بات بارڈر ،قوم کی نہیں ہے ۔۔ بات انصاف کی ہے ۔ ہم
سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں لیکن افسوس ہم آزاد نہیں ہم تو آج بھی غلام ہیں
۔ہم غلام ہیں کرپٹ سوسائٹی کے ۔ ہم کیسے بھول جاتے ہیں کے ہمارا اپنا کوئی
وجود ہے ۔ہم بیکار نہیں ۔ہم نے تو شاید خود کو پہچانا ہی نہیں ہم نے سب کچھ
داؤ پہ لگا دیا اور ظالم سماج کی ہاں میں ہاں ملاتے گئے شاید اسی کے چلتے
ہم تباہی کے دہانے پہ آگئے ہماری عزت محفوظ نہ رہ سکی
جس بیٹی کو رحمت کہا گیا جو سب کی سانجھی ہوتی ہے اسی پر باپ جیسے بھائی
جیسے درندے کی نظر پڑ گئی ۔وہ حق رکھتی ہے مرد کی طرح زندگی جینے کا وہ بھی
تعلیم کی اتنی ہی مستحق ہے جتنا مرد ہمارے نبی نے تو تعلیم مرد و عورت
کیلئے لازم قرار دی تھی ۔ جب وہ اپنا حق لینے نکلتی ہے تو اس کے ساتھ ظلم
کیوں۔۔ جب کوئی ایسا کچھ ہوتا ہے تو لیڈروں کے منہ بند کیوں ہو جاتے ہیں ۔۔
انڈیا ہو یا پاکستان انصاف ہر فرد کا حق ہے جس ملک کو اسلامی جمہوریہ کہا
جاتا ہے اس میں قانون کس کے لیے کام کر رہا ہے پولیس کتنا حق ادا کر رہی ہے
شاید ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں جب اک انسان کا قتل کیا جاتا ہے تو
پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے یہ بات یہاں لاگو کیوں نہیں ہوتی ۔۔ میں خود
اک سٹوڈنٹ ہوں اک لڑکی ہوں جب ایسا کچھ سنوں تو خود بےبسی محسوس ہوتی ہے
پاکستان میں زینب اور فرشتہ جیسی ننھی بچیاں موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں
نہ جانے کتنے ہی کیس تو سامنے نہیں آتے کیسے پولیس والے ہیں جن کا ضمیر
نہیں جاگتا کتنے افسران خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ہمارے پاس سوالوں کے
علاوہ کچھ نہیں ۔۔ pgc لاہور کا واقعہ سن کر ہر ماں کی روح تڑپ گئی نہیں
تڑپے تو وہ پتھر دل پروفیسرز پولیس افسران اور وہ میڈیا کے نمائندے و اعلیٰ
افسران جو اس واقعے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔۔۔۔ نثار میں تیری
گلیوں کے اے وطن کہ جہاں۔
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
میرا مقصد کسی کو تنقید کا نشانہ بنانا نہیں آج ہر وہ لڑکا جو اس لڑکی
کیلئے آواز اٹھا رہا ہے ہیرو ہے ۔۔
کتاب سادہ رہے گی کب تک
کبھی تو آغاز باب ہو گا
جنہوں نے بستی اجاڑ ڈالی
کبھی تو ان کا حساب ہو گا |