دنیا بھر میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی ایک سنگین مسئلہ
بن چکا ہے، جو نہ صرف انفرادی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے
کی بنیادوں کو بھی ہلا دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جو جسمانی اور ذہنی صحت
پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے، اور متاثرہ خواتین کی زندگیوں میں خوف، شرم،
اور عدم تحفظ کی فضا قائم کرتا ہے۔ جنسی زیادتی کے واقعات کا بڑھتا ہوا
گراف، خواتین کے حقوق کی پاسداری اور سماجی انصاف کے لیے سنگین چیلنجز پیش
کرتا ہے۔
حال ہی میں پنجاب کالج کے گلبرگ کیمپس میں مبینہ ریپ کیس کی خبر سوشل میڈیا
پر سامنے آئی، جس نے نہ صرف طلباء بلکہ پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایک
سیکورٹی گارڈ پر الزام ہے کہ اس نے ایک انٹرمیڈیٹ کی طالبہ کو جنسی زیادتی
کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کے بعد طلباء کی ایک بڑی تعداد نے کالج کے باہر
احتجاج کیا۔ احتجاج کرنے والے طلباء نے کالج کے گیٹ کو توڑ دیا اور کالج کا
فرنیچر نذر آتش کردیا۔ اس دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے
لاٹھی چارج کیا، جس کے نتیجے میں میڈیا رپورٹس کے مطابق پچیس سے زائد طلباء
زخمی ہوگئے۔ زخمی طلباء کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کی گئی، اور ان کا
علاج جاری ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل کے باوجود بھی احتجاج
تھمتا ہوا دکھائی نہیں دیا۔ طلباء نے لاہور شہر میں مختلف کالجوں میں بڑے
پیمانے پر احتجاج کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ اس مبینہ واقعے میں
ملوث ملزمان کی گرفتاری تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ صورت حال ایک ایسی
طالبہ کے لیے ایک بدترین موڑ بن گئی جس نے محنت سے تعلیم حاصل کی تھی اور
مستقبل کے خواب دیکھے تھے، مگر اس کی زندگی میں ایک ایسا شخص آیا جس نے اس
کے خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔
ایک طالبہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس معاملے کے بارے
میں ایک سوشل میڈیا پیج کے ذریعے علم ہوا اور آہستہ آہستہ یہ بات پورے کالج
میں پھیل گئی۔ ایک دوسری لڑکی نے بتایا کہ اس نے خود چیخوں کی آوازیں سنی
تھیں اور وہ جانتی تھی کہ یہ واقعہ کب، کہاں اور کیسے ہوا، مگر اس دن کے
بعد سے کسی کا اس لڑکی سے بھی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا
کہ مبینہ طور پر ریپ کا شکار ہونے والی لڑکی کو کالج میں ایمبولینس بلا کر
ایک نجی ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ ایمبولینس ریسکیو
1122 کی تھی یا کسی اور سروس کی۔
طالبہ نے مزید کہا کہ انہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کالج انتظامیہ نے متاثرہ
لڑکی کے والدین کو ڈرایا دھمکایا، جس کی وجہ سے وہ سامنے نہیں آ رہے۔ ان کا
یہ بھی کہنا تھا کہ انتظامیہ نے بیسمنٹ سے کیمرے ہٹا دیے، جو ایک مشکوک
اقدام ہے۔ اگر کچھ نہیں ہوا تو پھر کیمرے کیوں ہٹائے گئے؟
پنجاب پولیس نے اس واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ کالج میں ذیادتی
کا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ اے ایس پی شہربانو نقوی نے میڈیا سے بات
کرتے ہوئے بتایا کہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق ایسے کسی واقعے کے شواہد
نہیں ملے ہیں۔ جن لڑکیوں کے ناموں کا ذکر کیا جا رہا ہے، پولیس نے ان کے
گھروں میں جا کر چھان بین کی، مگر کسی بھی لڑکی یا ان کے والدین نے ایسی
کوئی شکایت نہیں کی۔
یہاں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب کالج کے طلباء کی تمام ویڈیوز سوشل میڈیا
پر موجود ہیں، جن میں ایک طالبہ نے دعویٰ کیا کہ "دو دن ہو گئے ہیں، جس
بیسمنٹ میں ہم کھیلتے اور پڑھتے تھے، وہاں ایک بچی کے ساتھ ریپ ہوا۔اور یہ
لوگ اپنا جرم چھپانے کے لیے لڑکوں کو مار رہے ہیں۔
بدھ، 16 اکتوبر کو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس کیس کے حوالے سے پریس
کانفرنس کی، جس میں انہوں نے کہا کہ لاہور میں ریپ کی ایک ایسی کہانی گھڑی
گئی جس کا سرے سے کوئی وجود نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خطرناک
منصوبہ ہے جس کا مقصد ایک سیاسی جماعت کی جانب سے بار بار انتشار پھیلانا
ہے۔ پریس کانفرنس میں موجود ایک طالبہ نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس کالج کیمپس
سے ہیں ہی نہیں جہاں یہ مبینہ واقعہ پیش آیا تھا، اور انہوں نے یہ پوری
