یادوں کے زخم

تحریر-:گلشاد احمدبٹ(سابق امیدوارقانون سازاسمبلی )

08اکتوبر 2005ءسے لے کر 08اکتوبر2011ءتک وشال زلزلے کو 6سال کالمبا عرصہ بیت گیاہے مگرلگتا یوں ہے کہ ہمارے پیارے عزیز ابھی ابھی ہم سے جدا ہوئے ہیں۔اُن کی یادیں ہمارے دلوں کوزخمی کررہی ہیں جانے والوں نے ہمارے دلوں میں کبھی نہ بھولنے والی یادیں اور بے شمار داستانیں چھوڑ گئے ہیں جوہمیں آنیوالی ہر صبح ان کی یا د دلاتی ہیں اورہم سے پوچھتی ہیں کہ کہاں گئے وہ معصوم نونہال بچے جوامی ابو کو خداحافظ کہہ کرتوسکول گئے مگر واپس نہیں آئے کہاں گئے وہ والدین جنہوں نے دفتر جاتے وقت بچوں سے وعدے کئے تھے کہ دفتر سے جلدی واپس آکر گھمانے لے جائیں گے مگرواپس لوٹ کے نہیں آئے کہاں گئے وہ بھائی جن کو کالج اورکسی کوآفس جاناتھا مگرسونے کے بعد نہیں اٹھے کہاں گئی وہ بہنیں جورمضان کی شاپنگ کے لئے مارکیٹ گئیں اور کچھ کالج گئی مگر وہ بھی لوٹ کے نہیں آئیں ۔

یہ وہ یادیں ہیں جو دلوں کوزخموں پہ زخم دے رہی ہیں اورانسان کو تڑپا تڑپا کر کہتی ہیں کہ ہرصبح ہرشام ہررات ہرمہینہ ہررمضان ہرسال دوبارہ آتے ہیں مگر ہمارے پیارے واپس کیوں نہیں آئے ۔

قائدین کرام !راقم کا 08اکتوبر کے تباہ کن زلزلے میں بے شمار جانی اورمالی نقصان ہوا جس کااندازہ لگانا مشکل ہے تین حقیقی بہنوں اورایک حقیقی جواں سال بھائی کیساتھ ساتھ حقیقی چار بھانجیاں دو بھتیجیاں تین کزن کم وبیش خاندان کے 17افراد اور حقیقی برادری کے 65افرادآٹھ اکتوبر کے تباہ کن زلزلے میں ہم سے جداہوئے ان میں سے چند افراد کے نام یہ ہیں جن میں شہید عبدالرحمن بٹ ٬ شہید فاروق بٹ ٬شہید عاشق بٹ ٬ شہید رمقان بٹ ٬ شہید گلزاربٹ ٬ شہید عبدالمجید بٹ ٬ شہید اشتیاق بٹ ٬ شہید ممتاز بٹ ٬ شہید عباس بٹ اورمیرا دوست راجہ نسیم خان شامل ہیں۔

قارئین کرام !جب قیامت خیززلزلے نے غضب کی گھنٹی بجائی توصرف چند سیکنڈوں میں پورا آزادکشمیر خصوصا"مظفرآباد اوربالاکوٹ میں بڑی بڑی عمارتوں سمیت درخت ٬ پل سکول ٬ کالج ہسپتال اوردکانیں زمین بوس ہوکرخدا کے حضور سجدہ میں گرگئیں اورزمین نے تقریبا"ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں ٬ بزرگوں ٬ بچوں اورخواتین کواپنی آغوش میں لپیٹ کرسلادیا ٬ مظفرآباداور بالاکوٹ کی حسین اوردلفریب مناظر کو پل میں ہی کھنڈرات اورقبرستان کی صورت میں بدل دیا آسمان مٹی گردوغبار اورپتھروں کی بارش برسانے لگا جو لوگ زندہ حیات تھے وہ خدا کے حضور سجدے میں گرکر رونے اورگھڑ گھڑا کرمعافی مانگنے لگے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہونے لگیں مائیں اپنے شیرخوار بچوں کوبھول گئیں ماں باپ ٬ بہن بھائی ٬ بیوی بچے کسی کوایک دوسرے کی فکرہی نہیں تھی ٬ بس نفسانفسی کاعالم تھا سب کو اپنی اپنی جان کی پڑی تھی ۔

بس قیامت صغریٰ کامنظرتھا ہرانسان کی نظر آسمان کی جانب اٹھتی تھیں جیسے خدا کی مدد کا راستہ دیکھتی تھیں لوگوں کی اکثریت زاروقطار رونے میں مصروف تھیں سکولوں اورکالجوں میں بچے عمارتوں کے ملبے تلے دب چکے تھے بھائی بھائی کی قبر کھودنے میں مصروف تھا قبرکھودنے میں اورجنازے اٹھانے میں کوئی کسی کی مدد کونہیں آتا ہرآنکھ اشک بار اورہرچہرہ اداس تھا۔

محترم قارئین کرام!مظفرآباد اوربالاکوٹ کے عوام نے زندہ حیات اپنی کھلی آنکھوں سے قیامت صغریٰ اورموت کے مناظر کے شکار کودیکھا مگرافسوس کے اس کے باوجود لوگوں نے سچے دل سے توبہ نہیں کی اورنہ ہی برے کاموں سے خود کوروکا بلکہ بے حیائی عام ہوگئی جگہ جگہ جسم فروشی اور جوئے شراب کے اڈے قائم ہوئے رشوت خوری وسودی نظام قائم ہوا میں اضافہ ہوا پولیس تھانوں کچہریوں اورعدالتوں میں انصاف ختم ہوا ظلم اورناانصافی عام ہوگئی اور مظلوم عوام کو لوٹنا رواج بن گیا ایسا محسوس ہوتاہے کہ زلزلے میں انصاف ٬حیاء٬ غیرت٬ احترم ٬انسانیت ٬ صبر وتحمل ٬ دردمندی ٬ غریب نوازی ٬ ہمدردی ٬ خواتین میں شروحیا کاخون ہوچکا لوگوں نے آٹھ اکتوبر کے زلزلے میں ان سب چہروں کودفن کردیا ہے اوراس کے بدلے میں ناانصافی ٬ بے حیائی٬ بے غیرتی اورظلم نے جنم لیا اب ہم پوری قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ خدا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اورایمان کی سلامتی کی دعاکریں۔
Sher Khan
About the Author: Sher Khan Read More Articles by Sher Khan: 4 Articles with 5752 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.