلہ جاری ہے۔ اس میں بھی اُسی جذبے کو برقرار رکھنا ہو گا۔ اس سلسلے میں فوری کاروائی سے ہٹ کر طویل المدت کام کی ضرورت ہے۔ اِس کے لیے فنڈز ، وقت اور کارکنوں کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ مصیبت زدگان کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے لازم ہے کہ اُنکی قدم قدم پر رہنمائی کی جائے۔ اِس سلسلے میں سرکاری اقدامات و بحالی کی کارروائیاں اپنی جگہ نہایت وقیع ہیں، لیکن تباہی کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومت کے ساتھ دیگر تنظیموں اور افراد کا میدان میں موجود رہنا اور مسابقت کے جذبے سے کام کرنا ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں عبدالستار ایدھی کا طرز عمل اورکیوبا کے ڈاکٹروں کا رویہ اپنا نا ہوگا کہ جن کے ہاں آرام نام کی کوئی شے نہیں تھی اِس سلسلے میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کسی سے امتیاز برتا جائے نہ کسی کی خودی مجروح ہونے پائے ۔ ٓازاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں کو بھی اب مزید ذمہ داریاں اٹھانی چاہیئں۔صرف امداد کے سہارے لوگوں کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔یہی معاملہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کا بھی ہے۔

کئی حوالوں سے زلزلہ کے بعد فوج کے طرز عمل پر تنقید ہو ئی تھی تاہم یہ کوئی قابلِ قدر رویہ نہیں ۔ فوج نےERRAکے ذریعے نظم و ضبط بحال کرنے اور لوگوں کی خدمت کے ضمن میں بے پناہ کام کیا ۔ یوں اپنے فوجی بھائیوں کو مفت میں بدنام کرنے کا آخر کیا فائدہ؟ مختلف علاقوں تک رسائی کو ممکن بنانا فوج کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اِسی طرح ابتدائی مالی امداد کی تقسیم خامیوں کے باوجود فوج کے ذریعے ہی ممکن ہو سکی زلزلہ کے بعد چھ سال سے زائد کا عرصہ گزنے پر یہ مضمون زلزلہ زدگان کی امداد کے ضمن میں کام کرنے والی ملکی و غیر ملکی ، سیاسی ، مذہبی، رفاہی تنظیموں شخصیات اور اداروں کے کام کا یک گونہ اعتراف ہے۔ ان تنظیموں و افراد نے درحقیقت زلزلہ زدگان کیلئے اتنا بڑا کام کیا کہ اسے خراج تحسین پیش کرنے کیلئے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

سیلاب 2011ئ:
زلزلے کے بعد 2011ءمیں قوم کو ایک نئی آفت نے آلیا اور یہ سیلاب کی آفت تھی جس کے باعث ملک کا تیس فیصد سے زائد علاقہ بری طرح متاثر ہوا ۔ 2010ءمیں سیلاب کا آغاز گلگت ، بلتستان ، آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخواہ سے ہوا ۔ جہاں جولائی اور اگست 2010 کی بارشوں نے 2005 کے زلزلے کی تباہ کاریوں کی یاد تازہ کر دی ۔ بعد میں یہی سلسلہ صوبہ پنجاب ، سندھ اور بلوچستان تک پھیل گیا ۔سندھ میں سیلاب کی تباہ کاریاں تو لمبے عرصے تک جاری رہیں ۔ 2010 کے سیلاب میںسب سے زیادہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں تباہی ہوئی ۔جہاں کا بنیادی ڈھانچہ ہی ہل کر رہ گیا ۔ گلگت ، بلتستان میں جو تباہی ہوئی اس کی تو پوری طرح لوگوں کو معلومات ہی مہیا نہیں ہو سکیں ۔ آزاد کشمیر میں وادی نیلم کے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کے بارے میں بھی تفصیلات عام نہیں ہو سکیں لیکن صوبہ خیبر پختونخواہ ، پنجاب ، سندھ اور بلوچستان سے جو معلومات سامنے آئیں ان سے یہ اندازہ ہواکہ لوگوں کی مشکلات اپنی جگہ مگر ایک بار پھر لوگ بڑی تعداد میں متاثرین کی امداد کے لئے نکلے ۔2010ءکے سیلاب کے اثرات باقی تھے کہ 2011ءمیں بھی سیلاب آگیا ۔ البتہ اس دفعہ حکومتی اداروں پر لوگوں کا اعتماد کم تھا ۔ لوگوں نے اپنے طور پر امداد دینے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ اس بار لوگوں کی خدمت کرنے میں انفرادی اعتبار سے عمران خان ، ابرار الحق ، شہزاد رائے، عطاءاللہ خان عیسیٰ خٰیلوی ، جواد احمد ، تمام تعلیمی ادارے ، تمام سماجی تنظیمیں ، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی ذیلی فلاحی تنظیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بات چلی ہے تو یہ بات خوش آئند ہے کہ پرائمری سکولوں کے طلبہ و طالبات ہوں یا یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات اور ان کے اساتذہ سب کا جذبہ مثالی رہا ہے ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد ، قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد اور نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد ، محی الدین اسلامی یونیورسٹی، آزاد کشمیر اور دیگر جامعات نے ایک بار پھر 2005 کے زلزلے کے بعد ابھرنے والے جذبے کو بر قرار رکھا ہے ۔

مجموعی طور پربین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ڈیڑھ کروڑ روپے تک کی امداد تقسیم کر چکی ہے۔ یہ امداد پنجاب، خیبر پختونخواہ، سندھ ، بلوچستان ، اور آزاد کشمیرکے متاثرین تک پہنچائی جا چکی ہے۔ کہنے کی بات یہ ہے کہ عوام کی سطح پر 2005 کے زلزلے کے بعد ابھرنے والا جذبہ ابھی بر قرار ہے۔ 2005 کے زلزلے کے بعد اگر عمران خان ، ایم ۔ کیو۔ ایم یا الخدمت یا دیگر تنظیموں اور افراد نے مظفر آباد ، بالاکوٹ اور باغ جیسے دور دراز مقامات پر کیمپ لگائے تھے تو اب کی بار بھی مختلف مقامات پر امدادی کیمپ موجود ہیں۔ اس جذبے کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہی عین انسانیت ہے ۔
Syed Muzammil Hussain
About the Author: Syed Muzammil Hussain Read More Articles by Syed Muzammil Hussain: 41 Articles with 62664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.