کہانی دوسرے کیمپس کے طلبہ سے سنی۔ اس کانفرنس سے تو صاف نظر آرہا ہے کہ
پنجاب حکومت نے اس کو پروپگینڈا قرار دیا ہے اور اس کا سارا ملبہ سیاسی
جماعت پی ٹی آئی پر ڈال دیا ہے۔
یہ سارا معاملہ بہت ہی نازک موڑ پر کھڑا ہے، جہاں کسی کو بھی اس واقعے سے
متعلق کوئی خبر نہیں کہ آیا یہ واقعہ ہوا بھی ہے یا نہیں۔ اگر واقعی ایسا
کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تو حکومت کو میڈیا میں ہونے والی غلط معلومات کی
تحقیقات کرنی چاہئیں تاکہ اصل حقائق سامنے لائے جا سکیں۔ اس کےعلاوہ تعلیمی
اداروں میں شفافیت کو فروغ دینے کے لیے پالیسیز بنانی چاہیے جو طلبہ اور
والدین کے اعتماد کو بحال کریں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ طلبہ کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ ان کی آواز سنی جائے
گی، حکومت کو انہیں موثر فورمز فراہم کرنے چاہئیں جہاں وہ اپنے مسائل کو
براہ راست پیش کر سکیں۔ لیکن اگر یہ واقعہ حقیقت میں پیش آیا ہے تو حکومت
کو اسے دبانے کے بجائے اس کی مکمل تحقیقات کرنی چاہئیں۔
بطور صحافی میرے ذہن میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ اگر ایسا کوئی
واقعہ پیش آیا ہی نہیں تو پولیس نے چھوٹے چھوٹے بچوں پر لاٹھی چارج کیوں
کیا؟ کیوں انہیں جانوروں کی طرح مارا پیٹا گیا؟ پنجاب حکومت نے اس سارے
معاملے میں فوری ایکشن کیوں نہیں لیا؟ کبھی کہا جاتا ہے کہ جس بچی کا نام
لے کر افواہیں اڑائی جا رہی ہیں، ایسی کوئی بچی ہی موجود نہیں، تو کبھی اس
کے والد کو ماسک پہنا کر کیمرے کے سامنے بیان لیا جاتا ہے۔
یہ سوالات نہ صرف اس واقعے کی سنگینی کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ پورے معاشرے
کی حالت زار پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ اگر تعلیمی ادارے ہی محفوظ نہیں ہیں
تو باقی معاشرہ کیسا ہوگا؟ یہ واقعہ صرف ایک فرد کا نہیں، بلکہ پوری خواتین
کی آواز کی خاموشی کا نمونہ ہے۔ جب بھی ایسے واقعات پیش آتے ہیں، تو ان کے
اثرات صرف متاثرہ فرد تک محدود نہیں رہتے۔ یہ پورے معاشرے کو متاثر کرتے
ہیں۔ آخر خواتین خود کو کس حد تک محفوظ سمجھیں۔
ہراسمنٹ کی وجہ سے خوف اور شرم کا شکار ہونے کے بعد متاثرہ خواتین کا
معاشرتی رویہ تبدیل ہو جاتا ہے، اور وہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے
کترانے لگتی ہیں۔ ایسے واقعات کے بعد انصاف دلانا نہایت اہم ہے، کیونکہ اگر
ہم چاہتے ہیں کہ خواتین محفوظ رہیں، تو ہمیں قانون کو موثر بنانا ہوگا۔
مگر افسوس کہ بہت سے واقعات میں انصاف نہیں ملتا، جس کی وجہ سے متاثرہ
افراد مزید مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلے پر کھل کر بات کرنے،
تعلیم کو فروغ دینے، اور ایک ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جہاں خواتین خود
کو محفوظ محسوس کریں۔ والدین، اساتذہ، اور معاشرے کے دیگر افراد پر یہ ذمہ
داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس موضوع پر بات چیت کریں اور نوجوان نسل کو اس
مسئلے کی اہمیت سے آگاہ کریں۔
یہ واقعہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک محفوظ معاشرہ
قائم کرنے میں کامیاب ہیں؟ ہمیں مل کر اس مسئلے کا حل تلاش کرنا ہوگا، تاکہ
خواتین کو محفوظ، باعزت، اورآزاد زندگی گزارنے کا حق حاصل ہو۔ اس واقعے نے
نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی خواتین کے حقوق اور انصاف کے نظام پر
سوالات اٹھا دیے ہیں۔
اپنی تحریر ختم کرنے سے پہلے میں یہاں لڑکیوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں
کہ عزیز لڑکیوں، یہ جان لیں کہ آپ کی آواز طاقتور ہے اور آپ کی کہانی اہمیت
رکھتی ہے۔ ہراسمنٹ کے خلاف آواز اٹھانا نہ صرف آپ کا حق ہے بلکہ یہ آپ کی
طاقت کی علامت بھی ہے۔ جب آپ ہراسمنٹ کا سامنا کریں، تو اس کا مطلب یہ نہیں
کہ آپ کو خاموش رہنا چاہیے۔ بہادری کا مطلب ہے کہ آپ اپنی حفاظت کے لیے
کھڑی ہوں اور اپنی لڑائی خود لڑنے کی طاقت پیدا کریں۔ تعلیم حاصل کریں،
اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی رکھیں، اور اپنی آواز بلند کریں۔ یاد رکھیں،
آپ اکیلی نہیں ہیں۔ اپنی بہنوں، دوستوں، اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس جنگ
میں شامل ہوں۔ ہر آواز جو سنائی دیتی ہے، ایک قدم ہے تبدیلی کی طرف۔ آپ کی
بہادری نئی نسلوں کے لیے مثال بن سکتی ہے، لہذا اپنے حقوق کے لیے لڑیں اور
ہر قسم کے ظلم کے خلاف مضبوطی سے کھڑی رہیں۔
معیشہ اسلم، لاہور
|